مستقبل کے معماروں کے ساتھ ’کھیل‘ جاری ہے
پی آئی اے کے ایک سابق سربراہ نے پورے شدومد کے ساتھ ایک نجی ٹی وی چینل پر فرمایا تھا کہ آپ اُلٹے لٹک جائیں پی آئی اے سے کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے۔ جب کسی ادارے کا سربراہ ایسی باتیں کر رہا ہو تو عام شخص کتنی بے بسی محسوس کرتا ہے۔
اسی طرح ہمارے ہاں میٹرک بورڈ کا حال ہے جس کے مسائل نہ جانے کب ختم ہوں گے۔ کوئی ایک سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ متعلقہ ادارے اگر اپنی سی کوشش بھی کریں تو حکومت اور بیوروکریسی کے کرتا دھرتا ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ وہ کام نہ ہونے پائے۔
میٹرک کے امتحانات شروع ہوچکے ہیں۔ یہ امتحانات 17 اپریل تک چلیں گے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بہت سارے طالب علموں کو ایڈمٹ کارڈ ہی نہیں ملے۔ کراچی میں میٹرک بورڈ نے اس سال بھی روایت کو برقرار رکھا، آج سے امتحانات شروع ہوچکے ہیں لیکن طلبہ وطالبات کو ایڈمٹ کارڈز تاحال نہیں مل سکے۔
کراچی میں میٹرک کے امتحانات میں تین لاکھ سے زائد طلبہ شریک ہوں گے تاہم ابھی تک نویں دسویں کلاس کے ایڈمٹ کارڈز دستیاب نہیں اور جن طلبہ کو ایڈمٹ کارڈ ملے تو ان کے سینٹرز نہیں مل پارہے، تو سوال یہ ہے کہ جناب بھلا کوئی تو بتائے کہ اب یہ طلبہ پیپرز کیسے دینگے؟ طلبہ کے ساتھ ساتھ ان کے والدین بھی پریشان ہیں، جو کئی گھنٹوں تک بورڈ آفس میں چکر لگاتے ہیں مگر بچوں کے ایڈمٹ کارڈ نہیں مل رہے، حسب معمول میٹرک بورڈ انتظامیہ نے ایڈمٹ کارڈز نہ ملنے کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔
بورڈ آفس سے ''ابھی دے رہے ہیں انتظار کریں'' والا معاملہ چل رہا ہے۔ یہ کوئی ابھی کا مسئلہ نہیں ہے تقریباً کئی برسوں سے یہ معاملہ چل رہا ہے۔ عین وقت پر طلبہ ایڈمٹ کارڈ نہ ملنے پر خوار ہورہے ہوتے ہیں۔ چند برس پہلے اس معاملے پر طلبہ سڑکوں پر بھی نکل آئے کہ امتحانی فیس جمع کرانے کے باوجود اُنھیں ایڈمٹ کارڈ نہیں ملے ہیں۔ اس میں قصور صرف میٹرک بورڈ آفس کا نہیں ہے۔ کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والے نجی اسکولز بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اکثر اسکول رجسٹر نہیں ہوتے اور وہ دیگر اسکولز کے سربراہان کے ساتھ اپنی ذاتی سیٹنگز کے ذریعے بچوں کے فارم جمع کرا کر امتحان دلواتے ہیں۔ یہاں اکثر اوقات طلبہ بُری طرح پِس جاتے ہیں۔
کچھ اسکولز کا تو معاملہ یہ ہے کہ سارا سال اسکول نہ آو ۔۔۔ پیسے جمع کراو اور امتحان دے دو۔ جس نے پورے سال نہ پڑھا ہو وہ پیپر کیسے دیتا ہے، عقل کا اندھا بھی جان سکتا ہے۔ نجی اسکولز جہاں فیسوں کے نام پر طلبہ سے خوب فیس بٹورتے ہیں وہیں پیسہ کھلا کر اپنا بورڈ ایسے علاقے کے اسکول میں ڈلواتے ہیں جہاں طلبہ کے لیے فرشتوں کی امداد بغیر کسی رکاوٹ کے آتی رہے۔
سرکاری حکام کے تمام تر دعوے اور انتظامات بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ حیدرآباد، ڈہرکی، میرپور ماتھیلو، جیکب آباد، شکارپور اور لاڑکانہ سمیت متعدد شہروں میں کھلے عام نقل ہوتی رہی ہیں۔ حیدرآباد میں ریجن بھر کے 10 اضلاع میں 213 امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے نقل عروج پر رہی۔ سکھر میں بھی پرچے کے دوران انتظامیہ کی جانب سے تشکیل دی گئیں ویجلنس ٹیمیں نقل کی روک تھام کے لیے امتحانی مراکز کا دورہ کرتی رہی مگر نقل مافیا کو روک نہ سکیں۔
ڈہرکی میں نویں جماعت کا پرچہ وقت سے پہلے آؤٹ ہوگیا۔ نقل مافیا امتحانی مراکز کے باہر کھیتوں میں پرچہ حل کرانے میں مصروف نظر آئی۔ جسے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ میرپور ماتھیلو میں نویں جماعت کے معاشرتی علوم کے پرچے میں کھلم کھلا نقل کی گئی۔ امتحانی مراکز کے اطراف نافذ دفعہ 144 کی بھی دھجیاں اڑادی گئیں۔ جیکب آباد اور شکارپور میں بھی لاڑکانہ تعلیمی بورڈ کے تحت میٹرک امتحانات شروع ہوگئے ہیں۔ جیکب آباد میں نویں جماعت کے پرچے میں کھلم کھلا نقل کی گئی۔ نقل مافیا ہر سال وزارت تعلیم کے تمام تر انتظامات کا مذاق اڑاتی نظر آتی ہے۔
جس طرح پی آئی اے سے کرپشن کے خاتمے کو ناممکن بنا دیا گیا ہے بالکل ویسے ہی میٹرک کے امتحانات میں نقل کو ختم کرنا ایک خواب بن چکا ہے۔ نجانے اس بھیانک خواب سے ہمارے متعلقہ اداروں کو کون جگائے گا۔
[poll id="343"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔