ارون دھتی رائے حق گوئی سے بھارت پریشان
ہیرا لال نے گاندھی کی اپنے خاندان سے بے اعتنائی کا گلہ اپنے عزیز و اقارب کے علاوہ غیروں سے بھی کیا تھا۔
SIALKOT:
بھارت کی سرکردہ حقوق انسانی کی کارکن اور معروف مصنفہ ارون دھتی رائے نے گورکھ پور میں منعقدہ فلم فیسٹیول میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت میں بڑے صنعتکاروں نے نہ صرف موجودہ بھارتی فلمی صنعت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور وہ اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں بلکہ ملکی سیاست پر بھی ان کا مکمل کنٹرول ہے وہ ماضی میں کئی سیاستدانوں کو بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آگے بڑھنے میں مدد کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ خود گاندھی جی کو مشہور صنعتکار خاندان برلا نے آگے بڑھایا تھا اور ان کی مالی اعانت کی تھی۔ ارون دھتی رائے بیباک اور نڈر خاتون ہیں انھیں حق و صداقت پر تبصرہ کرنے کی وجہ سے عالمی سطح پر اہمیت حاصل ہے وہ ''نربدا بچاؤ اندولن'' یعنی نربدا بچاؤ تحریک میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے پہلی دفعہ منظر عام پر آئیں۔ آپ کی تحریک کامیاب ہوئی اور بھارتی حکومت کو نربداندی پر ایک بڑے ہائیڈرو پروجیکٹ کی تعمیر سے دست بردار ہونا پڑا کیونکہ اس پروجیکٹ سے متاثر کسانوں کا کیس ارون دھتی رائے نے اس محنت اور ذہانت سے لڑا کہ ان کی جیت ہوگئی تھی۔
ارون دھتی رائے دنیا میں جہاں کہیں بھی لوگوں پر ظلم ہوتا ہے ان کے حق میں آواز بلند کرتی ہیں۔ وہ نہ تو حق و صداقت کی آواز کو اٹھانے میں اپنی حکومت سے کبھی ڈریں اور نہ ہی امریکا یا اسرائیل کی طاقت سے خوفزدہ ہوئیں۔ وہ فلسطینیوں کے حق میں اکثر آواز اٹھاتی رہتی ہیں اور اسرائیلی حکومت کو جم کر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔
وہ عراق، افغانستان اور شام میں امریکی پالیسیوں کو انسان کش قرار دیتی ہیں۔ انھوں نے 2002میں بمبئی میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف آواز بلند کی تھی اور بلا خوف و خطر بال ٹھاکرے پر مسلمانوں کے قتل عام کا الزام لگایا تھا۔ یہی ارون دھتی رائے ہیں جوکشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی کھل کر حمایت کرتی ہیں چند سال قبل لندن میں ایک عالمی کانفرنس میں کشمیر پر اپنے ملک بھارت کے قبضے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اقوام عالم پر زور دیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود اختیاری دلانے میں اپنا رول ادا کرے اور بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں، تشدد اور گرفتاریاں کا سلسلہ بند کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اس کے تاریخی پس منظر میں حل کرنے کے اقدامات اٹھائے۔
انھوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی دہشتگردی نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی ضمانت دے سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر بدستور قائم ہے۔ وہ محض فوجی طاقت کے بل پر کشمیر پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ وہ دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے کہ کشمیر کے حالات درست ہیں اور وہاں کشمیریوں کی تحریک آزادی کے کوئی آثار نہیں ہیں جیسے کہ رام جیٹھ ملانی جیسے بزرگ سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں کہ کشمیریوں کی اکثریت آزادی نہیں چاہتی۔
اگر واقعی کشمیریوں کی اکثریت آزادی کے خلاف ہے تو پھر بھارت کا مسئلہ ہی حل ہوگیا وہ دھڑلے سے سلامتی کونسل میں پاس کی گئیں قراردادوں پر عملدرآمد کرکے سرخرو ہو سکتا ہے اور کشمیر کو واقعی بھارت کا اٹوٹ انگ بنا سکتا ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مسئلہ کشمیر پہلے بھی بھارتی حکمرانوں کے لیے درد سر بنا ہوا تھا اور آج پہلے سے کہیں زیادہ درد سر بن گیا ہے۔ پہلے تو صرف پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر زور دیا جاتا تھا اور اب بھی دیا جا رہا ہے مگر اب دنیا کی نام ور ہستیاں بھی آواز اٹھا رہی ہیں۔
نیلسن منڈیلا کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے بہت متاثر تھے وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو اپنی تحریک آزادی کے تناظر میں دیکھتے تھے۔ انھوں نے بھارتی حکومت سے کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادی دینے کا پرزور مطالبہ کیا تھا نام ور حقوق انسانی کے علم بردار نوم چومسکی، برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھی کشمیریوں کی آزادی کے حق میں آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں مگر اب سب سے بڑی مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ خود بھارتی عوام مسئلہ کشمیر کو جلد ازجلد حل کرنے پر زور دینے لگے ہیں۔اب جہاں تک ارون دھتی رائے کے گاندھی کے بارے میں انکشاف کا تعلق ہے گاندھی کی ذات کے بارے میں اس سے پہلے بھی کئی انکشافات منظر عام پر آچکے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ گاندھی کی شخصیت تضادات کا شکار تھی۔ انھوں نے اپنے چہرے پر کئی چہرے سجا رکھے تھے۔ ایک طرف وہ سادھو سنت نظر آتے تھے تو دوسری جانب وہ رنگین مزاجی کا شاہکار تھے، کسی شخص کے کردار کو ہمیشہ اس کے گھر والوں سے تعلقات سے جانچا جاتا تھا۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گاندھی جنھیں سب مہاتما کہتے تھے کے اپنے بیوی بچوں سے تعلقات کشیدہ تھے۔ جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران بھی دوسری خواتین میں دلچسپی کی وجہ سے میاں بیوی میں ناچاقی رہی کئی مرتبہ معاملہ قطع تعلق تک جا پہنچا تھا ایک دفعہ گاندھی نے انھیں گھر سے باہر نکال دیا تھا۔
میاں بیوی کے تعلقات میں تلخی اس حد تک تھی کہ ایک دفعہ کستوری بائی سخت بیمار ہوگئیں اور ڈاکٹروں نے انھیں پنسلین کے استعمال کا مشورہ دیا مگر گاندھی نے منع کردیا کیونکہ وہ اسے ایک غیر ملکی دوا سمجھتے تھے چنانچہ بیوی کو پنسلین کے استعمال کے بجائے موت کو ترجیح دینے کا مشورہ دیا مگر ان کی دہری شخصیت اور خودساختہ اصولوں کی پامالی کا منظر اس طرح نظر آتا ہے کہ جب ایک دفعہ وہ خود ملیریا کا شکار ہوئے تو ڈاکٹروں نے انھیں کونین کا انجکشن لینے کا مشورہ دیا تو انھوں نے کچھ تردد کے بعد اسے قبول کرلیا تھا۔
1943میں کستوری بائی سخت بیمار ہوگئیں اور انھوں نے گاندھی کو بلانا چاہا تو گاندھی نے ان کے پاس جانے کے بجائے ایک خط میں لکھا کہ میں اس وقت سیاسی جدوجہد میں مصروف ہوں جسے میں ایک مذہبی فریضہ سمجھتا ہوں تم نہ تو میرا انتظار کرو اور نہ میرے نہ آنے کا برا مناؤ۔ کستوری بائی سخت کسمپرسی کی حالت میں 22 فروری 1944 کو انتقال کرگئیں۔ گاندھی کا اپنے بڑے بیٹے ہیرا لال سے اکثر جھگڑا رہتا تھا وہ گاندھی کی دوہری شخصیت سے واقف ہوچکا تھا چنانچہ وہ گاندھی کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی کی زندگی گزارتا تھا۔ ہیرا لال اپنے والد کے نظریات کو کھلم کھلا پرفریب قرار دیتا تھا۔
ہیرا لال نے گاندھی کی اپنے خاندان سے بے اعتنائی کا گلہ اپنے عزیز و اقارب کے علاوہ غیروں سے بھی کیا تھا۔ ہیرا لال نے ایک خط میں اپنے دوست ہرمین کیلن بیچ کو لکھا تھا کہ ان کے والد اپنے خاندان سے غافل ہوچکے ہیں۔ ہیرا لال نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک اجتماع میں اپنے والد کے نظریات کو گمراہ کن اور ناقابل تقلید قرار دیا تھا۔ گاندھی نے ہیرا لال سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے تھے اور اپنے چھوٹے بیٹے کو ہیرا لال سے لین دین تک کرنے سے منع کر دیا تھا۔
گاندھی پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ یہودی تنظیم فری میسن کے تنخواہ دار ملازم تھے ساتھ ہی برطانوی خفیہ ادارے سے بھی ان کا تعلق تھا۔ انگریزوں نے انھیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے افریقہ سے ہندوستان بھیجا تھا۔ مہاسبھائیوں کا کہنا ہے کہ وہ انگریزوں کے ایجنٹ تھے انھوں نے ہندوؤں کے مفادات کو سخت نقصان پہنچایا۔ مسلمانوں کے ایک گروہ کا کہنا تھا کہ گاندھی نے پاکستان کے قیام میں انگریزوں کی ہدایات کے مطابق سخت روڑے اٹکائے کیونکہ وہ ہندوستان میں رام راج قائم کرنا چاہتے تھے۔
بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ بظاہر وہ ہندو مہاسبھا پارٹی کے خلاف تھے مگر درپردہ مہاسبھا کے قریب تھے جس کا ثبوت وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو مہاسبھا کا کٹر نمایندہ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اسے کانگریس میں نہ صرف داخل کرایا بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کرایا حتیٰ کہ وزیر بھی بنوایا جب کہ نہرو گاندھی کے اس فعل پر سخت ناراض رہے۔ گوکہ گاندھی خود کو لبرل اور سیکولر کہتے تھے مگر قائد اعظم نے انھیں کٹر ہندو قرار دیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظم نے گاندھی کو خوب پہچانا تھا جب کہ مولانا آزاد اور دیگر کئی مسلم رہنما گاندھی کو سمجھنے میں ناکام رہے۔
گاندھی کی رنگین مزاجی کا مظہر جمشید پور کا وہ آشرم تھا جہاں وہ خود نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو تزکیہ نفس کا درس اور باقاعدہ جسمانی مشق کرایا کرتے تھے، اس آشرم میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ رہتے رات کو بھی ساتھ ہوتے اور گاندھی ان کے درمیان ہوتے تھے۔
ایسے میں ایک نیلوفر نامی لڑکی حاملہ ہوگئی تھی جس کی خبر جب اخباروں تک پہنچ گئی تو گاندھی نے اس معاملے کو ختم کرانے کی بہت کوشش کی مگر آخر میں ناچار اس فعل کا ذمے دار خود کو قرار دے دیا تھا۔ اس طرح ارون دھتی رائے کا گاندھی کو صنعتکار ''برلا'' کا نمک خوار قرار دینا کوئی عجوبہ بات دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن بہرحال ارون دھتی رائے کی بے باکی اور سچ گوئی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
بھارت کی سرکردہ حقوق انسانی کی کارکن اور معروف مصنفہ ارون دھتی رائے نے گورکھ پور میں منعقدہ فلم فیسٹیول میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت میں بڑے صنعتکاروں نے نہ صرف موجودہ بھارتی فلمی صنعت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور وہ اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں بلکہ ملکی سیاست پر بھی ان کا مکمل کنٹرول ہے وہ ماضی میں کئی سیاستدانوں کو بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آگے بڑھنے میں مدد کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ خود گاندھی جی کو مشہور صنعتکار خاندان برلا نے آگے بڑھایا تھا اور ان کی مالی اعانت کی تھی۔ ارون دھتی رائے بیباک اور نڈر خاتون ہیں انھیں حق و صداقت پر تبصرہ کرنے کی وجہ سے عالمی سطح پر اہمیت حاصل ہے وہ ''نربدا بچاؤ اندولن'' یعنی نربدا بچاؤ تحریک میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے پہلی دفعہ منظر عام پر آئیں۔ آپ کی تحریک کامیاب ہوئی اور بھارتی حکومت کو نربداندی پر ایک بڑے ہائیڈرو پروجیکٹ کی تعمیر سے دست بردار ہونا پڑا کیونکہ اس پروجیکٹ سے متاثر کسانوں کا کیس ارون دھتی رائے نے اس محنت اور ذہانت سے لڑا کہ ان کی جیت ہوگئی تھی۔
ارون دھتی رائے دنیا میں جہاں کہیں بھی لوگوں پر ظلم ہوتا ہے ان کے حق میں آواز بلند کرتی ہیں۔ وہ نہ تو حق و صداقت کی آواز کو اٹھانے میں اپنی حکومت سے کبھی ڈریں اور نہ ہی امریکا یا اسرائیل کی طاقت سے خوفزدہ ہوئیں۔ وہ فلسطینیوں کے حق میں اکثر آواز اٹھاتی رہتی ہیں اور اسرائیلی حکومت کو جم کر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔
وہ عراق، افغانستان اور شام میں امریکی پالیسیوں کو انسان کش قرار دیتی ہیں۔ انھوں نے 2002میں بمبئی میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف آواز بلند کی تھی اور بلا خوف و خطر بال ٹھاکرے پر مسلمانوں کے قتل عام کا الزام لگایا تھا۔ یہی ارون دھتی رائے ہیں جوکشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی کھل کر حمایت کرتی ہیں چند سال قبل لندن میں ایک عالمی کانفرنس میں کشمیر پر اپنے ملک بھارت کے قبضے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اقوام عالم پر زور دیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود اختیاری دلانے میں اپنا رول ادا کرے اور بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں، تشدد اور گرفتاریاں کا سلسلہ بند کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اس کے تاریخی پس منظر میں حل کرنے کے اقدامات اٹھائے۔
انھوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی دہشتگردی نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی ضمانت دے سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر بدستور قائم ہے۔ وہ محض فوجی طاقت کے بل پر کشمیر پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ وہ دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے کہ کشمیر کے حالات درست ہیں اور وہاں کشمیریوں کی تحریک آزادی کے کوئی آثار نہیں ہیں جیسے کہ رام جیٹھ ملانی جیسے بزرگ سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں کہ کشمیریوں کی اکثریت آزادی نہیں چاہتی۔
اگر واقعی کشمیریوں کی اکثریت آزادی کے خلاف ہے تو پھر بھارت کا مسئلہ ہی حل ہوگیا وہ دھڑلے سے سلامتی کونسل میں پاس کی گئیں قراردادوں پر عملدرآمد کرکے سرخرو ہو سکتا ہے اور کشمیر کو واقعی بھارت کا اٹوٹ انگ بنا سکتا ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مسئلہ کشمیر پہلے بھی بھارتی حکمرانوں کے لیے درد سر بنا ہوا تھا اور آج پہلے سے کہیں زیادہ درد سر بن گیا ہے۔ پہلے تو صرف پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر زور دیا جاتا تھا اور اب بھی دیا جا رہا ہے مگر اب دنیا کی نام ور ہستیاں بھی آواز اٹھا رہی ہیں۔
نیلسن منڈیلا کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے بہت متاثر تھے وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو اپنی تحریک آزادی کے تناظر میں دیکھتے تھے۔ انھوں نے بھارتی حکومت سے کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادی دینے کا پرزور مطالبہ کیا تھا نام ور حقوق انسانی کے علم بردار نوم چومسکی، برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھی کشمیریوں کی آزادی کے حق میں آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں مگر اب سب سے بڑی مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ خود بھارتی عوام مسئلہ کشمیر کو جلد ازجلد حل کرنے پر زور دینے لگے ہیں۔اب جہاں تک ارون دھتی رائے کے گاندھی کے بارے میں انکشاف کا تعلق ہے گاندھی کی ذات کے بارے میں اس سے پہلے بھی کئی انکشافات منظر عام پر آچکے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ گاندھی کی شخصیت تضادات کا شکار تھی۔ انھوں نے اپنے چہرے پر کئی چہرے سجا رکھے تھے۔ ایک طرف وہ سادھو سنت نظر آتے تھے تو دوسری جانب وہ رنگین مزاجی کا شاہکار تھے، کسی شخص کے کردار کو ہمیشہ اس کے گھر والوں سے تعلقات سے جانچا جاتا تھا۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گاندھی جنھیں سب مہاتما کہتے تھے کے اپنے بیوی بچوں سے تعلقات کشیدہ تھے۔ جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران بھی دوسری خواتین میں دلچسپی کی وجہ سے میاں بیوی میں ناچاقی رہی کئی مرتبہ معاملہ قطع تعلق تک جا پہنچا تھا ایک دفعہ گاندھی نے انھیں گھر سے باہر نکال دیا تھا۔
میاں بیوی کے تعلقات میں تلخی اس حد تک تھی کہ ایک دفعہ کستوری بائی سخت بیمار ہوگئیں اور ڈاکٹروں نے انھیں پنسلین کے استعمال کا مشورہ دیا مگر گاندھی نے منع کردیا کیونکہ وہ اسے ایک غیر ملکی دوا سمجھتے تھے چنانچہ بیوی کو پنسلین کے استعمال کے بجائے موت کو ترجیح دینے کا مشورہ دیا مگر ان کی دہری شخصیت اور خودساختہ اصولوں کی پامالی کا منظر اس طرح نظر آتا ہے کہ جب ایک دفعہ وہ خود ملیریا کا شکار ہوئے تو ڈاکٹروں نے انھیں کونین کا انجکشن لینے کا مشورہ دیا تو انھوں نے کچھ تردد کے بعد اسے قبول کرلیا تھا۔
1943میں کستوری بائی سخت بیمار ہوگئیں اور انھوں نے گاندھی کو بلانا چاہا تو گاندھی نے ان کے پاس جانے کے بجائے ایک خط میں لکھا کہ میں اس وقت سیاسی جدوجہد میں مصروف ہوں جسے میں ایک مذہبی فریضہ سمجھتا ہوں تم نہ تو میرا انتظار کرو اور نہ میرے نہ آنے کا برا مناؤ۔ کستوری بائی سخت کسمپرسی کی حالت میں 22 فروری 1944 کو انتقال کرگئیں۔ گاندھی کا اپنے بڑے بیٹے ہیرا لال سے اکثر جھگڑا رہتا تھا وہ گاندھی کی دوہری شخصیت سے واقف ہوچکا تھا چنانچہ وہ گاندھی کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی کی زندگی گزارتا تھا۔ ہیرا لال اپنے والد کے نظریات کو کھلم کھلا پرفریب قرار دیتا تھا۔
ہیرا لال نے گاندھی کی اپنے خاندان سے بے اعتنائی کا گلہ اپنے عزیز و اقارب کے علاوہ غیروں سے بھی کیا تھا۔ ہیرا لال نے ایک خط میں اپنے دوست ہرمین کیلن بیچ کو لکھا تھا کہ ان کے والد اپنے خاندان سے غافل ہوچکے ہیں۔ ہیرا لال نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک اجتماع میں اپنے والد کے نظریات کو گمراہ کن اور ناقابل تقلید قرار دیا تھا۔ گاندھی نے ہیرا لال سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے تھے اور اپنے چھوٹے بیٹے کو ہیرا لال سے لین دین تک کرنے سے منع کر دیا تھا۔
گاندھی پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ یہودی تنظیم فری میسن کے تنخواہ دار ملازم تھے ساتھ ہی برطانوی خفیہ ادارے سے بھی ان کا تعلق تھا۔ انگریزوں نے انھیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے افریقہ سے ہندوستان بھیجا تھا۔ مہاسبھائیوں کا کہنا ہے کہ وہ انگریزوں کے ایجنٹ تھے انھوں نے ہندوؤں کے مفادات کو سخت نقصان پہنچایا۔ مسلمانوں کے ایک گروہ کا کہنا تھا کہ گاندھی نے پاکستان کے قیام میں انگریزوں کی ہدایات کے مطابق سخت روڑے اٹکائے کیونکہ وہ ہندوستان میں رام راج قائم کرنا چاہتے تھے۔
بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ بظاہر وہ ہندو مہاسبھا پارٹی کے خلاف تھے مگر درپردہ مہاسبھا کے قریب تھے جس کا ثبوت وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو مہاسبھا کا کٹر نمایندہ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اسے کانگریس میں نہ صرف داخل کرایا بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کرایا حتیٰ کہ وزیر بھی بنوایا جب کہ نہرو گاندھی کے اس فعل پر سخت ناراض رہے۔ گوکہ گاندھی خود کو لبرل اور سیکولر کہتے تھے مگر قائد اعظم نے انھیں کٹر ہندو قرار دیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظم نے گاندھی کو خوب پہچانا تھا جب کہ مولانا آزاد اور دیگر کئی مسلم رہنما گاندھی کو سمجھنے میں ناکام رہے۔
گاندھی کی رنگین مزاجی کا مظہر جمشید پور کا وہ آشرم تھا جہاں وہ خود نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو تزکیہ نفس کا درس اور باقاعدہ جسمانی مشق کرایا کرتے تھے، اس آشرم میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ رہتے رات کو بھی ساتھ ہوتے اور گاندھی ان کے درمیان ہوتے تھے۔
ایسے میں ایک نیلوفر نامی لڑکی حاملہ ہوگئی تھی جس کی خبر جب اخباروں تک پہنچ گئی تو گاندھی نے اس معاملے کو ختم کرانے کی بہت کوشش کی مگر آخر میں ناچار اس فعل کا ذمے دار خود کو قرار دے دیا تھا۔ اس طرح ارون دھتی رائے کا گاندھی کو صنعتکار ''برلا'' کا نمک خوار قرار دینا کوئی عجوبہ بات دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن بہرحال ارون دھتی رائے کی بے باکی اور سچ گوئی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔