جو کہا نہیں وہ سُنا کرو
ان سے کوئی بعید نہیں یہ آج جس کے بظاہر خون کے پیاسے نظر آتے ہیں...
یہاں کسی کی ذلت نہیں ہوتی۔ انھیں کیا معلوم جو ذلت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں یا وہ جو اس وقت عزت کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ تو ہم جیسے غریبوں کا مسئلہ ہے جو بات بات پر اپنی عزت کے لیے مر جاتے ہیں خودکشیاں کر لیتے ہیں یا پھر وہ بے وقوف ہوتے ہیں جو ان کی باتوں میں آ کر پہلی صف میں کھڑے ہو کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔
انھوں نے تو اپنے بچاؤ کے لیے یہ جملہ ایجاد کر لیا ہے کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا۔ کوئی حتمی دوست اور کوئی ساری زندگی کا دشمن نہیں ہوتا۔ تو آپ ہی بتا دیجیے کہ پھر کیوں ان کے کہنے پر ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں۔ پھر کیوں اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر ان کے گیت گاتے رہتے ہیں۔ کیوں ہر جسلہ اور ہر دھرنا ہمارے ہی خون سے سجا ہوتا ہے۔ اس ملک میں عوام کو الجھا کر یہ سب ایک ہو جاتے ہیں یہ ہی خود محمود ہیں اور یہ ہی ایاز ہیں جو آپ کو ایک صف میں نظر آئینگے۔
ہمیں تو یہ تسلی دی جائے گی کہ پہلے ہم نے تمھارے جسم سے جو لہو نچوڑا تھا وہ اس لیے تھا کہ تمھاری سانسں بحال ہو جائے۔ نئی جان تو کیا ملتی، ہمارا تو ہر روز خون پانی سمجھ کر بہا دیا جاتا ہے۔
ان سے کوئی بعید نہیں یہ آج جس کے بظاہر خون کے پیاسے نظر آتے ہیں ان سے ہی تنہائی میں ہم راز ہوں اور آج وہ جن کی تعریفوں کے اشعار کہہ رہے ہیں پس پشت ان کی ہی پیٹ میں چھرا گھونپ چکے ہوں۔ یہ زور زور سے چلانا اور میڈیا میں صرف سرخیوں کے ساتھ رہنے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کون اپنے کیا دام لگا رہا ہے۔ بشیر بدر کا ایک بہت مشہور شعر ہے
مجھے اشتہار سی لگتی ہے یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو جو سنا نہیں وہ کہا کرو
جو کہا گیا وہ تو سب نے سُن لیا لیکن کوئی ہمیں یہ تو بتائے کہ جو کہا نہیں گیا وہ کیسے سُنے۔ آپ کے پاس اگر جواب ہو تو ہمیں بتا دیجیے جاوید ہاشمی صاحب نے فرمایا ہے کہ دھرنوں کا سارا آئیڈیا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا کا تھا۔ یہ تو ہم سُن چکے پر ہم سُننا یہ چاہتے تھے کہ آخر جنرل پاشا نے یہ سارا پلان کیوں بنایا؟ دوسرا چھوٹا سا سوال یہ ہے کہ جناب یہ تو فرما دیجیے کہ عمران خان نے کیا کان میں سُنا اور فوراً نکل پڑے؟ آخر انھیں کیا یقین دہانی کرائی گئی تھی؟ اور جب دھرنا ختم ہوا تو اُس وقت کس کا اشارہ تھا؟ چلیں اور آسان کر لیجیے کہ ہاشمی صاحب نے یہ بھی فرما دیا کہ جنرل پاشا رابطہ کار کے طور پر تھے۔
تو یہ بھی آب بات ہو جانی چاہیے کہ کس کے ساتھ رابطہ میں تھے؟ اور جن کے ساتھ وہ اپنی رابطہ کمیٹی چلا رہے تھے انھوں نے کیا تسلیاں دی ہوئی تھیں۔ مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ساری باتیں ابھی نہیں کھلیں گی۔ ہمارے یہاں رازوں کی صندوقچی صرف اس و قت کھلتی ہے کہ جب نام کے آگے (ریٹائرڈ) لگا ہوا ہو۔
ہاں، لیکن اب میں جو سُننے کی خواہش دل میں رکھے ہوئے بیٹھا ہوں وہ یہ کہ ڈرون کے خلاف دھرنا اگر اشاروں پر تھا، اسلام آباد کا دھرنا اشاروں پر ہے تو اب پارلیمنٹ میں آ کر بیٹھنا یہ کس کا اشارہ ہے۔ اگر پروپیگنڈا کی آنکھ بند کر دی جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں جگہوں پر کچھ خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ بلکہ بلواسطہ طور پر کسی اور نہ ہی اس کا 105 فیصد فائدہ اٹھایا۔ اب جو انھیں یقین دہانی کرائی گئی ہے اُس کا انھیں کتنا فائدہ ہو گا؟
انھیں بھی معلوم تھا کہ شرم کرو، حیا کرو، اسمبلی چلو۔ ایسے نعروں کا سامنا کرنا پڑے گا مگر ایسی کیا جلدی آن پڑی تھی کہ فورا فورا نکاح کیا گیا؟
مشکل اور ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات وقت آنے پر ہی معلوم ہونگے تب تک ہمیں یہ سیاسی نعرے برداشت کرنا ہونگے کہ عوام کی بھلائی کے لیے ہم نے ذلت کا طوق اپنی گرد ن میں ڈالا ہے۔ بس بات اتنی ہی سہی کہ جس اسمبلی کو بے کار کہا گیا تھا اُس میں اب وہ بھی آ گئے ہیں۔ سیاست کا یہ اصول وہ ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ اس حد تک دوسروں کے گربیاں کو چاک نہیں کرنا چاہیے کہ آپ بھی پھر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔
اب ایسے میں آپ میں سے کتنے لوگ اس بات کی تائید کرینگے کہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں عمران خان یہ فرما دیں کہ متحدہ سے اچھی کوئی جماعت نہیں ہے۔ انھوں نے 12 مئی کے واقعات کے بعد کیا کچھ نہیں کہا تھا۔ اور اُس کے بعد اُن کے شکریہ بھی ادا کیے۔ چیف جسٹس کی تعریف میں انھوں نے کون سی ایسی بات تھی، جو نہیں کہی تھی اور پھر اُن کے ساتھ (ریٹائرڈ) لگنے کے بعد کتنی اچھی دوستی نبھائی۔
دوسری طرف بھی تو دیکھ لیجیے کہ کتنی محبتیں تھیں۔ اعتزاز اور چیف جسٹس کے درمیان۔ وہ کہتے تھے کہ اگر چیف آ گئے تو ہر طرف دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ دنوں سینیٹ میں اعتزاز نے کیا کہا ہے؟
یہ بھی سن لیجیے کہ ہم اُن ہی سابق چیف جسٹس کی بات کر رہے ہیں جسے ہمارے میڈیا پر ہیرو اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اور کہا جاتا تھا کہ ان کے آتے ہی اس ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ اُن ہی چیف کے متعلق سینیٹ کو یہ بتایا گیا کہ جناب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن صاحب کے پاس کروڑوں روپے کی سرکاری گاڑی ہے۔ جو اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے اب تک 4500 لیٹر سے زیادہ پٹرول پی چکی اور اُس کی دیکھ بحال پر اب تک سرکار کے 33 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
اُس پر اعتزاز نے کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس کو سینیٹ میں آ کر بتانا چاہیے کہ جناب یہ پیسہ آپ کیسے خرچ کر رہے ہیں اور یہ بھی بتا دیجیے کہ آپ تو یہ کہتے تھے کہ آپ کو اپنے بیٹے کی شادی کے لیے قرض لینا پڑا تھا تو اب لاہور میں آپ کا عالیشان مکان کیسے تعمیر ہو رہا ہے۔ میرے منہ میں خاک جو میں ایسی باتیں کہوں یہ تو ان ہی ''ریٹائرڈ'' چیف کے ڈرائیور کہہ رہے ہیں جو ہر جگہ جان نثار پیدا کر رہے تھے۔ اُن کے پرانے دوست نے بھی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور فورا کہہ دیا کہ جناب یہ گاڑی تو ہائی کورٹ کے حکم پر رکھی ہوئی ہے اور اعتزاز اس لیے بول رہے ہے کیوں کہ اُن کے خلاف انھوں نے فیصلہ دیا تھا۔
آپ کو ان دو مثالوں سے ایک ہی بات سمجھ آئی ہو گی کہ عزت آنی جانی چیز ہے۔ اصول، نظریات، فلسفہ، عوام کو ایک ڈبے میں بند کر دیجیے اور یہ دیکھیں کہ آپ کی دکان کس سے چلتی ہے۔ پہلے کسی نے کہہ دیا تھا کہ اُس کو گالی دے اب کسی نے کہہ دیا کہ تھوڑی بے عزتی بھی کروا لے۔ یہاں آئین، قانون پر بات کرنے والے سب لوگوں کو پتہ ہے کہ تیکنیکی طور پر خلا ہو چکی ہے۔ لیکن دونوں چیمپئن موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔
اس لیے آپ بھی بس انجوائے کریں۔ اور ہاں جہاں تک NA 246 کی کہانی ہے تو یہ گرما گرمی رہے گی۔ آپ ٹینشن مت لیں۔ بس یہ سوچیں کہ کب بھائی، بھائی کا شکریہ ادا کر رہے ہونگے۔ بس انتظار اس بات کا ہے کہ اشارہ کب آتا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا جاوید ہاشمی کی گفتگو سے یہ لگا کہ یہاں سارے کام اشاروں سے ہی ہوتے ہیں۔ میں ناقص عقل کا آدمی جاوید ہاشمی کے اشاروں سے سمجھ سکتا تو دل نہ جلا رہا ہوتا۔