جاہلوں کا نخلستان

ہمیں اس کی کچھ زیادہ فکر نہیں کہ اس کیمیکل لوچے کی وجہ سے ہمیں کچھ نقصان ہو جائے گا...

barq@email.com

اب تو اس میں کوئی بھی شک و شبہ باقی نہیں رہا ہے کہ ہمارے دماغ کے اندر کا ''کیمیکل لوچا'' بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے، ویسے تو یہ کیمیکل لوچا ہمارے دماغ میں بڑے عرصے سے تھا شاید پیدائشی ہو بلکہ جدی پشتی بھی ہو سکتا ہے لیکن ہم کسی نہ کسی طرح اسے قابو کیے رکھتے تھے، زیادہ سے زیادہ یہ کر لیتے تھے کہ کسی تقریب سے لوٹنے کے بعد جن جن دانشوروں کے مقالے سن چکے ہوتے، ان کے بارے میں باآواز بلند جس کا سننے والا ہمارے سوا اور کوئی نہ ہوتا تھا کچھ ایسے خیالات کا اظہار کرتے جو احاطہ تحریر میں تو کیا احاطہ تقریر میں بھی لانے کے قابل نہیں ہوتے تھے۔

آخر تنگ آکر تقریبات میں جانا تو ہم نے چھوڑ دیا کہ کون روز روز اپنے کان اپنی آنکھیں اور اپنی زبان ''اپوتر'' کرے یعنی جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟، لیکن اس کم بخت شیطانی ڈبے کا کیا کریں جسے ٹی وی کہتے ہیں اور اس ابلیسی ڈبیہ کو کہاں پھینکیں جسے موبائل فون کہتے ہیں اور بجا طور پر کہتے ہیں کیونکہ جب سے اس کم بخت نے ہماری زندگی میں قدم رکھا ہے، ہم مسلسل ''موبائل'' یا زمین کا گز بنے پھرتے ہیں۔ جہاں بھی جائیں،کوئی کسی تقریب کا دعوت نامہ پکڑا دیتا ہے۔

فون پر اگر آواز نہیں آرہی ہے ۔۔۔ کہتے ہیں تو ''مسیج'' سے کہاں بھاگیں گے۔ سیدھی بات ہے کہ ایسے میں دماغ کا لوچا بڑھے گا نہیں تو اور کیا کرے گا، سو آج کل ہمارے دماغ میں کیمیکل لوچا بلکہ اب تو یہ بھی شبہ ہونے لگا ہے کہ دماغ باقی بھی رہا ہے یا نہیں کیونکہ کھوپڑی لوچوں ہی لوچوں سے بھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

ہمیں اس کی کچھ زیادہ فکر نہیں کہ اس کیمیکل لوچے کی وجہ سے ہمیں کچھ نقصان ہو جائے گا، زیادہ سے زیادہ ''دماغ'' کا کباڑا ہو جائے گا تو ہو جائے، اس کم بخت نے ہمیں اب تک کیا دیا ہے جو اس کے بعد دے گا اور پھر جہاں رہتے ہیں وہاں اس دماغ کے بغیر بھی بلکہ دماغ کے بغیر ہی اچھا خاصا کام چل جاتا ہے تو پھر سر میں خواہ مخواہ ایک دشمن اور تربور پالنے سے فائدہ کیا ہے، وہ قصہ تو ہم نے آپ کو سنایا ہی ہو گا جب کسی یورپ یا امریکا کے ایک ''برین اسٹور'' میں پاکستانی دماغ پر دس گنا زیادہ قیمت لکھی ہوئی تھی۔

ایک پاکستانی نے دیکھا تو بڑا خوش ہو کر دکاندار سے بولا کیا ''پاکستانی دماغ'' کچھ خاص ہوتا ہے جو تم نے اس پر دوسرے دماغوں سے دگنی قیمت کی چٹ لگا رکھی ہے؟ دکاندار بولا، ہاں یہ بہت نایاب ہے۔ دوسرے ممالک میں تو ہر کھوپڑی میں ایک عدد دماغ مل جاتا ہے لیکن پاکستان میں سو دو سو کھوپڑیاں توڑنے کے بعد کہیں کسی ایک میں یہ گوہر نایاب دستیاب ہوتا ہے۔

ان حالات میں اگر ہماری کھوپڑی بھی پہلی والی سو دو سو کھوپڑیوں میں سے ہو تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ آج کل ہمارے دل میں جو ''اچھے اچھے'' خیال آرہے ہیں، اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ہمارے اس ''لوچہ دار'' پاسبان عقل کی گرفت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہو، مثلاً آج کل ہم جب بھی کہیں پڑھے لکھے لوگوں میں پھنس جاتے ہیں تو خود کو اتنا ان کمفرٹ ایبل محسوس کرتے ہیں کہ پوچھیں ہی مت۔ یوں لگتا ہے جیسے ''رضیہ'' غنڈوں میں پھنس گئی ہو۔

ہر پڑھے لکھے شخص کے اندر ہمیں ایک خونخوار قسم کا ڈریکولا نظر آتا ہے حالانکہ پہلے ایسا صرف ''دانشوروں'' کو دیکھ کر ہمیں محسوس ہوتا یا لیڈروں کو، اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ایجوکیشن یا بقول قہر خداواندی چشم گل چشم کے ''ایڈ جوکیشن'' کے حوالے سے ان سارے لوگوں کو برا کہیں جو ایڈجو کیٹیڈ اور پڑھے لکھے کہلاتے ہیں، اس لیے یقیناً یہ ہمارے دماغ کے اندر کوئی ''کیمیکل لوچا'' ہے۔

بلکہ بعض اوقات تو یہ ''کیمیکل لوچا'' اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ''جہالت'' کی تعریف میں لکھنا شروع کر دیں بلکہ آپ سے کیا پردہ اسی مدہوشی یا دماغ میں کیمیکل لوچے کے سبب تو ہم نے ایک نظم لکھی بھی ہے جس کا عنوان ہے ''در مدح جہالت'' اس نظم میں ہم نے کہا ہے کہ اگر یہ دنیا اب تک بچی ہوئی ہے تو صرف جہالت کی وجہ سے اور دنیا کے اصل نجات دھندے اگر ہو سکتے ہیں تو وہ جاہل، ان پڑھ اور گنوار لوگ ہیں ورنہ یہ بڑے بڑے عالم فاضل، سائنس دان،، موجد دانا دانشور علامے کلامے پروفیسر ڈاکٹر، انجینئر اور اساتذہ تو اسے کب کا آگ لگا کر پھونک چکے ہوتے۔ وہ تو خدا بھلا کرے اخبارات کے ایڈیٹروں اور رسائل کے مدیروں کا کہ یہ نظم چھپ نہیں سکی ورنہ آج ہمارا بھی وہی حشر نشر ہو چکا ہوتا جو یہ لوگ دنیا کا کر چکے ہیں۔


چلو اچھا ہوا کام آگئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم یہ اپنی ''نظم'' چھپوانے کہاں جاتے

یقیناً یہ دماغ میں اس کیمیکل لوچے کا شاخسانہ ہے کیونکہ یہ اتنی ساری حکومتیں اتنے زیادہ اسکول کالج اور یونی ورسٹیاں گلی گلی میں چھابڑیوں اور ریڑھیوں پر دستیاب اعلیٰ تعلیم سب کے سب تو غلط نہیں ہو سکتے جو ہر طرح سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں حتیٰ کہ بچوں کو دوسرا کوئی بھی کام نہیں کرنے دینا چاہتے سوائے پڑھنے کے ۔ ایک بہت پرانا شعر ہے کہ

پڑھو گے لکھو گے تو ہو گے نواب
کھیلو گے کودو گے تو ہو گے خراب

اور اس کی سچائی آج کل اس ملک کے چپے چپے پر جلوہ گر ہو چکی ہے، لکھے پڑھے لوگ نواب بن کر گھوم رہے ہیں کیونکہ حکومت نے زرکثیر صرف کر کے اور بے شمار سیاسی لیڈروں نے اپنے خون کا آخری قطرہ بہا کر ایسا نظام ترتیب دے رکھا ہے کہ کسی کو کوئی بھی کام نہ ملے سوائے نوابی کرنے کے۔ یہ الگ بات ہے کہ منفی تنقیدیے لوگ اسے بیروز گاری کہہ کر اس کی بے توقیری کر رہے ہیں۔

خدا کی پناہ ایک دن تو ہمارے دماغ کا کیمیکل لوچا اتنا بڑھ گیا کہ ہم ایک چائلڈ لیبر کے ایک مخالف سے لڑ پڑے۔ بعد میں بہت پچھتائے اور اپنے دماغی لوچے کا بتا کر معافی مانگ لی لیکن ''برا'' تو ہمارے ہاتھ سے ہو چکا تھا، آپ ہی بتایئے ہم نے اسے معصوم چائلڈ لیبر والے سے جو ایک نہایت ہی مخیر این جی او کے لیے کام کر رہا تھا یہ تک کہا کہ تم لوگ اس ڈر سے کہ کہیں بچے تین چار سال کی محنت اور سختی جھیل کر کام کے آدمی نہ بنیں انھیں تعلیم پر لگا کر بیکار پرزے بنا رہے ہو۔

اس لیے کہ کہیں ہمارے بچے کچھ سیکھ کر کچھ بن جائیں ،کچھ بنا نہ لیں ،کچھ ایجاد نہ کر لیں کیوں کہ دنیا میں آج تک جو کچھ بھی ایجاد ہوا ہے، کسی نہ کسی مستری لوہار ترکھان جولاہے اور کاریگر نے ایجاد کیا ہے، اب آپ ہی انصاف کریں یہ ساری باتیں کوئی صحیح الدماغ شخص کر سکتا ہے۔

بالکل بھی نہیں، وہ تو علم اور روشنی اور تہذیب اور تمدن اور اچھی سوسائٹی کی اچھی اچھی باتیں ہی کرے گا، صرف وہ ہی لوگ ایسی باتیں کر سکتے ہیں جن کے دماغ میں کوئی کیمیکل لوچا ہو کہ مجھے پڑھے لکھوں سے بچاؤ، مجھے تعلیم کے عذاب سے نجات دلا دو، خدا کے لیے مجھے مشین بننے کے بجائے انسان بنا دو۔

میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کے سلوں
میرے لیے مٹی کا گھر ایک اور بنا دو

یہ اس کم بخت کیمیکل لوچے کی وجہ ہے کہ ہم جب تک شہر میں پڑھے لکھوں کے درمیان رہتے ہیں نہایت ہی ان کمفرٹ محسوس کرتے ہیں اور جیسے ہی اپنے گاؤں اپنے ان پڑھ اور جاہلوں کے درمیان پہنچتے ہیں ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے ایک چلتے ہوئے بیابان سے کسی نخلستان میں آگئے ہوں۔
Load Next Story