عدل و انصاف کا قیام معاشرے کی ایک اہم ترین ضرورت

عدل کرنے والے کو عادل جب کہ انصاف کرنے والے کو منصف کہتے ہیں


Abdul Qadir Sheikh April 10, 2015
عدل کا متوازی لفظ انصاف بھی ہے جسے ہم اکثر استعمال کرتے ہیں فوٹو: فائل

ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: '' اﷲ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے وہ خود تمہیں نصیحت کررہا ہے کہ تم نصیحت کرو۔'' (سورہ النحل)

اس مختصر سی آیت میں اﷲ نے چھے باتوں کا حکم فرمایا ہے۔ عدل، بھلائی، قربت داروں سے حسن سلوک، بے حیائی سے اجتناب، غیر شائستہ حرکتوں سے پرہیز اور ظلم زیادتی سے رکنا۔

اتنے مختصر سے کلام میں ایسی جامع ہدایات شاید ہی کہیں اور ملتی ہوں۔ اس آیت کے مخاطب صرف مومن یا مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر انسان ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر وہ دنیا کی مختصر سی زندگی کو کارآمد بنا سکتا ہے بلکہ اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتا ہے، اگر وہ مسلمان ہے۔پہلا حکم عدل کرنے کا ہے۔ عدل کے معنی انصاف کرنے کے ہیں یعنی ایک انسان دو سرے انسان سے اس دنیاوی زندگی میں انصاف سے کام لے۔ کسی کے بھی ساتھ دشمنی، عناد، محبت یا قرابت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ دوسرے معنوں میں اسے اعتدال بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی کسی بھی معاملے میں افراط یا تفریط کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ حتیٰ کے دین کے معاملات میں بھی۔ کیوں کہ دین میں افراط کا نتیجہ لامحالہ غلو ہے جو اسلام کے نزدیک ایک مذموم حرکت ہے اور تفریط دین میں کوتاہی کرنے کے ہیں جو بذات خود ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔

عدل کے ایک اور معنی برابر کرنے کے ہیں۔ میزان یا ترازو بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے دونوں پلڑے برابر ہوتے ہیں۔ ذرا سی بھی اونچ نیچ عدل کے اور انصاف کے منافی ہوگی۔ حشر کے میدان میں بھی اﷲ تعالیٰ اپنی میزان نصب کرے گا جس میں بندوں کے اعمال تولے جائیں گے۔ میزان عدل کے آگے کسی اور ناپ تول کا نظام نہیں چلے گا۔ کیوںکہ وہ بڑا ہی عادل اور بڑا ہی انصاف کرنے والا ہے۔

قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ '' اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہوکر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں پس جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔'' (سورہ الزلزال) ان آیات میں لفظ ذرّہ دو مرتبہ آیا ہے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تشریح کر دی جائے تاکہ اعمال اور وزن آسانی سے سمجھ میں آجائیں۔ بعض کے نزدیک ذرّہ چیونٹی سے بھی چھوٹی چیز ہے۔ اہل لغت کہتے ہیں کہ انسان زمین پر ہاتھ مارتا ہے اس سے اس کے ہاتھ پر جو مٹی لگ جاتی ہے وہ ذرّات ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ سوراخ سے آنے والی سورج کی شعاعوں میں گردو غبار کے جو ذرّات نظر آتے ہیں اس کا نام ذرّہ ہے۔ اس ذرّے کا کتنا حجم اور وزن ہے یہ سب روز حشر اﷲ کی میزان میں تولے جائیں گے۔ اور انسان کے جنتی اور جہنمی ہونے کا پتا چل جائے گا۔

https://img.express.pk/media/images/Quote/Quote.webp

ان آیات کی شان نزول کے بارے میں امام مقاتل لکھتے ہیں کہ یہ آیات ان دو اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن میں ایک شخص سائل کو تھوڑا دینے میں تامل کرتا جب کہ دوسرا شخص کوئی چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو تھوڑا صدقہ بھی دیتے رہنا چاہیے اور کسی چھوٹے سے گناہ سے بھی اجتناب برتنا چاہیے۔

عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا حاکم و رعایا سب پر یک ساں ہیں۔ حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا: ترجمہ '' اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے کرو یقینا وہ بہتر چیز ہے اس کی نصیحت تمہیں اﷲ کر رہا ہے، بے شک اﷲ سنتا اور دیکھتا ہے۔'' (سورہ النساء)

اسی ضمن میں ایک حدیث بھی آئی ہے کہ ''حاکم جب تک ظلم نہ کرے اﷲ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کردیتا ہے تو اﷲ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ '' (ابن ماجہ کتاب الاحکام)

ایک اور مقام پر بلا تخصیص عوام و خواص سے فرمایا گیا: ترجمہ '' اے ایمان والو، تم اﷲ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے اور اﷲ تعالیٰ سے ڈر تے رہو یقین مانو کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔'' (سورہ المائدہ)

عدل کا متوازی لفظ انصاف بھی ہے جسے ہم اکثر استعمال کرتے ہیں۔ عدل کرنے والے کو عادل جب کہ انصاف کرنے والے کو منصف کہتے ہیں۔ عادل اور منصف اﷲ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں اور پھر یہی صفات آنحضورؐ کو بھی عطا کی گئیں اور پھر یہ تعلیم آپؐ نے اپنی پوری امت مسلمہ کو دی۔ قرآن حکیم میں اکثر مقامات پر اس کا ذکر آیا ہے۔ فرمایا گیا: ترجمہ ''اے ایما ن والو! انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے بن جاؤ اور اﷲ کی خوش نودی کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وہ خود تمہارے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتے دار عزیزوں کے، وہ شخص اگر امیر ہو یا فقیر ہو تو دونوں کا اﷲ خیر خواہ ہے۔ اس لیے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے۔ اﷲ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ ''(النساء)

متعدد احادیث مبارکہ میں عدل و انصاف پر زور دیا گیا ہے۔ چناںچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ '' قیامت کے دن اﷲ سے سب سے زیادہ قریب اور اﷲ کو سب سے زیادہ پیارا '' امام عادل '' ہوگا یعنی اﷲ کے حکم کے مطابق انصاف کے ساتھ حکم رانی کرنے والا حکم راں۔

آنحضور ؐ نے کئی مرتبہ مجمع میں اعلان فرمایا تھا کہ کسی شخص کو میری ذات سے تکلیف پہنچی ہو یا کسی کا قرض ہو تو وہ مجھ سے وصول کرلے۔ یہ نبی کریم ؐ کی تعلیمات ہی تھیں جن پر خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ عمل پیرا رہے یہی خلفاء اپنے آپ کو ہمیشہ عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرتے رہے۔

ہم آنحضور ؐ کے امتی ہیں آج ہم ان کی تعلیمات عدل و انصاف سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں اور نتیجتاً خسارے میں پڑتے جارہے ہیں۔ امت مسلمہ کا مداوا اسی میں ہے کہ ہم آپؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر روز قیامت سرخ رو ہو سکیں۔ چناںچہ روز قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے چار معروف صحابہ حضرت انس بن مالکؓ، حضرت سہل ابن سعدؓ، حضرت عبداﷲ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ ''جب میں حوض کوثر پر کھڑا ہوں گا تو میرے امتی میری طرف آرہے ہوں گے مگر کچھ لوگوں کو فرشتے میری طرف آنے سے روک دیں گے کہ نہیں انہوں نے آپ کے بعد آپؐ کا طریقہ چھوڑ دیا تھا اور نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔ میں کہوں گا کہ پھر انہیں پیچھے اور دور لے جاؤ۔'' (صحیح بخاری ج2، کتاب الحوض)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں