کراچی آپریشن چوتھا مرحلہ
دوسرے مرحلے میں آپریشن کی اسٹریٹجی تبدیل کر دی گئی...
اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ کراچی آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے رینجرز و پولیس کی جانب سے اپنے اہل کاروں اور افسران کی بھی قربانی دی جا رہی ہے۔ رواں برس پولیس کے 27 افسران و جوان دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اور متعدد واقعات میں خود کش اور دستی بم حملوں میں رینجرز کے کئی افسران و اہلکار شہید ہوئے ہیں۔
لیکن اب پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ اس بار کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ اے این پی کے سنیئر رہنما بشیر جان کا کہنا ہے کہ کراچی کی پختون آبادیوں میں آپریشن جاری ہے اور ہم نے آپریشن کی حمایت جاری رکھی۔
لیکن کیا آج تک کوئی آپریشن منطقی انجام تک پہنچا ہے؟ متحدہ کا موقف ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ایم کیو ایم کا تعاون پہلے بھی تھا اور آیندہ بھی جاری رہے گا لیکن جرائم پیشہ عناصر کی آڑ میں ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانا درست عمل نہیں ہو گا۔ جماعت اسلامی کراچی آپریشن کو مزید سخت کرنے کی حامی ہے تو تحریک انصاف نے آپریشن کو صرف ایم کیو ایم تک محدود رکھتے ہوئے انتہائی سخت جملے استعمال کیے ہیں۔
سندھی قوم پرست جماعتیں آپریشن پر خوش دکھائی دیتی ہیں تو پیپلز پارٹی شہر کا امن تو واپس لانے کو تیار ہے لیکن لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار عذیر جان بلوچ کو دبئی سے کراچی لانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ مذہبی جماعتیں اپنے کارکنان کی ہلاکتوں و گرفتاریوں پر تحفظ کا اظہار کر رہی ہیں لیکن آپریشن کی مخالفت نہیں کر رہیں۔
ایک سزائے موت کے قیدی صولت مرزا کی ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد کراچی کی سیاسی صورتحال میں بڑی تیزی سے تبدیلی ہوئی اور حکومت نے پھانسی التوا میں ڈال دی۔ الیکڑونک میڈیا کی جانب سے کچھ نیوز چینلز نے خبر دینے کے بجائے خبر بننے کا فیصلہ کیا اور سنسنی خیز رپورٹنگ کی۔ کچھ دانشوروں اور کالم نویسوں نے کہا آپریشن کالعدم مذہبی جماعتوں و شدت پسند دہشت گردوں کے خلاف کیا جا رہا تھا لیکن مشرق وسطی کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں آپریشن کا رخ مخصوص سیاسی جماعت کی جانب موڑ دیا گیا جو کراچی پر قبضے کی کوشش ہے۔
یہ بھی ایک اہم سوچ ہے کہ کراچی میں ایک سیاسی خلا پیدا کیا جا رہا ہے جسے پُر کرنے کے لیے تحریک انصاف کو لانچ کرنے کی تیاری ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آپریشن کے اس چوتھے مرحلے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کسی سیاستدان یا ان کے دفاتر پر چھاپوں کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن صورتحال انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا قائدین پر لگنے والے الزامات نئے نہیں ہیں۔
اس سے قبل کئی جماعتوں کے سربراہوں پر بغاوت اور پاکستان سے غداری کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔ جہاں صولت مرزا نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا نام لے کر الزام تراشی کی ہے تو دوسری جانب گینگ وار کے اہم مہرے عذیر جان بلوچ کی جانب سے بھی پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں پر الزامات کی خبریں زبان زد خاص و عام ہیں۔ کراچی آپریشن کا پہلا مرحلہ ٹارگٹڈ آپریشن کے طور پر شروع کیا گیا، پوری آبادیوں کا محاصرہ کر کے تلاشی اور پوچھ گچھ کی جاتی تھی، ہیلی کاپٹر سے فضائی نگرانی اس کے علاوہ ہوتی تھی۔ اے این پی کے مرکزی دفتر اور ان کے علاقائی دفاتر میں بھی آپریشن کیا گیا اور سیکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔
اسی طرح لیاری میں متعدد بار آپریشن کیا گیا، دوسرے مرحلے میں آپریشن کی اسٹریٹجی تبدیل کر دی گئی۔ آپریشن کے تیسرے مرحلے میں کالعدم مذہبی جماعتوں اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں، اس کے علاوہ مبینہ مقابلے بھی بڑی تعداد میں ہوئے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس عمل کو کالعدم تحریک طالبان نے سنجیدگی سے لیا اور اپنے کارکنان کی گرفتاریوں اور تشدد پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ آپریشن کے چوتھے مرحلے کو سخت قرار دیا گیا اور مطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے ہر سطح پر کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس میں پیپلز پارٹی حکومت کی سرزنش بھی کی گئی۔ لیاری گینگ وار کے اہم مہرے عذیر بلوچ اور صولت مرزا کے بیانات نے کراچی کی سیاست میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے۔
کراچی کی بڑی سیاسی جماعتوں پر کریک ڈاؤن کے بعد رینجرز اب بیرئیر ہٹانے کی مہم پر لگی ہوئی ہے جس سے عوام میں عدم تحفظ کی لہر بھی دوڑ گئی ہے کیونکہ حکومت اسٹریٹ کرائم روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اس صورتحال میں جب کہ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات بھی زور پکڑ رہے ہیں، اہم جگہوں، مساجد یا عمارتوں سے سیکیورٹی کے نام پر لگائے جانے والے بیرئیر ہٹانا اور اس کا متبادل فراہم کرنا رینجرز کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو گا۔
رینجرز کو کراچی میں اعتماد کی بحالی کے لیے موثر کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ رینجرز کے نام پر مختلف علاقوں میں پولیس اور سی آئی ڈی کے کچھ اہلکاروں نے سیزن بنا رکھا ہے اور بے گناہ افراد کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں پھر ان ہی کے فون سے اہل خانہ کو فون کروا کر بھاری رقوم وصول کرتے ہیں۔ ایسے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی موثر کارروائی نہیں کی جاتی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی محنت کو رائیگاں کرنے کی ایک مذموم کوشش بھی قرار دی جا سکتی ہے۔
کراچی کا امن صرف عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس اپنا رویہ درست رکھیں اور آپریشن کی آڑ میں بے گناہ افراد سے لوٹ مار یا جعلی مقابلوں میں ملزمان کو ہلاک نہ کریں تو عوام یقینی طور پر ان کا بھرپور ساتھ دے سکتے ہیں اگر آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔
لیکن اب پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ اس بار کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ اے این پی کے سنیئر رہنما بشیر جان کا کہنا ہے کہ کراچی کی پختون آبادیوں میں آپریشن جاری ہے اور ہم نے آپریشن کی حمایت جاری رکھی۔
لیکن کیا آج تک کوئی آپریشن منطقی انجام تک پہنچا ہے؟ متحدہ کا موقف ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ایم کیو ایم کا تعاون پہلے بھی تھا اور آیندہ بھی جاری رہے گا لیکن جرائم پیشہ عناصر کی آڑ میں ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانا درست عمل نہیں ہو گا۔ جماعت اسلامی کراچی آپریشن کو مزید سخت کرنے کی حامی ہے تو تحریک انصاف نے آپریشن کو صرف ایم کیو ایم تک محدود رکھتے ہوئے انتہائی سخت جملے استعمال کیے ہیں۔
سندھی قوم پرست جماعتیں آپریشن پر خوش دکھائی دیتی ہیں تو پیپلز پارٹی شہر کا امن تو واپس لانے کو تیار ہے لیکن لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار عذیر جان بلوچ کو دبئی سے کراچی لانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ مذہبی جماعتیں اپنے کارکنان کی ہلاکتوں و گرفتاریوں پر تحفظ کا اظہار کر رہی ہیں لیکن آپریشن کی مخالفت نہیں کر رہیں۔
ایک سزائے موت کے قیدی صولت مرزا کی ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد کراچی کی سیاسی صورتحال میں بڑی تیزی سے تبدیلی ہوئی اور حکومت نے پھانسی التوا میں ڈال دی۔ الیکڑونک میڈیا کی جانب سے کچھ نیوز چینلز نے خبر دینے کے بجائے خبر بننے کا فیصلہ کیا اور سنسنی خیز رپورٹنگ کی۔ کچھ دانشوروں اور کالم نویسوں نے کہا آپریشن کالعدم مذہبی جماعتوں و شدت پسند دہشت گردوں کے خلاف کیا جا رہا تھا لیکن مشرق وسطی کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں آپریشن کا رخ مخصوص سیاسی جماعت کی جانب موڑ دیا گیا جو کراچی پر قبضے کی کوشش ہے۔
یہ بھی ایک اہم سوچ ہے کہ کراچی میں ایک سیاسی خلا پیدا کیا جا رہا ہے جسے پُر کرنے کے لیے تحریک انصاف کو لانچ کرنے کی تیاری ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آپریشن کے اس چوتھے مرحلے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کسی سیاستدان یا ان کے دفاتر پر چھاپوں کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن صورتحال انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا قائدین پر لگنے والے الزامات نئے نہیں ہیں۔
اس سے قبل کئی جماعتوں کے سربراہوں پر بغاوت اور پاکستان سے غداری کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔ جہاں صولت مرزا نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا نام لے کر الزام تراشی کی ہے تو دوسری جانب گینگ وار کے اہم مہرے عذیر جان بلوچ کی جانب سے بھی پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں پر الزامات کی خبریں زبان زد خاص و عام ہیں۔ کراچی آپریشن کا پہلا مرحلہ ٹارگٹڈ آپریشن کے طور پر شروع کیا گیا، پوری آبادیوں کا محاصرہ کر کے تلاشی اور پوچھ گچھ کی جاتی تھی، ہیلی کاپٹر سے فضائی نگرانی اس کے علاوہ ہوتی تھی۔ اے این پی کے مرکزی دفتر اور ان کے علاقائی دفاتر میں بھی آپریشن کیا گیا اور سیکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔
اسی طرح لیاری میں متعدد بار آپریشن کیا گیا، دوسرے مرحلے میں آپریشن کی اسٹریٹجی تبدیل کر دی گئی۔ آپریشن کے تیسرے مرحلے میں کالعدم مذہبی جماعتوں اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں، اس کے علاوہ مبینہ مقابلے بھی بڑی تعداد میں ہوئے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس عمل کو کالعدم تحریک طالبان نے سنجیدگی سے لیا اور اپنے کارکنان کی گرفتاریوں اور تشدد پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ آپریشن کے چوتھے مرحلے کو سخت قرار دیا گیا اور مطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے ہر سطح پر کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس میں پیپلز پارٹی حکومت کی سرزنش بھی کی گئی۔ لیاری گینگ وار کے اہم مہرے عذیر بلوچ اور صولت مرزا کے بیانات نے کراچی کی سیاست میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے۔
کراچی کی بڑی سیاسی جماعتوں پر کریک ڈاؤن کے بعد رینجرز اب بیرئیر ہٹانے کی مہم پر لگی ہوئی ہے جس سے عوام میں عدم تحفظ کی لہر بھی دوڑ گئی ہے کیونکہ حکومت اسٹریٹ کرائم روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اس صورتحال میں جب کہ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات بھی زور پکڑ رہے ہیں، اہم جگہوں، مساجد یا عمارتوں سے سیکیورٹی کے نام پر لگائے جانے والے بیرئیر ہٹانا اور اس کا متبادل فراہم کرنا رینجرز کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو گا۔
رینجرز کو کراچی میں اعتماد کی بحالی کے لیے موثر کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ رینجرز کے نام پر مختلف علاقوں میں پولیس اور سی آئی ڈی کے کچھ اہلکاروں نے سیزن بنا رکھا ہے اور بے گناہ افراد کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں پھر ان ہی کے فون سے اہل خانہ کو فون کروا کر بھاری رقوم وصول کرتے ہیں۔ ایسے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی موثر کارروائی نہیں کی جاتی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی محنت کو رائیگاں کرنے کی ایک مذموم کوشش بھی قرار دی جا سکتی ہے۔
کراچی کا امن صرف عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس اپنا رویہ درست رکھیں اور آپریشن کی آڑ میں بے گناہ افراد سے لوٹ مار یا جعلی مقابلوں میں ملزمان کو ہلاک نہ کریں تو عوام یقینی طور پر ان کا بھرپور ساتھ دے سکتے ہیں اگر آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔