چہرہ آئینہ
صبح کے لمحات بھی کتنے پاکیزہ اور روحانی ہوتے ہیں جن میں فطرت کا حسن اپنے جوبن پر ہوتا ہے
اتوار کی صبح فجر کے بعد میں سمندرکے پرسکون ، خالی کنارے پر لکڑی کے بنچ پر بیٹھا تھا۔ دھیمی پرسکون لہریں کنارے پر آکر غائب ہو رہیں تھیں۔ دور سمندر کی گہرائیوں میں دھندلکا چھایا ہوا تھا۔ ہر سو پھیلا سکون اور سمندر کی گہرائی گویا میری روح میں اتر رہی تھی۔ میری نگاہیں اُفق پر تھیں۔میں صبح صبح سائیکلنگ کرتے ہوئے سنسان سڑکوں ، شفاف ہواؤں اور ہرے بھرے نظاروں سے ہوتا ہوا اپنے اس مخصوص پوائنٹ تک پہنچا تھا۔کنارے سے نزدیک ہی ایک ہوٹل کے باہر قطار سے غریب عورتیں ، بچے اور چند مرد بیٹھے چائے پراٹھے کا ناشتہ کرتے دکھائی دیے جنھیں اللہ کا کوئی بندہ ہر اتوار ناشتہ کراتا۔
صبح کے لمحات بھی کتنے پاکیزہ اور روحانی ہوتے ہیں جن میں فطرت کا حسن اپنے جوبن پر ہوتا ہے ، اپنی تروتازگی و خوبصورتی کے جلوے ہر طرف بکھیر رہا ہوتا ہے۔ میں ہر اتوار کی صبح انسانوں سے خالی، فطرت کے ان دل موہ لینے والے نظاروں میں جا بستا ہوں۔ وہ لطیف احساسات جو اگر برائے فروخت ہوتے تو یقینا دولت مندوں کے سوا کوئی انھیں خرید نہ سکتا۔
میں اس سنسان کنارے پر بیٹھا دیر تک سمندر ... اس پر پرواز کرتے سفید پرندوں ۔۔طلوع ہوتے حسین سورج۔۔اس کی مدھم دھوپ میں شبنم کے قطروں سے چمکتی گھاس کو دیکھتا رہتا۔ کبھی ہوا کے خوشگوار جھونکے محبت سے میرے بالوں کو سلجھا جاتے۔ میں فطرت کے ان دلکش مناظر سے خوب لطف اندوز ہوتا۔ وہ سب مجھے بہت توانائی اور طمانیت عطا کرتے ، میری روح کے اس خلا کو پر کرتے جسے کوئی اور پر نہ کر سکتا ۔
ایک عجیب بات میں نے محسوس کی کہ جب میں فطرت کے اپنے ان دوستوں سے ملاقات کے بعد واپس لوٹتا تو میرے چہرے پر ان کے عکس ہوتے ۔ میرے چہرے پر سمندر کی گہرائی، سبزے کی ہریالی، پھولوں کی مہک ، نیلے آسمان کی وسعت ، سکون سب کے اثرات موجود ہوتے۔ واپسی پر جب گھر کا کوئی فرد مجھے دیکھتا تو نجانے کیوں اس کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کے آثار نمودار ہو جاتے ۔
گویا میرے چہرے سے وہ تمام مناظر Reflect ہوتے جن کے ساتھ میں وقت بیتا کر آیا ہوتا ، میرا چہرہ آئینہ بن جاتا جس میں دوسرے دیکھنے والے بھی ان سب نظاروں کا عکس محسوس کر لیتے۔ ان میں بھی میرے مشائدات کا کچھ حصہ منتقل ہو جاتا۔ میں نے محسوس کیا کہ انسان جس ماحول اور عمل میں وقت گزارتا ہے ، اس کے اثرات اس کے چہرے اور وجود پر ایک مخصوص وقت تک کے لیے باقی رہتے ہیں ۔ ایک بار میں اپنی کتاب متلاشی کے سلسلے میں ایک بک اسٹور میں معلومات کے لیے پہنچا ۔
میں ان دنو ں تہجد شروع کر چکا تھا، اس روز بھی ایک پاکیزہ کیفیت کے گھیرے میں تھا۔کاؤنٹر پر موجود نوجوان سے جب میں نے اپنی کتاب کے بارے میں دریافت کیا تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوا گویا میری اندرونی کیفیت کا کچھ حصہ اس تک منتقل ہو گیا تھا۔ وہ خوشی اور شوق سے میری جانب دیکھ رہا تھا۔لیکن میں پہچان گیا کہ وہ میری طرف نہیں ، اس روشنی کی جانب دیکھ رہا تھا جو اس رات تہجد پڑھنے کی وجہ سے میرے چہرے پر تھی۔ یہ اس عمل کی کشش تھی جو اس کی روح کو میری جانب متوجہ کر رہی تھی۔
کچھ ایسا ہی تجربہ مجھے اس وقت بھی ہوتا جب میں کسی برے عمل یا گناہ سے گزرتا۔ اس کے برے ، تاریک اثرات بھی ایک مخصوص وقت تک میرے چہرے پر باقی رہتے جو دیکھنے والوں کو مجھ سے دور رہنے پر مائل کرتے ۔ وہ میری جانب شوق سے دیکھنا پسند نہ کرتے کیونکہ میری اندر کی برائی کا کچھ حصہ غیر محسوس طور پر ان تک منتقل ہوجاتا،جس کی وجہ سے وہ کم سے کم میری طرف راغب ہو تے۔
مجھ پر یہ راز کھلا کہ روحوں کا روحوں سے تعلق ہوتا ہے ، روحیں ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں ، پاکیزہ روح کو پسند اور ناپاک کو ناپسند کرتی ہیں۔ مجھے یہ بھی پتا چلا کہ ہمارے جسمانی معاملات بھی روحانی معاملات کی طرح ہی ہوتے ہیں ۔ ایک روز میں کار چلاتے ہوئے جا رہا تھا کہ اچانک ایک تیز رفتار مچھلی کا بدبودار ٹرک میرے آگے آکر چلنے لگا ، میں کوشش کے باوجود رش کی وجہ سے اسے اوور ٹیک نہ کر سکا اور کچھ دیر مجھے اس کے پیچھے ہی چلنا پڑا ۔ جب میں گھر پہنچا تو گھر والے مجھ سے کچھ دور دور رہنے لگے، تو مجھے اچانک یاد آیا کہ مجھ میں رچی مچھلی کی وہ ناگوار بو انھیں مجھ سے دور رکھنے کا باعث بن رہی تھی جسے میں بھول گیا تھا۔
اسی طرح ایک دفعہ میں ایک پر فیوم کی دکان پر کچھ خریداری کے لیے گیا اور کچھ دیر وہاں رہا۔ جب واپس لوٹا تو میرے وجود میں بسی مختلف خوشبوؤں کو بھی سب نے محسوس کر لیا۔اگر ہمارا واسطہ فطرت کے لطیف ، پاکیزہ ، روحانی نظاروں اور احساسات سے پڑتا ہے تو وہ ہماری روح میں جذب ہو کر دوسروں تک منتقل ہوتے ہیں، ان کی روحیں بھی ان سے پاکیزگی و روشنی حاصل کرتی ہیں لیکن اگرہمارے لمحات ناپاک اعمال و نظاروں کے درمیان گزریں تو انھیں بھی روحیں محسوس کر کے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر تے ہوئے ہم سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔
مجھے سمجھ میں آیا کہ کیوں اسلام میں اچھی صحبت اختیار کرنے پراتنا زور دیا گیا ہے۔اس لیے کہ صحبت کے اثرات کسی ایک شخص کے ذریعے پورے معاشرے تک پہنچتے ہیں۔ صحبت اگر اللہ والوں کی ہو گی تو وہاں وقت بیتانے والی روح اپنے اندر جذب روحانی و پاکیزہ اثرات دوسروںتک منتقل کرے گی اور اگر روح شیطانی رنگ میں رنگی ہو توویسے ہی اثرات معاشرے میں پھیلانے کا باعث بنے گی ۔
قرآن ِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ:''جس دن تم مومن مرد اور مومنہ عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہوگا، اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ ایک نظر ہماری طرف بھی کروکہ ہم بھی تمھارے نور سے کچھ روشنی حاصل کریں۔۔'' (سورۃ الحدید، آیت ۳۱۔۲۱)
مجھ پر انکشاف ہوا کہ ویسا ہی نور اس دنیا میں بھی پاکیزہ صحبت میں رہنے والے اللہ کے نیک بندوں کے چہروں سے چھلکتا ہے۔ جسے روحیں فوراً پہچان لیتی ہیں، ان کی جانب کھنچتی ہیں۔انسان کا رخ جس سمت ہوتا ہے ویسا ہی Reflection اس کے چہرے پر آتا ہے ۔ جس طرح سورج کی جانب دیکھنے والے کا چہرہ روشن نظر آتا ہے اور تاریکی کی طرف دیکھنے والے کا تاریک ، اسی طرح انسان کا رخ اگر اللہ کی جانب ہو تو چہرے پر نور دکھائی دیتا ہے، اور اگر شیطان کی جانب ہو تو سرخ و سفید چہرے بھی تاریک دکھائی دیتے ہیں ۔
مجھے پتا چلاکہ فطرت کے یہ پاکیزہ نظارے انسان کو پاکیزگی و وسعت عطا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔اس کے اندر سے مایوسی و گناہ کے اندھیرے نکال کر اس کی روح کو نور ا ور سکون کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ صبح کے ان روحانی لمحات کی صحبت انسان کو بہت کچھ عطا کر سکتی ہے ۔
بس شرط ہے کہ کوئی ان سے لینے کا آرزو مند ہو ۔میں نے محسوس کیا کہ جب بھی میں ایک آدھ گھنٹہ نیٹ یا فیس بک پر صرف کر کے اٹھتا تو میرے اعصاب پر بوجھ اور چہرے پر تاریکی چھائی ہوتی، بیزاری کی کیفیت ہوتی۔ لیکن جب میں کچھ دیر صحبت ِ قرآن میں گزارتا، تو میری روح پرسکون اور چہرے پر نور کی کیفیت طاری ہو تی جسے میں ہی نہیں دوسرے بھی محسوس کر تے ، ان کی روحوں میں بھی میرا وہ پاکیزگی کا احساس منتقل ہو جاتا اور ان کے رویوں میں میرے لیے پسندیدگی پیدا ہو جاتی۔