مردم شماری اور معذور افراد
وطن عزیز کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ یہاں مردم شماری کرانے کے سلسلے میں بے جا تاخیر کی جاتی ہے
کفرٹوٹا خدا خدا کر کے۔ بالآخر مشترکہ مفادات کونسل نے آیندہ سال مارچ کے مہینے میں ملک بھر میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اس فیصلے میں مردم شماری کے ساتھ ساتھ خانہ شماری کا اہتمام بھی شامل ہے۔ وطن عزیز میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی جسے اب 18 سال ہونے کو آرہے ہیں۔ ملک میں اولین مردم شماری 1951 میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد 1961، 1972،1981 اور پھر 1998 مردم شماری کرائی گئی تھی۔
مردم شماری غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ کسی بھی ملک کے نظام کا انحصار اسی پر ہوتا ہے۔ ملک کی کل آبادی اور اس میں سالانہ اضافے کی شرح کا تعین بھی اسی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ملک کا تو عجب حال ہے۔ اس پر ہمیں ایک کھٹارا قسم کی موٹر گاڑی پر لکھا ہوا درج ذیل شعر یاد آرہا ہے:
کمال ڈرائیور نہ انجن کی خوبی
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
مردم شماری میں اس قدر تاخیر اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ہماری ملکی ادارے کتنی غفلت، سست روی اور غیر ذمے داری کا شکار ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو، خواہ وہ فوجی ہوں یا سویلین یا ان کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو حصول اقتدار اور پھر اس اقتدار کو طول دینے کے علاوہ کسی اور چیز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
رقبے کے اعتبار سے ہمارے ملک سے کئی گنا بڑا ہونے اور آبادی کے لحاظ سے بھی کئی گنا ہونے کے باوجود وہاں ہر دس سال بعد نہایت پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ مردم شماری اور خانہ شماری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وہاں 2011 میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اس میں پہلی مرتبہ بایومیٹرک ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کیا گیا تھا۔ اس مردم شماری کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ اس میں 16زبانیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ اس مردم شماری میں تعلیم، گھر گرہستی، مذہبی وابستگی اور عمر کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ اعداد و شمار بھی جمع کیے گئے تھے۔
وطن عزیز کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ یہاں مردم شماری کرانے کے سلسلے میں بے جا تاخیر کی جاتی ہے اور جب کبھی اس کا اہتمام کیا جاتا ہے تو اس کے بارے میں بے شمار شکایتیں منظر عام پر آجاتی ہیں۔ مثلاً بعض برادریاں اور حلقے اپنے ناجائز اثرورسوخ کے ذریعے اپنے لوگوں کی تعداد کا اندراج بڑھا چڑھا کر کرادیتے ہیں جس سے اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔اس طرح کی حرکتوں سے دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے اور وسائل کی تقسیم بھی غیر منصفانہ ہوجاتی ہے۔
پی پی پی کے سابقہ دور حکومت میں کی جانے والی خانہ شماری کا مقصد بھی قومی سطح پر مردم شماری کرانا تھا لیکن سابقہ حزب اختلاف پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرایا تھا اور اس وجہ سے یہ معاملہ متنازعہ ہوگیا تھا۔ اس قسم کی صورت حال کے تدارک کے لیے مشترکہ مفادات کونسل نے آیندہ کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مردم شماری اور خانہ شماری ساتھ ساتھ کی جائے گی۔
ایسی صورت حال میں جب کہ ملک کے گزشتہ عام انتخابات کے حوالے سے شدید اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں اور حکمراں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کشمکش کا سلسلہ جاری ہے۔
غیر متنازعہ اور شفاف مردم شماری کا انعقاد آیندہ عام انتخابات کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مردم شماری کے دوران غیر قانونی طور پر آباد ایسے افراد پر بھی کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے جنھوں نے جعلی شناختی کارڈ اور جعلی پاسپورٹ بنوا کر خود کو پاکستانی شہری ظاہر کیا ہوا ہے۔ یہ فیصلہ بھی بہت خوش آیند ہے کہ آیندہ مردم شماری ہمارے معتبر ترین قومی ادارے پاک فوج کی نگرانی میں کرائی جائے گی۔
مردم شماری کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں معذور افراد کی مردم شماری کا بھی انتہائی باقاعدگی کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں 1998 میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق معذور افراد کی شرح آبادی 2.4فی صد تھی۔ لیکن این جی اوز اور سول سوسائٹی نے ان اعداد و شمار کو تسلیم نہیں کیا تھا کیونکہ اس بارے میں ان کے کچھ تحفظات تھے۔ اسی مردم شماری کے مطابق ان معذوروں میں سے 7.6فیصد کو ''ذہنی معذوروں'' میں شمار کیا گیا تھا۔
''ذہنی معذور'' ایک مبہم سی اصطلاح ہے جس میں مختلف قسم کی معذوریوں مثلاً Autism، ADHD، ADD، Dyslexia وغیرہ میں کوئی تمیز و تفریق نہیں کی گئی ہے۔ نتیجتاً ان مختلف اقسام کے معذوروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کے تعین و تقرر میں انتظامی دشواریوں اور مسائل کا پیش آنا ایک فطری امر ہے جس کے باعث ایسے افراد کی بحالی کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوگیا ہے۔
معذوری سے متعلق اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ کے اجلاس منعقدہ 2014 میں معذوروں سے متعلق اعداد و شمار کے حوالے سے بہت سے مسائل زیر بحث آئے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ دنیا کی کل آبادی کا 15 فیصد حصہ معذوروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے 80فیصد معذور افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔
اجلاس میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ معذوروں کی غالب اکثریت کا تعلق غریب اور نادار طبقات سے ہے۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ معذوروں کے بارے میں جمع کرائے گئے اعداد و شمار قابل اعتبار بھی نہیں ہیں کیونکہ انھیں اکٹھا کرنے کا طریقہ کار ناقص ہونے کی وجہ سے بھروسے کے لائق نہیں ہے۔ چنانچہ جب تک اعداد و شمار کے طریقہ کار کو سائنسی بنیادوں پر استوار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک حقائق کی اصل تصویر سامنے نہیں آسکتی اور نتیجتاً اصلاح احوال کے لیے کوئی موثر اور کارگر حکمت عملی بھی اختیار نہیں کی جاسکتی۔
پاکستان میں معذوری کے بہت سے اسباب ہیں جن میں قدرتی وجوہات کے علاوہ مارپیٹ، ظلم و تشدد، گھریلو لڑائی جھگڑے اور دہشت گردی کے بے شمار واقعات بھی شامل ہیں۔ ان میں عم زادوں کے ساتھ شادی بیاہ کی روایت بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں پیدائشی طور پر معذور بچے بھی شامل ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہماری حکومت ایک معذور کی مالی اعانت پر 100 روپے سالانہ کی انتہائی قلیل رقم خرچ کرتی ہے جوکہ اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہے۔ تاہم وطن عزیز میں مخیر اور سخی لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو نہ صرف انفرادی طور پر معذوروں کی مدد کرتے ہیں بلکہ مختلف خیراتی اداروں کے توسط سے بھی مستحقین کی اعانت کا مستقل بندوبست کرتے ہیں۔ ایسے انسان دوستوں کو اس بات پر کامل یقین ہے کہ:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
معذوروں کی امداد میں سب سے بڑی رکاوٹ درست اور Up to date اعداد و شمار کی عدم دستیابی ہے جس کی وجہ سے ان کی قطعی تعداد کا تعین کرنے میں بہت دشواری پیش آرہی ہے۔ لہٰذا ارباب اختیار سے ہماری یہ دست بستہ گزارش ہے کہ آیندہ مردم شماری کراتے وقت معذور افراد کی مردم شماری کا خصوصی اہتمام کیا جائے تاکہ ان کی صحیح تعداد معلوم ہوسکے۔ اس سلسلے میں بلدیاتی نظام کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں لوکل گورنمنٹ یہ کام بدرجہ اتم نہایت آسانی اور کامیابی کے ساتھ انجام دیتی ہے۔