جذباتی خان
پچھلے مہینے جب پشاور سمیت پورے ملک میں موسلادھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک رات ہم بھی موسم بہار کی بارش سے لطف اٹھانے اور آلو پراٹھے کھانے کے لئے ہاسٹل سے باہر نکلے۔ بارش اور تاریکی کی وجہ سے گاڑی چلانے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ میں اپنے دوست فرہاد صافی کے ساتھ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا موسیقی سے لطف اُٹھا رہا تھا جب کہ ہمارے دو اور دوست گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے گپ شپ لگارہے تھے۔
اچانک فرہاد صافی نے پوچھا، یار عمران خان نظر نہیں آرہا۔ ہم سب دوستوں کو ایک لمحے کے لئے قدرے حیرت ہوئی کہ پتہ نہیں کون سے عمران خان کی بات کر رہا ہے، کیونکہ ہمارے کامن فرینڈز میں کسی ایک کا نام بھی عمران خان نہیں تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم کوئی جواب دیتے، اس نے فوراً کہا، لوجی آگیا عمران خان! اور ساتھ ہی اس نے یوٹرن لے کر ہوٹل کے سامنے گاڑی پارک کی۔ یہ دیکھ کر سب دوستوں نے ایک ساتھ زوردارقہقہہ لگایا۔
پچھلے روز پارلیمنٹ میں خواجہ آصف نے عمران خان کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو خود عمران اور اس کے چاہنے والوں نے اس کا کافی برا منایا۔ پی ٹی آئی کو آئینہ دکھانے والا اور ٹوئٹر اور فیس بک پر ٹاپ ٹرینڈ بننے والا وہی شخص ہے جس نے پرویز مشرف کی حکومت کے دوران پارلمینٹ میں پاکستانی جرنیلوں کے خلاف دھواں دھار تقریر کی تھی لیکن حکومت میں آنے کے بعد وزیردفاع بن کر انہی جرنیلوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کی کوشش کررہے ہیں جن کو وہ نالائق سمجھ رہے تھے۔ شاید اپنی غلطی سدھارتے سدھارتے ان کو مزید بھی بہت کچھ کرنا پڑے اور کافی عرصے تک کرنا پڑے، لہٰذا ان کی بات کو سیریئس نہیں لینا چاہئے۔ کیا پتہ کل دونوں سیاستدان مک مکا کرلیں اور خواجہ آصف کہیں کہ وہ تو میں نے کسی اور سیاق وسباق میں کہا تھا۔
کپتان کی بہت ساری اچھی خوبیوں کے باوجود بھی اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ ہم سب کی طرح وہ بھی ایک عام انسان ہیں اور انسانی ذات سے وابستہ تمام کمزوریاں ہم سب کی طرح ان پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے شروع ہی سے ان کے جذباتی بیانات اور جذبات پر مبنی بلند و بانگ دعووں سے سخت اختلاف رہا ہے کیونکہ ان کے اکثر سیاسی بیانات، دعوے اور وعدے کھوکھلے نعروں کے علاوہ کچھ نہیں۔ کراچی جانے سے پہلے میڈیا پر بیان داغا کہ ''اگر میرے کارکن کو کچھ ہوا تو الطاف حسین کے خلاف لندن جاوں گا'' ڈائیلاگ سن کر مجھے ایسے لگا کہ شاید ابھی ابھی زہرہ شاہد کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکا کے آئے ہوں۔ پاکستان کے اکثر سیاستدانوں کی طرح ان کے جملے بھی گا گے گی پر ختم ہوتے ہیں۔
تین مہینے میں کرپشن ختم کریں گے۔ نیا پاکستان بنائیں گے۔ نیا خیبرپختونخوا بنائیں گے۔ شیخ رشید کو تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہیں لگاؤںگا۔ الطاف حسین پرلندن میں مقدمہ کروں گا۔ کے پی میں تین سو پچاس چھوٹے ڈیم بنائیں گے۔ ایک ارب درخت کاشت کریں گے۔ نواز شریف میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ جعلی اسمبلیوں میں واپس نہیں جائیں گے۔ نیا پاکستان بننے تک میں شادی نہیں کروں گا۔ میں قوم سے سچ بولوں گا۔ آپ کو کبھی بھی مایوس نہیں کروں گا۔ کل تھرڈ امپائر کی انگلی اٹھے گی۔ نہیں کل اٹھے گی۔ بس دو دن بعد تو ضرور اٹھے گی۔ استعفے کے بغیر دھرنا ختم نہیں کروں گا۔
یہ وہ ڈائیلاگ ہیں جو شاید کافی عرصے تک عمران اور اس کے چاہنے والوں کے پریشانی کا باعث ہو۔
عمران خان نے سیاست میں آنے کے بعد جتنا وقت مختلف ٹی وی چینلز کے اسکرین پر تبدیلی کے بھاشن دینے میں گزارا شاید ہی کسی دوسرے سیاستدان نے گزارا ہو۔ ٹی وی پر آکر بلند و بانگ دعوے کرنا ان کی روزمرہ کا معمول بن گیا۔ ڈائیلاگ مارنے میں مہارت اور پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنے میں انہوں نے جس طریقے سے عوام کو اپنی جانب راغب کیا، شاید ہی کوئی محب وطن پاکستانی ہو جو متاثر ہوئے بغیر رہا ہو۔ یہاں تک کہ پاکستانی کی کرپٹ سیاست کی دلدل میں ہونے کے باوجود نیک نامی برقرار رکھنے والے جاوید ہاشمی جیسے باغی کو بھی نواز شریف سے بغاوت کرنے یا بالفاظ دیگر لوٹا بننے میں دیر نہیں لگی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی، جسے ریمنڈ ڈیوس کیس میں اوور ایکٹنگ کرنے پر زرداری نے قربانی کا بکرا بنایا۔ جب مجبوراً کسی دوسری پارٹی میں جانا پڑا تو انہوں نے پی ٹی آئی کے فورم کا انتخاب کیا۔ الیکشن سر پر آئے تو میرے پختونخوا کے غیور اور سادہ لوح عوام کی غیرت بھی کچھ ایسی جاگی کہ بڑے بڑے برج گرادیئے اور عمران خان کی پارٹی میں بعض ایسے نمائندوں کو بھی ایوان اقتدار کی راہ دکھائی جن کے بارے میں خود عمران خان بھی اعتراف کر چکے ہیںکہ ٹکٹ دیتے وقت انہوں نے کافی غلطیاں کی ہیں۔
عوام کے جذبات سے کھیلنا چونکہ سیاستدانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے، اس لئے صحت اور اسپورٹس کی دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے پاکستان کے عظیم سپوت عمران خان نے بھی پرانی روایت برقرار رکھنے میں ہی عافیت جانی اور اپنے سیاسی مہم کے دوران، الیکشن سے پہلے اور بعد میں ایسے بلند وبانگ دعوے کئے کہ آج بھی جب کوئی ان کو اپنے وعدے یاد دلانے کی کوشش کرتا ہے تو سوشل میڈیا پر موجود ان کے چاہنے والے اسے طعنہ سمجھ کر گالیاں دینے پر اتر آتے ہیں۔ جن صحافیوں نے ان سے اختلاف کرنے کی کوشش کی ان کو ایسی گالیاں پڑیں کہ ایک معروف صحافی نے تنگ آکر اپنے کالم میں عمران خان کا نمبر دے دیا تاکہ گالیاں براہ راست عمران خان کو ملے اور انہیں معلوم ہو کہ جن نوجوانوں کو انہوں نے سر پر چڑھا رکھا ہے، وہ کس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں۔
پاکستانی قوم یوں تو بہت ساری المیوں کا شکار ہے لیکن اس قوم کا ایک بہت بڑا المیہ اس کا جذباتی پن بھی ہے۔ پاکستان کے سارے سیاستدان پچھلے 70 سال سے انہی جذبات سے کھیلتے آرہے ہیں ۔ کوئی وطن اور جمہوریت کے نام پر ان کے جذبات سے کھلواڑ کرتا رہا، تو کسی نے مذہب کی آڑ میں ان کے ارمانوں کا خون کیا۔ صدر ایوب خان، ذولفقارعلی بھٹو اور ضیاء الحق سے لے کرچند سال پہلے امریکہ سے درآمد شدہ اوراقتدار ختم ہونے کے بعد دوبارہ برآمد شدہ وزیراعظم شوکت عزیز بھی کشکول توڑنے کے ڈائیلاگ ایسے مارتے تھے جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملنے والے 20 ارب امریکی ڈالر سے انہوں نے پاکستان کے سارے قرضے ختم کردیئے ہوں اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑے ہوکر اعلان کردیا ہو کہ میں تمہیں تین طلاق دے چکا ہوں۔
میں جذبات اور احساسات کو حضر ت انسان کی وہ کوالٹی سمجھتا ہوں جو اسے بے جان اور لاشعور جاندار سے ممیز کرتا ہے۔ جذبات کے بغیر انسان روبوٹ ہے۔ علم نفسیات کے مطابق ہر ایماندار شخص جذباتی ہوتا ہے۔ لیکن جذباتی ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان ایسے بلند وبانگ دعوے کرے کہ ان کو پورا کرنا نہ صرف مشکل ہو، بلکہ آخر میں انسان کو اپنا تھوکا واپس چاٹنا پڑے۔
اگر عمران خان یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اپنی مقدور بھر حصہ ڈالنے کے علاوہ اس کرپٹ نظام کو ٹھیک کرنے سے قاصر ہے جس کی ازسرِنو تعمیر کے لئے بہت بڑی قربانی اور ایمانداری درکار ہے، بلند و بانگ دعووں سے باز نہیں آتے اور الٹے سیدھے بیانات دینے کے بعد ایسی ہی قلابازیاں مارتے رہے تو اپنی نیک نامی سے ہاتھ دھونے کے علاوہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ان کی نیک نامی پہلے ہی سے داؤ پر لگی ہوئی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب عمران خان پاکستان خان، پاکستان کی شان، پاکستان کی آن، پاکستان کی جان، پاکستان کی پہچان اورکپتان جیسے القابات کے بجائے سوشل میڈیا پرموجود جذباتی خان، دھرنا خان، کنٹینر خان، تبدیلی خان، طالب خان، یوٹرن خان یا پھر کنفیوزڈ خان جیسے مختلف ناموں میں سے کسی ایک نام سے مستقل طور پر جانا جائے گا، جواس کے لاکھوں کروڑوں چاہنے والے کسی صورت برداشت نہیں کر پائیں گے۔ سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ انسان زبان کے پردے میں چھپا ہوا ہے۔ اسی طرح اور دانا شخص نے بھی کہا تھا کہ تین چیزیں کبھی بھی اپنے ماخذ سے نکل جائیں تو پھر واپس نہیں آتی۔ روح جسم سے، تیرکمان سے اور بات زبان سے!
[poll id="347"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔