’’سینسر مالیکیول‘‘
محققین کے مطابق کینسر، دل کی بیماریوں، مرگی جیسے عارضے کا شکار افراد کو اس کی ضرورت پڑسکتی ہے
مختلف بیماریوں کی تشخیص اور جسمانی پیچیدگیوں کی وجہ جاننے کے لیے بلڈ ٹیسٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔
یہ ٹیسٹ جسم کے کسی حصّے میں انفیکشن، وائرس، خون کے خلیات کی تعداد اور دیگر اجزا کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرتا ہے، جس کے بعد علاج شروع کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر کو کسی مریض کے خون میں دوا کی مقدار جاننے کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے، کیوں کہ بعض اوقات غلطی سے دوا کی زیادہ خوراک یا مقدار (Overdose) بھی جسم میں پہنچ جاتی ہے اور زندگی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ سائنس دانوں نے ایک مالیکیول کے ذریعے خون میں دوا کی مقدار کا اندازہ لگانے کا تجربہ کیا ہے۔
اس مالیکیول اور ایک سادہ سے ٹیسٹ کے ذریعے دوا کی مقدار کا اندازہ لگانا ممکن ہو گا۔ 'نیچر کیمیکل بائیولوجی' نامی جریدے میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ اور امریکا کے محققین نے چند تجربات کے بعد بتایا ہے کہ خون کے ایک قطرے کے ساتھ اس مالیکیول کا ملاپ ہوتے ہی اس کا رنگ سرخ یا نیلا ہو جاتا ہے، جسے ایک معمولی ڈیجیٹل آلے کی مدد سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سائنسی ٹیم کے رکن روڈ ولف گرس کے مطابق یہ ٹیسٹ کسی لیبارٹری یا بڑے آلے کا محتاج نہیں ہو گا بلکہ ایک چھوٹی مشین اور سادہ طریقے سے مریض خود بھی خون میں دوا کی مقدار جان سکتا ہے۔ یہ اسی طرح ہو گا جیسے ہم گھروں میں شوگر کا ٹیسٹ کرلیتے ہیں۔
ان محققین کے مطابق کینسر، دل کی بیماریوں، مرگی جیسے عارضے کا شکار افراد کو اس کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی جسمانی عضو کی پیوند کاری کے بعد جسم میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہوسکتی ہے جس سے بچانے کے مخصوص ادویات استعمال کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ ان دواؤں کے ضمنی اثرات اور اوور ڈوز کی صورت میں خون میں زہر پھیلنے کا بھی خطرہ موجود ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے مریض غلطی سے کم مقدار میں دوا استعمال کررہے ہوں تو بھی یہ نقصان دہ ہے۔ اس لیے یہ ایجاد نہایت اہمیت رکھتی ہے اور مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کو بھی علاج معالجے میں آسانی ہوگی۔
طبی ماہرین کے مطابق جسم میں دوا کی مقدار سے متعلق مددگار موجودہ ٹیسٹ خاصا مہنگا ہوتا ہے جب کہ اس کا نتیجہ جاننے کے لیے خون کا نمونہ لیبارٹری میں بھیجنا پڑتا ہے، جس میں کچھ وقت لگ جاتا ہے، لیکن یہ ایجاد سستی اور استعمال میں آسان ہونے کے ساتھ وقت بھی بچائے گی۔ اس سلسلے میں ماہرین کافی عرصے سے کام کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ایجاد خاص طور پر دور دراز کے علاقوں میں موجود مریضوں کو فائدہ پہنچائے گی، جہاں طبی سہولیات کی کمی ہے۔
روڈ ولف گرِس کا کہنا ہے کہ یہ مالیکیول خون میں دوا کی بڑی حد تک درست مقدار ظاہر کرے گا اور اس کا نتیجہ بھی فوری طور پر سامنے ہو گا۔ اس طرح یہ یقیناً ایک اہم اور قابلِ ذکر ایجاد ہے۔ اس مالیکیول کے چار اجزائے ترکیبی ہیں۔ ایک ریسیپٹر یا وصول کنندہ پروٹین جو دوائی کے ساتھ مالیکیول کو جوڑ دیتی ہے، ایک چھوٹا سالمہ جو دوائی سے مماثلت رکھتا ہے جب کہ روشنی پیدا کرنے والا ایک اینزائم لوسی فیریز شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک فلورو فور مالیکیول جو اس روشنی کا رنگ تبدیل کر دیتا ہے، جس سے ٹیسٹ کا نتیجہ اخذ کیا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق اگر خون میں دوا موجود نہ ہو تو ریسیپٹر اور دوائی جیسا مالیکیول ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں۔ اس عمل میں لوسی فیریز اور فلورو فور مالیکیول بھی ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں اور اس طرح سرخ روشنی پیدا ہوتی ہے، لیکن مریض کے خون میں دوا کی موجودگی میں ریسیپٹر اصل کیمیائی جزو کے ساتھ جڑ کر دوائی جیسے مصنوعی مالیکیول کو دور دھکیل دیتا ہے۔ اس عمل کے دوران لوسی فیریز اینزائم اور فلورو فور مالیکیول ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں نیلی روشنی ظاہر ہوتی ہے۔
سائنس دانوں کی کوشش ہے کہ اس ضمن میں ایسا طریقہ اپنایا جائے جس میں جسم سے حاصل کیے گئے خون کے قطرے کو ایک اسٹرپ اور مخصوص آلے کے ذریعے ٹیسٹ کیا جاسکے۔ یہ گلوکومیٹر کی طرح کام کرے اور ٹیسٹ کا نتیجہ بھی فوراً سامنے آجائے۔ ماہرین کو امید ہے کہ وہ اپنی ایجاد کو جلد مارکیٹ میں عام فروخت کے لیے پیش کر دیں گے۔
یہ ٹیسٹ جسم کے کسی حصّے میں انفیکشن، وائرس، خون کے خلیات کی تعداد اور دیگر اجزا کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرتا ہے، جس کے بعد علاج شروع کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر کو کسی مریض کے خون میں دوا کی مقدار جاننے کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے، کیوں کہ بعض اوقات غلطی سے دوا کی زیادہ خوراک یا مقدار (Overdose) بھی جسم میں پہنچ جاتی ہے اور زندگی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ سائنس دانوں نے ایک مالیکیول کے ذریعے خون میں دوا کی مقدار کا اندازہ لگانے کا تجربہ کیا ہے۔
اس مالیکیول اور ایک سادہ سے ٹیسٹ کے ذریعے دوا کی مقدار کا اندازہ لگانا ممکن ہو گا۔ 'نیچر کیمیکل بائیولوجی' نامی جریدے میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ اور امریکا کے محققین نے چند تجربات کے بعد بتایا ہے کہ خون کے ایک قطرے کے ساتھ اس مالیکیول کا ملاپ ہوتے ہی اس کا رنگ سرخ یا نیلا ہو جاتا ہے، جسے ایک معمولی ڈیجیٹل آلے کی مدد سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سائنسی ٹیم کے رکن روڈ ولف گرس کے مطابق یہ ٹیسٹ کسی لیبارٹری یا بڑے آلے کا محتاج نہیں ہو گا بلکہ ایک چھوٹی مشین اور سادہ طریقے سے مریض خود بھی خون میں دوا کی مقدار جان سکتا ہے۔ یہ اسی طرح ہو گا جیسے ہم گھروں میں شوگر کا ٹیسٹ کرلیتے ہیں۔
ان محققین کے مطابق کینسر، دل کی بیماریوں، مرگی جیسے عارضے کا شکار افراد کو اس کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی جسمانی عضو کی پیوند کاری کے بعد جسم میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہوسکتی ہے جس سے بچانے کے مخصوص ادویات استعمال کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ ان دواؤں کے ضمنی اثرات اور اوور ڈوز کی صورت میں خون میں زہر پھیلنے کا بھی خطرہ موجود ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے مریض غلطی سے کم مقدار میں دوا استعمال کررہے ہوں تو بھی یہ نقصان دہ ہے۔ اس لیے یہ ایجاد نہایت اہمیت رکھتی ہے اور مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کو بھی علاج معالجے میں آسانی ہوگی۔
طبی ماہرین کے مطابق جسم میں دوا کی مقدار سے متعلق مددگار موجودہ ٹیسٹ خاصا مہنگا ہوتا ہے جب کہ اس کا نتیجہ جاننے کے لیے خون کا نمونہ لیبارٹری میں بھیجنا پڑتا ہے، جس میں کچھ وقت لگ جاتا ہے، لیکن یہ ایجاد سستی اور استعمال میں آسان ہونے کے ساتھ وقت بھی بچائے گی۔ اس سلسلے میں ماہرین کافی عرصے سے کام کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ایجاد خاص طور پر دور دراز کے علاقوں میں موجود مریضوں کو فائدہ پہنچائے گی، جہاں طبی سہولیات کی کمی ہے۔
روڈ ولف گرِس کا کہنا ہے کہ یہ مالیکیول خون میں دوا کی بڑی حد تک درست مقدار ظاہر کرے گا اور اس کا نتیجہ بھی فوری طور پر سامنے ہو گا۔ اس طرح یہ یقیناً ایک اہم اور قابلِ ذکر ایجاد ہے۔ اس مالیکیول کے چار اجزائے ترکیبی ہیں۔ ایک ریسیپٹر یا وصول کنندہ پروٹین جو دوائی کے ساتھ مالیکیول کو جوڑ دیتی ہے، ایک چھوٹا سالمہ جو دوائی سے مماثلت رکھتا ہے جب کہ روشنی پیدا کرنے والا ایک اینزائم لوسی فیریز شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک فلورو فور مالیکیول جو اس روشنی کا رنگ تبدیل کر دیتا ہے، جس سے ٹیسٹ کا نتیجہ اخذ کیا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق اگر خون میں دوا موجود نہ ہو تو ریسیپٹر اور دوائی جیسا مالیکیول ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں۔ اس عمل میں لوسی فیریز اور فلورو فور مالیکیول بھی ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں اور اس طرح سرخ روشنی پیدا ہوتی ہے، لیکن مریض کے خون میں دوا کی موجودگی میں ریسیپٹر اصل کیمیائی جزو کے ساتھ جڑ کر دوائی جیسے مصنوعی مالیکیول کو دور دھکیل دیتا ہے۔ اس عمل کے دوران لوسی فیریز اینزائم اور فلورو فور مالیکیول ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں نیلی روشنی ظاہر ہوتی ہے۔
سائنس دانوں کی کوشش ہے کہ اس ضمن میں ایسا طریقہ اپنایا جائے جس میں جسم سے حاصل کیے گئے خون کے قطرے کو ایک اسٹرپ اور مخصوص آلے کے ذریعے ٹیسٹ کیا جاسکے۔ یہ گلوکومیٹر کی طرح کام کرے اور ٹیسٹ کا نتیجہ بھی فوراً سامنے آجائے۔ ماہرین کو امید ہے کہ وہ اپنی ایجاد کو جلد مارکیٹ میں عام فروخت کے لیے پیش کر دیں گے۔