’’محمد علی نیکوکارا تاریخ کا جبر اور ایک کہانی کی تلاش‘‘

آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایسا کیوں ہوا ہم نے من حیث القوم اپنی تمناوؑں کا تمام سرمایہ سیاست دانوں کے حوالے کردیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ سیاست دانوں کا طبقہ تاریخ میں ہمیشہ ایک بے حس طبقہ ریا ہے۔ فوٹو: فائل

مجھے اس تحریر کو لکھنے میں 15 دن لگے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو خرابیِ صحت تھی جس کا بیماریوں سے بڑا پرانا رومانس ہے اور دوسرا لکھنے سے ایک عجیب سا تساہل اور مزاج پر بیزاری کی گرد۔ اپنی ذات کے نیچے آکر کُچلے جانے کا احساس اتنا شدید ہے کہ بقول ساغر صدیقی
یہ جو سینے میں لئے کرب و دروں زندہ ہوں
کوئی امید سی باقی ہے کہ یوں زندہ ہوں

میں یہ تحریر کبھی نہ لکھتا اگر میری ملاقات ڈاکٹر صدیقی سے نہ ہوتی۔ خدا جانے کیوں بس اب اور لفاظی کے محل تعمیر کرنے کا دل نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ کس لئے لکھا جائے اور کیوں لکھا جائے؟ چند ایک دوستوں نے مشورہ دیا کہ نثرنگاری کو سنجیدگی سے لیا جائے مگر سوال پھر وہی کہ حاصل کیا؟ نام؟ جون ایلیا نے کہا میں اس وقت جو لکھنا چاہتا ہوں اگر وہ نہ لکھوں تو اُس سے کیا فرق پڑے گا؟ لکھنے میں بھی وہی ہے جو نہ لکھنے میں ہے۔ کسی اجنبی شاعر کا شعر یاد آیا جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے سنا تھا۔
ہم سا گمنام نہ ہو گا کوئی زمانے میں
گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا

ایک بے نام سی کوفت اور اذیت کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ محمد علی نیکوکارہ کو برطرف کردیا گیا ہے۔ جانے کیوں ایک دھچکا سا لگا۔ میں نے عرض کیا کہ ابھی تو سفارشات بجھوائی گئی ہیں خدا جانے کیا فیصلہ ہو مگر ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا نہیں کل اُس کا فون آیا تھا اُسے برطرف کردیا گیا ہے۔

یقیں کریں میرا مسئلہ نیکوکارا نہیں ہے میں بخدا اُسے نہیں جانتا اور نہ کبھی ملا ہوں اور میری اُس سے متعلق معلومات بس اتنی ہیں کہ 19 سال کے عرصہِ ملازمت میں اُس کے اوپر کرپشن کا یا محکمانہ کارروائی کا کوئی کیس نہیں۔







میں اُس دن سے احساس کی اک عجب سی رو میں بہے جا رہا ہوں اور اپنے آپ کو کئی سوالوں کا جواب دینے کی اہلیت سے قابلِ زکر حد تک محروم محسوس کر رہا ہوں۔ ذکا اشرف پھر طارق ملک اور اب محمد علی نیکوکارا یہ سلسلہ کہاں جا کے رُکے گا؟



کچھ عرصہ پہلے میں نے اس کارِ حکومت کو ''House of Sharifs'' کا نام دیا تھا اور میرے عزیز دوست فیاض کاظمی نے اس طنز کو بڑا انجوائے کیا تھا مگر یہ تو واقعی میں بادشاہت ہے۔ سراسر بادشاہت۔ طارق عظیم کینیڈا میں سفیر لگا دئیے گئے کیرئیر ڈپلومیٹ چلاتے رہے۔ نجم سیٹھی کرکٹ کے حکمران بن گئے، عرفان صدیقی تو بہت پہلے ہی معتمدِ خاص بن چکے، خوشبو کا نگر آباد کرنے والے عطاءالحق قاسمی بھی بس پنجاب کے گورنر ہوئے چاہتے ہیں۔ ایک لمبی سی فہرست ہے مگر کیا کریں۔





ڈاکٹر الہان نیاز کو NUST میں ایک لیکچر پر مدعو کیا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ صرف ایک سال میں ڈپلومیٹک انکلیو کے اس پی کو پانچ مرتبہ تبدیل کیا گیا۔ گفتگو بہت طویل ہے اور بہار کی بے مہر اور ملال انگیز شام ہے اور میں سکوت میں کلام کر رہا ہوں شاید اپنے آپ سے، شاید اپنے لوگوں سے یا شاید تاریخ سے یا پھر وقت سے۔ میاں صاحب شاہجہاں کی قبر پر لگے ہوئے کتبے پر لکھے فارسی شعر کو ہی پڑھ لیتے
برِ مزار ما غریباں نے چراغ نے گُلے
نے پرِ پروانہ سوزد نے صدائے بُلبلے

مگر حیف میاں صاحب تو اخبار بھی نہیں پڑھتے۔ ورنہ مشورہ تھا کہ کئی دفعہ ''Norman Mailer'' کا ناول "The Naked and the Dead" ضرور پڑھیں اور ''General Edward Cummings'' کے کردار کے ساتھ اپنا موازنہ ضرور کریں۔ بھٹو صاحب کے بعد شاید خان صاحب قومی قیادت میں واحد لیڈر ہوں جو کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ محترمہ بھی صاحبِ مطالعہ تھیں ۔ خیر خان صاحب سے اپنے ambivalent relation پر پھر کبھی بات ہوگی ورنہ میرے عزیز دوست حافظ باسط مجھے سنگاپور سے لکھیں گے ''راجہ صاحب تُسی وی باز نہیں آنا''۔


وقت ہمیشہ کب رہا ہے کسی کا۔ کوئی دس برس ہی ہوا چاہتے ہیں جب اس ملک کی باگ دوڑ مشرف صاحب کی اُبروَ خرام کے مرہونِ منت تھی اور میاں صاحب رندِ خرابات تھے اور بقول کلاسرا صاحب قسمیں کھا کھا کہ سب کو یقین دلاتے تھے کہ اب وہ بہت بدل گئے ہیں مگر یہ اقتدار بھی کیا عجیب شے ہے؟ قوموں کی زندگی میں کمال کے دور کے بعد زوال کا دور آتا ہے۔ یہ تاریخ کا عمومی رجحان ہے لیکں ہماری زندگی میں تو کمال کا دور آیا ہی نہیں پھر یہ مسلسل زوال پزیری کی حالت ہمارا مقسوم کیوں قرار پائی۔ یہ بات بار بار سوچنے کی ہے اور ہم میں سے ہر شخص کے سوچنے کی ہے۔
کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں
وقت کی اِس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاوؑ گے ہم کہاں جائیں گے

آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایسا کیوں ہوا ہم نے من حیث القوم اپنی تمناوؑں کا تمام سرمایہ سیاست دانوں کے حوالے کردیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاست دانوں کا طبقہ تاریخ میں ہمیشہ ایک بے حس طبقہ ریا ہے۔ شائد وقت آگیا ہے کہ انہیں سر کے بل سڑے ہوئے جوہڑوں میں دھکیل دیا جائے۔

نیکوکارا کو کچھ نہیں ہوگا دیکھنا۔ میں نے اُسے بھی کہا ہے کہ تم اس آزمائش سے سُرخرو ہوکر نکلو گے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے عزمِ صمیم سے کہا۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔







سیاست اور کارِ سیاست سے عجیب سی نفرت ہوا چاہتی ہے۔ آئیے جمہوریت کے نام پر چند گھرانوں کی حکومت اور شخصی آمریت پر صدق دل سے ایمان لے آئیں یا پھر جون ایلیا کو پڑھیں
غرور جبہ و دستار کا زمانہ ہے
نشاط فکر و بساطِ ہُنر ہوئی برباد
فقیہ و مفتی و واعظ پہ حرف گیر ہو کون
یہ ہیں ملائکہ اور شہر جنتِ شداد
اسی ہوس میں ہیں ہر دم یہ دشمنانِ جمال
جو سوئے رنگ اُٹھے اُس نظر کو گل کر دیں
جو بس چلے کہیں اِن کا تو یہ فضا بیزار
شفق کا رنگ بجھا دیں سحر کو گل کر دیں
گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اِس زمانے میں

[poll id="345"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story