عالمی منظر نامہ اور پاکستانی میڈیا

اطلاعات کی فراہمی اور ملکی مفاد کے بجائے بریکنگ نیوز اور ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کو اہمیت دی جاتی ہے۔

میڈیا کی آزادی یقینا کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن لیکن شتر بے مہار آزادی معاشروں کی تباہی کا سبب بھی بنتی ہے۔ فوٹو ایکسپریس ٹریبیون

لاہور:
پوری دنیا میں اس وقت ہیجان انگیزی ہے۔ امریکہ 9/11 کے بعد عالمی اتحاد کی سربراہی کے ساتھ ساتھ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی بھی سربراہی کررہا ہے، جبکہ افریقی ممالک غربت کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ برطانیہ ایک طرف غیر قانونی تارکین کی وجہ سے پریشان ہے تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح سے بھی فکر مند ہے۔ خلیجی ممالک میں تبدیلی کی جو لہردسمبر 2010 میں تیونس سے شروع ہوئی تھی ابھی تک جاری ہے۔ اس تحریک کو نام تو ''عرب بہار'' کا دیا گیا تھا لیکن اس نے پرتشدد رُخ اپنا لیا، جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوا جو ابھی تک جاری ہے، اس کا تازہ شکار یمن بنا ہوا ہے۔





پوری دنیا میں پھیلنے والی بے چینی کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن بظاہر اس کی بڑی وجوہات مذہبی، معاشی اور سیاسی مفادات ہی ہیں۔ ان مفادات کو اجاگر میڈیا نے کیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میڈیا کا عالمی منظر نامے میں اہم کردار ہے۔ پوری دنیا میں میڈیا کے لئے اصول و ضوابط وقتاً فوقتاً طے کئے جاتے رہے ہیں۔ عالمی میڈیا میں تو کسی نہ کسی حد تک ملکی مفادات کا تحفظ دیکھا جاسکتا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا کی ترقی کے باوجود ذمہ داری کا عنصر موجود نہیں ہے، لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ذمہ داری کا عنصر پیدا ہوجائے۔

عالمی میڈیا کے حوالے سے کردار کا جائزہ لیا جائے تو 9/11 امریکہ میں ہونے والے واقعات، 7/7 برطانیہ میں دہشت گردی کی کارروائی، انڈیا میں26/11 کی کارروائی اور اسی طرح پوری دنیا میں رونما ہونے والے دیگر واقعات و حادثات میں ان ممالک کے میڈیا کا کردار مکمل طور پر مخالف فریق کی طرف نشتر برساتے ہوئے نظر آیا۔ اس کے علاوہ عالمی میڈیا کا عام حالات میں بھی جائزہ لیں تو یہ احساس ابھرتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا میڈیا حالت جنگ یا حالت امن دونوں صورتوں میں ذمہ دارانہ کردار نبھاتا نظر آتا ہے، اپنی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کے میڈیا کا جائزہ لیں تو صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔








1999 ء میں مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں میڈیا کو پذیرائی ملنا شروع ہوئی اور میڈیا نے ترقی کرنا شروع کی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ 2000ء کے بعد سے میڈیا نے ترقی کے جو زینے طے کئے وہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک میڈیا کا سنہری دور ہے۔ ایک جمہوری ملک ہونے کے باوجود دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک آمر کا دور میڈیا کی آزادی کا دور کہلاتا ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں لیکن پاکستان 9/11 واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد پورے ملک کو بھی دشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس پورے دور میں میڈیا اپنے بنیادی کردار یعنی اطلاعات کی فراہمی کے بجائے مجموعی طور پر سنسنی پھیلانے کا باعث بنتا رہا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ اطلاعات کی فراہمی اور ملکی مفاد کے بجائے بریکنگ نیوز اور ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کو اہمیت دی جاتی رہی۔ ذمہ دارانہ صحافت کے بجائے سنسنی خیز صحافت حاوی رہی اور بریکنگ نیوز کے چکر میں ذمہ دارانہ صحافت کہیں دب کر رہ گئی۔

جو کردار امریکہ میں 9/11 کے واقعات کے بعد وہاں کے میڈیا نے نبھایا وہ ہمارا میڈیا نہ کرسکا۔ امریکہ میں حکومتی اداروں کی ناکامی پر بھی تنقید ہوئی لیکن ان کا میڈیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی رائے تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا۔ اسی طرح بھارت میں ہونے والے حملوں کے بعد وہاں کا میڈیا مکمل طور پر پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع ہوگیا۔ اسی طرح فرانس میں حالیہ واقعات کے بعد پورا فرانسیسی میڈیا اخبار کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور اسلام کو بدنام کرنا شروع کردیا۔ اس کے برعکس پاکستان میں سب سے زیادہ توجہ ریٹنگ کو دی جانے لگی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا چیز ملکی مفاد میں ہے اور کیا چیز ملک کی بدنامی کا باعث بنے گی بلکہ صرف بریکنگ نیوز کی پٹی اہمیت اختیار کر گئی ۔





میڈیا کی اہم ذمہ داریوں میں ایک یہ بھی ہے کہ عوام میں شعور بیدار کیا جائے اور شعور کی بیداری کے لئے غیر جانبداری سب سے اہم ہے۔ لیکن پاکستان میں میڈیا پچھلے چند سالوں سے مختلف معاملات میں ایک فریق بن کے ابھرا ہے۔ دھرنے ہوں یا دہشت گردی کی کوئی کارروائی، عالمی واقعات ہوں یا ملکی مسائل ،الیکشن کا عمل ہو یا کوئی سیاسی اسکینڈل، پاکستان میں میڈیا نے حقائق عوام کے سامنے رکھ کر انہیں فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کے بجائے خود فیصلے صادر کرنا شروع کردیئے۔ میڈیا نے غیر جانبدار رہ کر عوام میں شعور بیدار کرنے کے بجائے ہر معاملے میں فریق بننے کو ترجیح دی۔ صرف سیاست کو ہی سامنے رکھیں تو بڑے میڈیا گروپس مخصوص سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ نظر آتے ہیں۔ وہ عوام کو سچائی و حقیقت دکھانے کے بجائے اپنے اپنے من پسند سیاستدانوں کی شان میں قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں اور مخالفین کی ذات کے بخیے ادھیڑتے نظر آتے ہیں۔ گالم گلوچ پروگرامز کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگی۔

میڈیا کا ایک اور اہم کردار عوام کو تفریح فراہم کرنا ہے، اس تفریح میں ملکی ثقافت کی بقاء ایک لازمی جزو ہے۔ پاکستان کے میڈیا کا صرف چند گھنٹے بیٹھ کر جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ یہ کسی اور ملک کے چینلز ہیں۔ ایسا کم از کم تین گھنٹے مختلف چینلز کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ انڈین ڈراموں میں مسلمان ثقافت کو اس طرح سے مجروح نہیں کیا جارہا جس طرح سے ہمارے ہاں کیا جارہا ہے۔ ایک انڈین ڈرامے میں مکمل طور پر مسلمان کرداروں کو مکمل طور پر اسلامی ناموں کے ساتھ، اسلامی روایات و ثقافت کے عین مطابق دکھایا گیا۔ جب کہ ملکی چینلز پر ایسے پروگرامز کی بھرمار ہے جن میں باقاعدگی سے ہندوآنہ تہذیب و تمدن کی ترویج کی جاتی ہے۔

ہمارے بچوں کے ذہنوں میں اسلامی تہوار اس طرح سے نقش نہیں جس طرح ہولی نقش ہورہی ہے۔ اغیار باقاعدہ حکمت عملی کے ذریعے تفریح کے نام پر اپنی مذہبی روایات ہماری آنے والی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔ لیکن ہم اپنے تفریحی پروگرامز تک کو بھی ان سے متاثر ہوکر ان کی تہذیب دکھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ناپختہ ذہنوں میں اغیار کے مذہبی ترانے نقش ہیں۔ کسی کو میرے نقطہء نظر سے اختلاف ہو تو ان سے گزارش ہے کہ صرف ایک سے دو گھنٹے پاکستان کے تمام نیوز اور تفریحی چینلز کو الٹ پلٹ کر دیکھیں، آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا۔

ایک دشمن وہ ہے جس سے ہم سرحدوں پر اور شورش زدہ علاقوں میں نبرد آزما ہیں، اور ایک دشمن وہ ہے جس سے ہم اپنے گھروں میں لڑرہے ہیں، یہ دشمن سرحدوں پر موجود دشمن سے کہیں گنا زیادہ خطرناک ہے۔ اس دشمن کی کارروائیوں کے اثرات پاکستان کے مستقبل کو منتقل ہو رہے ہیں۔ نئی نسل ایک ان دیکھے طریقے سے اسلامی روایات اور پاکستانی تہذیب و تمدن سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اور اگر ہم نے بروقت فیصلے نہ کئے تو نہ صرف بطور قوم ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا بلکہ انفرادی سطح پر بھی ہم کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ہمیں نہ صرف اپنا معیار خود قائم کرنا ہوگا بلکہ اطلاعات، شعور کی فراہمی، تفریح کے لیے بھی میڈیا کو خود ضابطہ اخلاق بنانا ہوگا۔ میڈیا کی آزادی یقیناً کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن لیکن شتر بے مہار آزادی معاشروں کی تباہی کا سبب بھی بنتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story