یمن کی صورتحال
یہ خبر اس نے اپنے بھائی کو سنائی اور فارسی بادشاہ اپنی فوج لے کر چڑھ دوڑا...
قبل از مسیح کی بات ہے کہ فارس کے ایک حصے پر دین ابراہیمی کے ماننے والوں کی حکومت تھی (جو خود کو مسلمان کہلاتے تھے) جس کے ہمسایہ ملک کا حکمراں آتش پرست تھا۔ آتش پرست بادشاہ نے مسلم ملک کے بادشاہ کو خیر سگالی کا پیغام بھیج کر دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ مسلم ملک کے حکمران تعیش پرستی میں خداوند کے احکامات بھول چکے تھے اور وہ دین ابراہیمی کی تعلیمات فراموش کر چکے تھے۔
مسلم بادشاہ نے انتہائی تکبر و غرور سے پیغام دوستی ٹھکرا کر اس کے سفیر کو قتل کر دیا۔ اطلاع فارس کے بادشاہ کو پہنچی تو شاہی خون نے جوش مارا اور وہ آگ بگولہ ہوا، اپنی فوج کو جمع کر کے کہا کہ ہم تعداد میں ان سے قلیل ہیں مگر پھر بھی ہم لڑیں گے، مر جائیں گے یا مار دیں گے۔ اس دوران فارسی بادشاہ کا بھائی اس کے پاس آیا اور کہا میں تمہیں جنگ کرنے سے نہیں روک رہا بس کچھ دن انتظار کرو، میں ایک جگہ جا رہا ہوں وہاں سے ایک پیغام لے کر آؤں گا اس کے بعد تم جنگ کرنے چلے جانا، فارسی بادشاہ نے بھائی کی بات مان لی۔
فارسی بادشاہ کا بھائی ایک غار میں گیا اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر مسلسل صدا دیتا رہا کہ ''اے مسلمانوں کے خدا! یہ بتا، غلطی اُن کی ہے یا ہماری ہے؟'' تین روز گزرنے کے بعد ہاتف غیب سے ندا آئی، بے شک غلطی اُن کی ہے، تم جاؤ، جنگ کرو، فتح تمہاری ہو گی۔
یہ خبر اس نے اپنے بھائی کو سنائی اور فارسی بادشاہ اپنی فوج لے کر چڑھ دوڑا، خود کو مسلمان کہلانے والے مطمئن تھے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے، ہماری فوج بھی کثیر ہے، فتح ہماری ہو گی۔ مگر خدا کی قدرت کہ قلیل فوج کثیر پر غالب آ گئی اور فارسیوں کو فتح ہوئی، فارسیوں نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا اور حکمرانی شروع کر دی۔
چند مہینے گزرے کہ فارسی بادشاہ کے اُسی بھائی پر کشف کی کیفیت طاری ہوئی اور ہاتف غیب سے ندا آئی کہ ''ہم نے تمہارے ہاتھوں بُرے مسلمانوں کو ختم کرا دیا، اب اگر تم سلامتی چاہتے ہو تو ایمان لے آؤ، بصورت تم پر کسی اور کو غالب کر دیا جائے گا''۔ بھائی نے یہ بات بادشاہ کو بتائی، فارسی بادشاہ پہلے ہی متاثر تھا، سارا قصہ سن کر سمجھ گیا اور اپنی رعایا سمیت خدائے احد پر ایمان لے آیا۔
(واقعہ ذہن نشین رہے، اختتام پر آگہی کا در کھلے گا)
عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ میں پھیلا ہوا انتشار، افرا تفری، مسلمانوں کو آپس میں دست و گریباں دیکھ کر برسوں پرانے واقعے نے علم و آگہی کا دریچہ کھول دیا۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ دین فطرت اسلام تاقیامت قائم و دائم رہے گا مگر اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کی کمان ہمارے ہی ہاتھ میں رہے گی۔
تاریخ میں جھانکیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شمالی افریقہ میں رہنے والی وحشی اور خونخوار ''بربر'' قوم تھی، بربریت کا لفظ اسی سے منسوب ہے، بربر جنگ و جدل، قتل و غارت گری، لوٹ مار کے لیے مشہور تھے ان کی بہادری و خونریزی طاقتور دشمنوں کو بھی خوفزدہ کر دیا کرتی تھی۔ عرب سالار عقبہ بن نافع نے فتح حاصل کی اور اسلام کی تعلیمات سے انھیں زیر کیا اور پھر بربروں نے دین کا علم بلند رکھا۔
دین اسلام کے دشمن اسی روز سے اسلام کے درپے ہیں جس روز پہلے آدمی نے اسلام قبول کیا تھا اور اس شہادت کا اقرار کیا تھا کہ ''اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔''
تب سے لے کر آج تک اسلام ابلیسی طاقتوں کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے اس دورکی دو سپر پاورز، روم اور فارس کو ریت کے گھروندوں کی مانند روند کر ان ملکوں میں اللہ کی حکومت قائم کر دی تھی، پھر مسلمان جدھر کا رخ کرتے ادھر بغیر لڑے قلعے ان کے حوالے کر دیے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے ملک نہیں لوگوں کے دل فتح کیے تھے، انھوں نے اپنی دہشت طاری نہیں کی بلکہ مظلوم و مجبور رعایا کی دستگیری کی۔
آج مسلمان ابلیسی طاقتوں کے محاصرے میں آئے ہوئے ہیں اور ان کا قتل عام ہو رہا ہے، جس کے ذمے دار بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلم حکمران بھی ہیں، انسان کی سب سے بڑی کمزوری تعیش پرستی ہے، اللہ کے بندوں کی یہی دکھتی رگ ہے جسے ابلیس اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اس لیے حسن بن صباح کی جنت کو فردوس ابلیس کہا گیا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران بھی تعیش پرستی، اندرونی رقابتوں اور سازشوں کے ذریعے مسلم دنیا کو تباہ کر کے جدید دنیا سے بہت پیچھے رکھ رہے ہیں، ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے متعدد عاقبت نااندیش فیصلے کر کے اپنے اقتدار کے وقتی استحکام کے بدلے مسلم دنیا کے مستقبل کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ایک طالبعلم دل سے اپنی کتابوں کی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہی کتابیں اسے انسان بناتی ہیں، انسانوں کی فرداً فرداً ایک کمزوری ہوتی ہے، مگر بحیثیت مسلم قوم ہماری اجتماعی کمزوری یہ ہے کہ ہم نے رسول خدا کی دی ہوئی کتاب ایک نادان طالب علم کی طرح گم کر دی ہے۔
یاد رکھو! جو شخص یا جو اہل مذہب اپنی بنیادی کتاب کھو دیتے ہیں یا فراموش کر دیتے ہیں وہ سوال بن کر دوسروں سے پوچھتے پھرتے ہیں، اور دوسروں کے طور طریقوں پر چل پڑتے ہیں، جیسا کہ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
یمن میں سعودی عرب کے زیر قیادت عرب اتحاد نے باغی الحوثیوں کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کر کے عالم اسلام کو ایک نئی آزمائش سے دوچارکر دیا ہے۔ حوثی قبائل کی بغاوت اور خانہ جنگی کے بعد اسلام کے دیرینہ دشمنوں کی خواہش ہے کہ ایران اور سعودی عرب براہ راست جنگ میں الجھیں۔ شیعہ، سنی تنازع عالم اسلام کے رہے سہے اتحاد کا شیرازہ بکھیر دے۔ شام، لبنان، عراق، مصر کی طرح سعودی عرب خانہ جنگی، افرا تفری، دہشتگردی کا شکار ہو اور قبضے کی جنگ میں حرمین شریفین کا تقدس پامال ہو۔
پندرہ برس پہلے جب سن عیسوی کے دو ہزار برس پورے ہو رہے تھے اور تیسرے ہزار کا آغاز ہو رہا تھا تو بہت سی ایسی باتیں سننے میں آ رہی تھیں کہ دنیا تباہ ہو جائے گی، یا یہ کہ تہذیبیں مٹ جائیں گی، نئی تہذیبیں وجود میں آئیں گی وغیرہ وغیرہ۔ مگر کوئی بھی ان پیش گوئیوں کو سنجیدہ باور نہیں کرتا تھا، تاہم جو کچھ ان ابتدائی پندرہ برسوں میں اس دنیا نے دیکھا ہے اگر تبدیلیاں اسی رفتار سے آتی رہیں تو پھر یہ قیامت خیز پیش گوئیاں تو بہت پیچھے رہ جائیں گی اور محض چند عشروں بعد ہی کرہ ارض کی شکل پہچاننا مشکل ہو جائے گی۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر دنیا میں ایک ایسی عالمی حکومت کا خواب ترقی یافتہ ملک دیکھ رہے ہیں جس میں عالمی بینکاری کے نظام کے ذریعے دنیا کے تمام ممالک کو اپنے کنٹرول میں رکھا جائے گا۔ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک ایسی باتوں کو سازشی نظریات قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ معیشتوں کے ساتھ تجارت کے نتیجے ہی میں دنیا چین، بھارت، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، ملائشیا اور جاپان کو تیزی سے خوشحال ہوتا دیکھ رہی ہے۔
کونسی بات درست ہے اور کتنی درست ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر مسلم دنیا کے حوالے سے جو کچھ صاف دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ وہاں آج کل ہمارے دشمنوں کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ مسلم دنیا کے اندر فرقہ واریت کی ایسی آگ بھڑکا دی جائے جو کم از کم مزید ایک ہزار سال تک بجھ نہ سکے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بہت سے ملک فرقہ واریت کی اس جنگ کا چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے حصہ بن چکے ہیں۔ یہ سب کچھ اسلام کو ختم کرنے کے جتن ہیں لیکن!
نور خدا ہے کفرکی حرکت پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اس سارے معاملے کو کالم کے آغاز میں لکھے گئے واقعے کی روشنی میں دیکھا جائے تو آگہی ملتی ہے کہ برُے مسلمانوں کو ختم کر کے دین اسلام کی کمان اچھے مسلمانوں کے ہاتھوں میں دینے کے اسباب پیدا ہو رہے ہیں۔