پی ٹی آئی سوال تعاقب کریں گے
محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے قریبی ساتھیوں نے ہمیشہ اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اس سیاسی غلطی کی ...
6اپریل کو عمران خان اور ان کی جماعت پارلیمنٹ میں واپس آگئی۔ ایوان سے ان کی غیر حاضری 7 ماہ سے زیادہ رہی۔ پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اگست 2014میں ایوانوں سے مستعفی ہوگئے تھے لیکن اسپیکر نے ان کے استعفے منظور نہیں کیے تھے۔
ان ارکان نے لاکھوں رائے دہندگان کو ان کے حق نمایندگی سے اتنے طویل عرصے تک کیوں محروم رکھا اور آج ان کی نمایندگی کے لیے وہ ایوان میں کیوں موجود ہیں؟ یہ ایک طویل اور پراسرار داستان ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نوازشریف نے غلطیوں سے سبق سیکھا اور اپنے طرز سیاست کو بہتر بنانے کی شعوری کوششیں کیں۔ 1985 میں جنرل ضیا الحق نے جب غیر جماعتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو اس وقت بے نظیر بھٹو نے ان میں حصہ نہ لینے کا جذباتی اور غیر دانش مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے ان کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تھا۔
اس فیصلے کے جو تباہ کن نتائج برآمد ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی آج تک ان کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ انھوں نے یہ غلط سیاسی فیصلہ نہ کیا ہوتا تو نواز شریف کو قومی سطح کے رہنما بننے میں کئی برس اور لگ جاتے۔ پیپلزپارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جس سے ایک خلا پیدا ہوا، اور چونکہ خلا محال ہے قدرت کے کارخانے میں، اس لیے نواز شریف نے بالآخر اسے پورا کردیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے قریبی ساتھیوں نے ہمیشہ اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اس سیاسی غلطی کی ان کو اور ان کی پارٹی کو بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ بے نظیر بھٹو میں غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت موجود تھی لہٰذا انھوں نے یہ اٹل فیصلہ کیا کہ عام انتخابات خواہ کوئی بھی کرائے اور اس کی شرائط کتنی ہی یک طرفہ اورسخت کیوں نہ ہوں، انتخابات کا بائیکاٹ کسی بھی قیمت پر نہیں کیا جائے گا۔
1985 کے بعد انھوں نے اس غلطی کو کبھی نہیں دہرایا۔ اسی طرح محمد نواز شریف نے بھی ایک موقع پر جنرل پرویز مشرف کی زیر نگرانی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن بعدازاں پیپلزپارٹی اور دیگر دوستوں کے سمجھانے پر انھوں نے یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو آج نہ وزیراعظم ہوتے اور نہ ان کی مسلم لیگ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہوتی۔
پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے تجربے اور غلطیوں سے نہ سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور یہ ثابت کرنے پر زیادہ زور لگایا ہے کہ انھوں نے کوئی غلط فیصلہ کبھی نہیں کیا۔
یہ شاید پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے آج تک ایک مرتبہ بھی اپنی کسی ایک غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔ سات ماہ تک ایوانوں سے باہر رہنے، اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینے اور وہاں انتہائی جارحانہ اور غیر ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کرنے سے انھیں جو سیاسی نقصان پہنچا ہے اس کا اندازہ انھیں ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
آج جب وہ اور ان کی جماعت کے ارکان قومی اسمبلی میں واپس آگئے ہیں تو یہ سوال ان کا پیچھا کرتا رہے گا کہ اسلام آباد میں جس پارلیمنٹ کے خلاف مورچہ بندی کی گئی تھی اور جس ایوان میں بیٹھے ہوئے عوام کے منتخب کردہ معزز اراکین کو چور، ڈاکو، لٹیرا، بدمعاش اور نہ جانے کیا کیا کہا تھا، جس ایوان کو ''جعلی ایوان'' قرار دے کر وہاں کبھی واپس نہ جانے کا ببانگ دہل اعلان کیا جاتا تھا، وہ آج ان ہی ''چوروں'' کے ساتھ ایک ''جعلی ایوان'' میں کیوں براجمان ہیں؟یہ سوال ان کا کبھی تعاقب نہ کرتا اگر وہ سیاسی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کردیتے کہ ایوانوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ غلط تھا، جو انھیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔
پارلیمنٹ ملک کا معزز اور اعلیٰ ترین ادارہ ہے جس سے راہ فرار وہی اختیار کرتا ہے جس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔ اس غلط بات کو جواز بناکر لوگوں کو کچھ دیر کے لیے ابہام میں رکھا جاسکتا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بعد ہم ایوانوں میں واپس آجائینگے۔
اس موقف کے جواب میں یہ سوال پوچھا جائے گا کہ ایک سے زیادہ مرتبہ آپ نے کسی بھی صورت میں دھاندلی زدہ پارلیمنٹ میں واپس نہ جانے کا عہد کیا تھا۔ ابھی جوڈیشل کمیشن کا صرف اعلان ہوا ہے، اس کی تشکیل تک نہیں ہوئی ہے، سپریم کورٹ اس ضمن میں کیا فیصلہ کرتی ہے یہ کسی کونہیں معلوم۔ ان تمام حقائق کے باوجود پارلیمنٹ میں واپسی کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ہوا کا رخ بدل چکا ہے۔
اقتدار میں آنے کے جو دروازے کبھی نیم وا ہوا کرتے تھے وہ اب بند ہوچکے ہیں بلکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان دروازوں پر اب قفل ڈال دیے گئے ہیں۔ غلطی کا اعتراف سیاسی ساکھ نہ صرف بچاتا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کرتا ہے، سیاست میں غلطیوں کا دفاع کرنا تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔
2013کے عام انتخابات کے بعد سے پی ٹی آئی کے سربراہ نے محاذ آرائی کی جو پالیسی اختیار کی اور اگست 2014 کے بعد سے اس میں جو تیزی اور جارحیت پیدا کی گئی اس نے پارٹی اور اس کی قیادت کے لیے بہت سے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ کوئی سیاستدان قومی رہنما بن کر اگر وزیراعظم کا منصب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے وحشت نہیں، حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کی ریاست کو ایک نہیں درجنوں مسائل کا سامنا ہے جو اب اتنے سنگین ہوچکے ہیں کہ انھیں تحمل، بردباری، تدبر اور حکمت سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
2013تک پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ دہشت گرد جب اور جہاں چاہتے حملے کرتے تھے۔ معصوم شہریوں، معزز شخصیات اور فوجی جرنیلوں سمیت ہزاروں لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے تھے۔ معیشت تباہی سے دوچار تھی، یہ تجزیے آرہے تھے کہ چند برسوں میں پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔ بعض دانشوروں نے تو اس خطے کے نئے نقشے تک مرتب کرنے شروع کردیے تھے۔ یہی وقت تھا جب افغانستان، امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑرہے تھے۔
امریکاافغانستان سے واپسی کے منصوبے بنارہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ 2013پاکستان کے لیے مشکل ترین سال تھا۔ پاکستان کو فیصلہ کرنا تھا کہ اسے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔
کیا وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنا عملی کردار ادا کرنے پر تیار ہے؟ کیا پاکستان خطے کے ملکوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا بین الاقوامی برادری کے ذہنوں میں پاکستان کے بارے میں جو خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں، پاکستان عملی اقدامات کے ذریعے انھیں دور کرنے پر آمادہ ہے یا نہیں؟ 2013 کے اس اہم سال میں یہ فیصلہ بھی کرنا تھا کہ پاکستان میںجمہوریت کا تسلسل برقرار رہے گا یا آمرانہ قوتوں کی بالادستی قائم رکھی جائے گی۔
مذکورہ بالا پس منظر میں 2013کے عام انتخابات ہوئے، پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت کی جگہ نوازشریف کی مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کر کے حکومت تشکیل دی۔
نوازشریف کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ امتحان شروع ہوا کہ جن لوگوں اور اداروں کے پاس طاقت اور اختیار موجود ہے، کیا وہ پاکستان کو ان مسائل سے باہر نکالنے میں سنجیدہ ہیں۔یہ سیاسی قوتوں، پارلیمنٹ، میڈیا، عدلیہ، انتظامیہ اور عسکری قیادت سب کا ہی امتحان تھا۔وقت بہت جلد یہ فیصلہ کرنے والا تھا کہ اس امتحان میں کون کامیاب ہوگا اور کون پاکستان اور اس کے عوام کو مایوس کرے گا۔
13 مئی2013کے عام انتخابات کے بعد سے 6 اپریل 2015تک پاکستان میں جو واقعات رونما ہوئے ان سے کئی حقائق عیاں ہو گئے۔ پارلیمنٹ کے خلاف مورچہ لگایا گیا، محاذ آرائی کو جس طور آخری انتہا تک پہنچایا گیا اور وزیراعظم کو مستعفی کرانے کے لیے جو زبان اور طرز عمل اختیار کیا گیا، اس سے یہ امر آشکار ہوگیا کہ بعض پس پردہ طاقتیں پاکستان کو مشکل ترین حالات سے نکالنے کے لیے ہنوز آمادہ نہیں ہیں۔
لیکن یہ امر باعث اطمینان ہے کہ محاذ آرائی کے دوران جب فیصلے کی گھڑی آئی تو پارلیمنٹ، سول اور عسکری قیادت اور ریاست کے دیگر آئینی اداروں نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی نظام کو ختم کرنے کے بجائے اسے جاری رکھنے اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے اور انتہا پسندی اور عسکریت پسندی سے نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ فیصلہ نہ ہوتا تو شاید7 ماہ سے جاری اس خطرناک اور پراسرار مہم جوئی کا اختتام بھی نہ ہوتا۔
پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کی ریاست اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، اسے جذباتی اور مہم جویانہ سیاست یا سیاست دانوں کی ضرورت نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے پاس وقت ہے کہ پارلیمنٹ میں واپسی کے بعد وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور اس بات کا جائزہ لے کہ دوسروں کو غلط ثابت کرنے سے اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوتی، بہتر قیادت اور سیاست کے لیے ماضی کے تجربوں سے سبق حاصل کرنا قطعاً ناگزیر ہے۔ اس کام میں مشکل پیش آئے تو جسٹس ریٹائرڈ وجہیہ الدین احمد جیسی شخصیت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ان ارکان نے لاکھوں رائے دہندگان کو ان کے حق نمایندگی سے اتنے طویل عرصے تک کیوں محروم رکھا اور آج ان کی نمایندگی کے لیے وہ ایوان میں کیوں موجود ہیں؟ یہ ایک طویل اور پراسرار داستان ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نوازشریف نے غلطیوں سے سبق سیکھا اور اپنے طرز سیاست کو بہتر بنانے کی شعوری کوششیں کیں۔ 1985 میں جنرل ضیا الحق نے جب غیر جماعتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو اس وقت بے نظیر بھٹو نے ان میں حصہ نہ لینے کا جذباتی اور غیر دانش مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے ان کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تھا۔
اس فیصلے کے جو تباہ کن نتائج برآمد ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی آج تک ان کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ انھوں نے یہ غلط سیاسی فیصلہ نہ کیا ہوتا تو نواز شریف کو قومی سطح کے رہنما بننے میں کئی برس اور لگ جاتے۔ پیپلزپارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جس سے ایک خلا پیدا ہوا، اور چونکہ خلا محال ہے قدرت کے کارخانے میں، اس لیے نواز شریف نے بالآخر اسے پورا کردیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے قریبی ساتھیوں نے ہمیشہ اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اس سیاسی غلطی کی ان کو اور ان کی پارٹی کو بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ بے نظیر بھٹو میں غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت موجود تھی لہٰذا انھوں نے یہ اٹل فیصلہ کیا کہ عام انتخابات خواہ کوئی بھی کرائے اور اس کی شرائط کتنی ہی یک طرفہ اورسخت کیوں نہ ہوں، انتخابات کا بائیکاٹ کسی بھی قیمت پر نہیں کیا جائے گا۔
1985 کے بعد انھوں نے اس غلطی کو کبھی نہیں دہرایا۔ اسی طرح محمد نواز شریف نے بھی ایک موقع پر جنرل پرویز مشرف کی زیر نگرانی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن بعدازاں پیپلزپارٹی اور دیگر دوستوں کے سمجھانے پر انھوں نے یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو آج نہ وزیراعظم ہوتے اور نہ ان کی مسلم لیگ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہوتی۔
پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے تجربے اور غلطیوں سے نہ سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور یہ ثابت کرنے پر زیادہ زور لگایا ہے کہ انھوں نے کوئی غلط فیصلہ کبھی نہیں کیا۔
یہ شاید پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے آج تک ایک مرتبہ بھی اپنی کسی ایک غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔ سات ماہ تک ایوانوں سے باہر رہنے، اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینے اور وہاں انتہائی جارحانہ اور غیر ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کرنے سے انھیں جو سیاسی نقصان پہنچا ہے اس کا اندازہ انھیں ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
آج جب وہ اور ان کی جماعت کے ارکان قومی اسمبلی میں واپس آگئے ہیں تو یہ سوال ان کا پیچھا کرتا رہے گا کہ اسلام آباد میں جس پارلیمنٹ کے خلاف مورچہ بندی کی گئی تھی اور جس ایوان میں بیٹھے ہوئے عوام کے منتخب کردہ معزز اراکین کو چور، ڈاکو، لٹیرا، بدمعاش اور نہ جانے کیا کیا کہا تھا، جس ایوان کو ''جعلی ایوان'' قرار دے کر وہاں کبھی واپس نہ جانے کا ببانگ دہل اعلان کیا جاتا تھا، وہ آج ان ہی ''چوروں'' کے ساتھ ایک ''جعلی ایوان'' میں کیوں براجمان ہیں؟یہ سوال ان کا کبھی تعاقب نہ کرتا اگر وہ سیاسی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کردیتے کہ ایوانوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ غلط تھا، جو انھیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔
پارلیمنٹ ملک کا معزز اور اعلیٰ ترین ادارہ ہے جس سے راہ فرار وہی اختیار کرتا ہے جس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔ اس غلط بات کو جواز بناکر لوگوں کو کچھ دیر کے لیے ابہام میں رکھا جاسکتا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بعد ہم ایوانوں میں واپس آجائینگے۔
اس موقف کے جواب میں یہ سوال پوچھا جائے گا کہ ایک سے زیادہ مرتبہ آپ نے کسی بھی صورت میں دھاندلی زدہ پارلیمنٹ میں واپس نہ جانے کا عہد کیا تھا۔ ابھی جوڈیشل کمیشن کا صرف اعلان ہوا ہے، اس کی تشکیل تک نہیں ہوئی ہے، سپریم کورٹ اس ضمن میں کیا فیصلہ کرتی ہے یہ کسی کونہیں معلوم۔ ان تمام حقائق کے باوجود پارلیمنٹ میں واپسی کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ہوا کا رخ بدل چکا ہے۔
اقتدار میں آنے کے جو دروازے کبھی نیم وا ہوا کرتے تھے وہ اب بند ہوچکے ہیں بلکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان دروازوں پر اب قفل ڈال دیے گئے ہیں۔ غلطی کا اعتراف سیاسی ساکھ نہ صرف بچاتا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کرتا ہے، سیاست میں غلطیوں کا دفاع کرنا تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔
2013کے عام انتخابات کے بعد سے پی ٹی آئی کے سربراہ نے محاذ آرائی کی جو پالیسی اختیار کی اور اگست 2014 کے بعد سے اس میں جو تیزی اور جارحیت پیدا کی گئی اس نے پارٹی اور اس کی قیادت کے لیے بہت سے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ کوئی سیاستدان قومی رہنما بن کر اگر وزیراعظم کا منصب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے وحشت نہیں، حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کی ریاست کو ایک نہیں درجنوں مسائل کا سامنا ہے جو اب اتنے سنگین ہوچکے ہیں کہ انھیں تحمل، بردباری، تدبر اور حکمت سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
2013تک پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ دہشت گرد جب اور جہاں چاہتے حملے کرتے تھے۔ معصوم شہریوں، معزز شخصیات اور فوجی جرنیلوں سمیت ہزاروں لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے تھے۔ معیشت تباہی سے دوچار تھی، یہ تجزیے آرہے تھے کہ چند برسوں میں پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔ بعض دانشوروں نے تو اس خطے کے نئے نقشے تک مرتب کرنے شروع کردیے تھے۔ یہی وقت تھا جب افغانستان، امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑرہے تھے۔
امریکاافغانستان سے واپسی کے منصوبے بنارہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ 2013پاکستان کے لیے مشکل ترین سال تھا۔ پاکستان کو فیصلہ کرنا تھا کہ اسے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔
کیا وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنا عملی کردار ادا کرنے پر تیار ہے؟ کیا پاکستان خطے کے ملکوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا بین الاقوامی برادری کے ذہنوں میں پاکستان کے بارے میں جو خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں، پاکستان عملی اقدامات کے ذریعے انھیں دور کرنے پر آمادہ ہے یا نہیں؟ 2013 کے اس اہم سال میں یہ فیصلہ بھی کرنا تھا کہ پاکستان میںجمہوریت کا تسلسل برقرار رہے گا یا آمرانہ قوتوں کی بالادستی قائم رکھی جائے گی۔
مذکورہ بالا پس منظر میں 2013کے عام انتخابات ہوئے، پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت کی جگہ نوازشریف کی مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کر کے حکومت تشکیل دی۔
نوازشریف کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ امتحان شروع ہوا کہ جن لوگوں اور اداروں کے پاس طاقت اور اختیار موجود ہے، کیا وہ پاکستان کو ان مسائل سے باہر نکالنے میں سنجیدہ ہیں۔یہ سیاسی قوتوں، پارلیمنٹ، میڈیا، عدلیہ، انتظامیہ اور عسکری قیادت سب کا ہی امتحان تھا۔وقت بہت جلد یہ فیصلہ کرنے والا تھا کہ اس امتحان میں کون کامیاب ہوگا اور کون پاکستان اور اس کے عوام کو مایوس کرے گا۔
13 مئی2013کے عام انتخابات کے بعد سے 6 اپریل 2015تک پاکستان میں جو واقعات رونما ہوئے ان سے کئی حقائق عیاں ہو گئے۔ پارلیمنٹ کے خلاف مورچہ لگایا گیا، محاذ آرائی کو جس طور آخری انتہا تک پہنچایا گیا اور وزیراعظم کو مستعفی کرانے کے لیے جو زبان اور طرز عمل اختیار کیا گیا، اس سے یہ امر آشکار ہوگیا کہ بعض پس پردہ طاقتیں پاکستان کو مشکل ترین حالات سے نکالنے کے لیے ہنوز آمادہ نہیں ہیں۔
لیکن یہ امر باعث اطمینان ہے کہ محاذ آرائی کے دوران جب فیصلے کی گھڑی آئی تو پارلیمنٹ، سول اور عسکری قیادت اور ریاست کے دیگر آئینی اداروں نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی نظام کو ختم کرنے کے بجائے اسے جاری رکھنے اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے اور انتہا پسندی اور عسکریت پسندی سے نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ فیصلہ نہ ہوتا تو شاید7 ماہ سے جاری اس خطرناک اور پراسرار مہم جوئی کا اختتام بھی نہ ہوتا۔
پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کی ریاست اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، اسے جذباتی اور مہم جویانہ سیاست یا سیاست دانوں کی ضرورت نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے پاس وقت ہے کہ پارلیمنٹ میں واپسی کے بعد وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور اس بات کا جائزہ لے کہ دوسروں کو غلط ثابت کرنے سے اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوتی، بہتر قیادت اور سیاست کے لیے ماضی کے تجربوں سے سبق حاصل کرنا قطعاً ناگزیر ہے۔ اس کام میں مشکل پیش آئے تو جسٹس ریٹائرڈ وجہیہ الدین احمد جیسی شخصیت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔