اسرائیل کا قیام اور پنجہ ٔیہود
یہودی عورتوں پر زور دیا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔
بقول شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کے ''فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔'' پیغمبر عالم بشریت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے حضرت یعقوبؑ (فرزند ِاسحاق ؑ) کا نام عبرانی میں اسرائیل ہے جو ''اِسراء'' یعنی عبد اور ''ایل'' یعنی اللہ سے منسوب ہے۔ عربی میں اس کا ترجمہ عبداللہ یعنی اللہ کا بند ہ ہے۔ چنانچہ آپ کی نسل کو اسی مناسبت سے بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ آپ کے بارہ بیٹے تھے جن کی وجہ سے بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں تقسیم ہو گئے۔
انھی بارہ قبیلوں میں سے یہودیت اور نصرانیت کی نسلوں کا سلسلہ قائم ہوا۔ اسرائیل کا قیام اور یہودیت کے پس منظر کا تذکرہ نامکمل رہ جاتا ہے جب تک یہودیوں کے اجتماعی قتل عام کی اصطلاح ہولوکاسٹ Holocaust کے بارے میں اپنے معزز قارئین کو آگاہی نہ ہو جائے۔ درحقیقت ہولوکاسٹ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب آگ میں جل کر قربانی دینا اور اس کا عبرانی زبان کا مترادف ہے ''شواح''۔ اسی لیے یہودی اس کی یاد میں یوم شواح مناتے ہیں۔
یہ لفظ ایک یہودی اسکالر ''بن زیان ویٹواز'' نے پہلی مرتبہ 1942ء میں دریافت کیا جو یہودیوں میں شہرت کا سبب بنا۔ اس کا کہنا تھا کہ شواح تاریخ کی عظیم ترین تباہی ہے۔ یہودیوں کی ویب سائٹ yadvashem.com کے مطابق ہالوکاسٹ یا شواح کا مطلب ''وہ تمام یہودی مخالف سرگرمیاں ہیں جو 1933ء سے لے کر 1945ء تک نازیوں نے سرانجام دیں۔'' دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی یہودیوں نے ہالوکاسٹ کا شوشہ پوری شدت کے ساتھ چھوڑا۔ جونہی جنگ عظیم ختم ہوئی تو نیشنل جیوش کانفرنس نے پوری دنیا سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے ایک ہم مذہب اور ہم نسل نے یہودیوں کا قتل عام کیا ہے اور بہت تھوڑے یہودی بچے ہیں۔
اب انھیں دوبارہ زندگی کی شروعات کے لیے علیحدہ ریاست دی جائے جس کا نام اسرائیل رکھا جائے۔ اسرائیل کا قیام یہودیوں کا صدیوں پرانا خواب تھا جس کے قیام کی کوشش انھوں نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد کی لیکن حالات نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ان کی اتنی مدد کی اور انھوں نے پروپیگنڈے میں مہارت کا وہ فائدہ اٹھایا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
محققین شماریات کے ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی کل تعداد لگ بھگ چودہ ملین ہے جن میں سات ملین امریکا، پانچ ملین ایشیاء، دو ملین یورپ اور ایک لاکھ افریقہ میں ہیں۔ آسٹریا یورپ کا وہ واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد یہودیوں کی آبادی میں تناسب کے لحاظ سے ہر ایک یہودی پر سو مسلمان ہیں۔
مذہبی لحاظ سے 1654ء میں پرتگال سے نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کی ایک قلیل تعداد نے امریکا کے شہر نیویارک میں سب سے پہلا عبادت خانہ (Synagouge) قائم کیا۔ انھوں نے اپنی تمام تر توجہ اور توانائیاں ملازمت کی بجائے کاروبار پر صرف کیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بلند پایہ سرمایہ کار کمپنیاں، بینکس انھی یہودیوں کی ملکیت ہیں۔
کہتے ہیں کہ عالمگیر سطح پر یہودیوں کے تین فرقے ہیں ۔(۱)۔ آرتھوڈوکس۔ (۲) کنزرویٹو۔ (۳) ریفارم۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان تینوں میں کسی قسم کا کوئی اختلافی پہلو منظر عام پر نہیں آیا جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہودیوں کے تینوں فرقے قومی اور نسلی اعتبار سے انتہائی منظم ہیں۔ یہودیوں کے چار مذہبی تہوار ہیں ۔ (الف)۔ پاس اوور۔ (ب) راش حاشانہ۔ (ت) یوم کپور۔ (ث )جانخا۔ مستند کتب میں لکھا ہے کہ یہودی اپنی بیٹی کے بالغ ہوتے ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں اور شادی کے دوسرے روز اس کا سرمونڈھ دیا جاتا ہے۔
یہودی عورتوں پر زور دیا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔ اس سلسلے میں یہودی اداروں کی طرف سے عورتوں کو مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ بلاشبہ امریکا کا بغل بچہ اسرائیل دنیا میں یہودیت کا فروغ چاہتا ہے۔ محققین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیل امریکا کا دوست ہونے کے باوجود اس کی خفیہ ایجنسی موساد نے کئی بار خود امریکا میں ناپسندیدہ کارروائیاں کی ہیں۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ دنیا میں یہودا (خدا) کی بادشاہت قائم کی جائے جس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے دو مختلف ناپاک حربے اختیار کیے۔ پہلا یہ کہ وہ عیسائیوں کو (جو امریکا کا ریاستی مذہب ہے) اسلام کا مخالف بنا کر یہودیت کو مضبوط کرنا تھا۔ دوسرا پہلو یہ کہ وہ خوبصورت لڑکیوں اور عورتوں کو استعمال کر کے امریکا سے اپنے مفاد کا حصول تھا جس کی واضح مثال یہودی لڑکی مونیکا لیونسکی کا سابقہ صدر امریکا کلنٹن کے ساتھ تعلقات کا اسکینڈل مشہور ہونا جس کی وجہ سے امریکی حکومت کمزور پڑ گئی اور یوں یہودیوں کا سیاسی برتری کا حصول ممکن ہوا۔
دوسری طرف ملعون سلمان رشدی کی غلیظ اور شرمناک کتاب کی اشاعت تھی جو مسلمانوں کے عقیدے پر عیسائیت کی طرف سے رکیک حملہ تھا۔ یہ منظم سازش کا منصوبہ بھی اسرائیل کا ہی تیار کردہ تھا۔ اپنے سیاسی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا بھر کے یہودیوں نے ایک طویل جنگ لڑی ہے ان کی نفسیات ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر وہ خامو ش نہیں رہتے اور موثر رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔
اس کی واضح مثال یوں ہے کہ 1994ء میں آسٹریلیا سے دو یہودی بھائی سیر کی غرض سے نیویارک آئے۔ رات کا وقت تھا۔ سیر کے دوران ایک کالے امریکی نے ان پر قاتلانہ حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ایک بھائی ہلاک ہو گیا۔ سیاہ فام قاتل اگلے ہی دن پکڑا گیا۔ مقدمہ شروع ہوا مقدمہ کے دوران مقتول کا بھائی واپس اپنے وطن آسٹریلیا چلا گیا۔ اس کی غیر موجودگی میں قاتل کی رہائی کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئی۔
اس فیصلے پر امریکی یہودیوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور مقدمے کو از سر نو ملک کی اعلیٰ عدالت میں لے گئے۔ مقتول کے بھائی کو آسٹریلیا سے نیویارک بلوایا گیا اور یقین دہانی کروائی گئی کہ اس مقدمے کے تمام اخراجات اور آسٹریلیا سے نیویارک آمد و رفت کا کرایہ امریکا میں آباد یہود کمیونٹی برداشت کرے گی۔ یہ مقدمہ تین سال کی طویل مدت پوری کرنے کے بعد مکمل ہوا، اس مقدمے کا فیصلہ مقتول کے حق میں ہوا۔ نتیجہ سیاہ فام قاتل کی سزائے موت کی شکل میں سامنے آیا۔
یہودیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عرب بدو کے ہاں یہودی ملازم زیادہ تر محنت و مشقت کے کام کیا کرتے تھے اور عرب بدووں کا یہ وتیرہ تھا کہ وہ ان پر ظلم ڈھانے کی غرض سے ان سے سخت محنت والے کام لیا کرتے تھے اس امتیازی سلوک کی وجہ سے یہودیوں کا غیر یہودیوں پر اعتماد ختم ہو گیا انھوں نے اشیائے ضروریہ زندگی خود تیار کرنی شروع کر دیں۔ حتٰی کہ بیماری کی صورت میں خود اپنے علاج کا بندوبست کر لیا۔ یہی وجہ ہے اب تک طب کے میدان میں جتنی بھی ایجادات ہوئیں تقریباً انھی یہودیوں کی مرہونِ منت ہیں۔
یہودیوں نے عالمی سطح پر اہم شخصیات متعارف کروائیں جن میں بل گیٹس، کارل مارکس، آئن اسٹائن، آسکراسٹراس، ہنری گونتھو، ہنری کسنجر، میڈیلن البرائٹ اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ جدید طب کی دنیا میں بنجمن روبن نے انجکشن، جونس سالک نے پولیو ویکسین کو جدید شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
ویکسینیشن برائے ہیپاٹائٹس بی جیسی انسان کو بچانے والی دوا کا سہرا بلمبرگ کو جاتا ہے۔ مشہور سائنسدان ایلی میکنی کوف انفیکشیئس ڈیزیز کی دریافت پر نوبل انعام حاصل کر چکا ہے۔ کڈنی ڈائلیسیس مشین کا موجد ولیم کولف تھا۔ چودہ ملین یہودیوں کی قابل ذکر تعداد انھی ایجادات کے صلے میں لگ بھگ پندرہ درجن نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں جب کہ 1.4 ملین مسلمانوں کی کثیر تعداد نوبل انعامات کا عالمی اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔