جوڈیشل کمیشن کا قیام اہم پیش رفت
چیف جسٹس نے الیکشن2013 ء میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے3 رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کردیا
KARACHI:
چیف جسٹس نے الیکشن2013 ء میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے3 رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کردیا، ذرایع کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، 16 اپریل کو سماعت ہوگی، جب کہ دھاندلی کی شکایات سیکریٹری کمیشن کے کے پاس جمع کرائی جاسکیں گی۔کمیشن سپریم کورٹ کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس ناصرالملک خودکمیشن کے سربراہ جب کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان اس کے رکن ہوں گے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک منتخب حکومت کا کسی اپوزیشن رہنما کی احتجاجی تحریک کے جواب میں عدالت عظمیٰ کے حاضر سروس فاضل ججز پر مشتمل عدالتی کمیشن کا قیام ایک اہم جمہوری پیش رفت ہے اور موجودہ حکومت نے مبینہ دھاندلی کی شکایت پر آزادانہ عدالتی تحقیقات پر رضامندی ظاہر کر کے ایک قابل تقلید روایت اور سیاسی جرات کا مظاہرہ کیا ہے، جمعرات کو کمیشن کا پہلا اجلاس دوپہر کو سپریم کورٹ میں طلب کیا گیا۔
اجلاس میں کمیشن کے کام کرنے کا طریقہ کار طے کرنے اور قواعد بنانے پر غور کیا گیا ۔چیف جسٹس نے سیکریٹری حامد علی کو سیکریٹری کمیشن مقرر کیا ہے۔ کمیشن عام انتخابات 2013ء انکوائری کمیشن آرڈیننس 2015 ء کے تحت وزارت قانون، انصاف اور انسانی حقوق کی جانب سے بھجوائی گئی درخواست پر تشکیل دیا گیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ کمیشن کو سول اور فوجداری عدالتوں کے اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ کسی بھی سرکاری اہلکار یا اتھارٹی کو طلب یا دستاویزات اور معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ اسے ایک یا ایک سے زیادہ تحقیقاتی ٹیمیں بنانے اورآئی ایس آئی، ایم آئی سے مدد لینے کا بھی اختیار ہوگا، کمیشن یہ طے کرے گا کہ الیکشن شفاف ہوئے یا نہیں ۔ کمیشن تحقیقات میں رکاوٹ بننے یا ہدایات نظر انداز کرنے والے کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف کارروائی کر سکے گا اور اسے کسی کو سزا دینے کے لیے سپریم کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔
کمیشن کو رپورٹ 45دن میں دینے کا پابند کرنے کے بجائے کہا گیا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ اسی عرصہ میں دے دی جائے ۔ حکومت اور پی ٹی آئی میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق الیکشن میں دھاندلی ثابت ہونے پر وزیراعظم قومی اسمبلی اور چاروں وزرائے اعلیٰ چاروں اسمبلیاں توڑ دیں گے اور دوبارہ انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی مشاورت سے نگران کابینہ بنائی جائے گی۔ دھاندلی ثابت نہ ہونے پر اسمبلیاں قائم رہیں گی ۔
جوڈیشل کمیشن کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ ایک طرف عمران خان کا کہنا ہے کہ 2015 ء میں اگر الیکشن نہ ہوئے تو آیندہ ضرور شفاف ہوں گے ، یعنی عدالتی کمیشن کی طرف سے شفافیت کی ضمانت کا یقین جمہوری عمل میں بلوغت نظر اور سنجیدہ طرز سیاست کی عکاسی کرتا ہے ۔
امریکی سیاست دان سٹیفن بائر کا کہنا ہے کہ ایک معاملہ کے تصدیقی عمل کے دوران مجھے سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں 17 گھنٹے بیٹھنا پڑا۔یہ انداز نظر عدلیہ پر اعتماد کا مظہر ہے ،جب کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جوڈیشل کمیشن میں فریق بننے کا فیصلہ کر لیا ہے جو آزاد عدلیہ تک اپنا نقطہ نظر پہنچانے کا اہم واقعہ ہے۔
چیف جسٹس نے الیکشن2013 ء میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے3 رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کردیا، ذرایع کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، 16 اپریل کو سماعت ہوگی، جب کہ دھاندلی کی شکایات سیکریٹری کمیشن کے کے پاس جمع کرائی جاسکیں گی۔کمیشن سپریم کورٹ کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس ناصرالملک خودکمیشن کے سربراہ جب کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان اس کے رکن ہوں گے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک منتخب حکومت کا کسی اپوزیشن رہنما کی احتجاجی تحریک کے جواب میں عدالت عظمیٰ کے حاضر سروس فاضل ججز پر مشتمل عدالتی کمیشن کا قیام ایک اہم جمہوری پیش رفت ہے اور موجودہ حکومت نے مبینہ دھاندلی کی شکایت پر آزادانہ عدالتی تحقیقات پر رضامندی ظاہر کر کے ایک قابل تقلید روایت اور سیاسی جرات کا مظاہرہ کیا ہے، جمعرات کو کمیشن کا پہلا اجلاس دوپہر کو سپریم کورٹ میں طلب کیا گیا۔
اجلاس میں کمیشن کے کام کرنے کا طریقہ کار طے کرنے اور قواعد بنانے پر غور کیا گیا ۔چیف جسٹس نے سیکریٹری حامد علی کو سیکریٹری کمیشن مقرر کیا ہے۔ کمیشن عام انتخابات 2013ء انکوائری کمیشن آرڈیننس 2015 ء کے تحت وزارت قانون، انصاف اور انسانی حقوق کی جانب سے بھجوائی گئی درخواست پر تشکیل دیا گیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ کمیشن کو سول اور فوجداری عدالتوں کے اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ کسی بھی سرکاری اہلکار یا اتھارٹی کو طلب یا دستاویزات اور معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ اسے ایک یا ایک سے زیادہ تحقیقاتی ٹیمیں بنانے اورآئی ایس آئی، ایم آئی سے مدد لینے کا بھی اختیار ہوگا، کمیشن یہ طے کرے گا کہ الیکشن شفاف ہوئے یا نہیں ۔ کمیشن تحقیقات میں رکاوٹ بننے یا ہدایات نظر انداز کرنے والے کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف کارروائی کر سکے گا اور اسے کسی کو سزا دینے کے لیے سپریم کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔
کمیشن کو رپورٹ 45دن میں دینے کا پابند کرنے کے بجائے کہا گیا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ اسی عرصہ میں دے دی جائے ۔ حکومت اور پی ٹی آئی میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق الیکشن میں دھاندلی ثابت ہونے پر وزیراعظم قومی اسمبلی اور چاروں وزرائے اعلیٰ چاروں اسمبلیاں توڑ دیں گے اور دوبارہ انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی مشاورت سے نگران کابینہ بنائی جائے گی۔ دھاندلی ثابت نہ ہونے پر اسمبلیاں قائم رہیں گی ۔
جوڈیشل کمیشن کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ ایک طرف عمران خان کا کہنا ہے کہ 2015 ء میں اگر الیکشن نہ ہوئے تو آیندہ ضرور شفاف ہوں گے ، یعنی عدالتی کمیشن کی طرف سے شفافیت کی ضمانت کا یقین جمہوری عمل میں بلوغت نظر اور سنجیدہ طرز سیاست کی عکاسی کرتا ہے ۔
امریکی سیاست دان سٹیفن بائر کا کہنا ہے کہ ایک معاملہ کے تصدیقی عمل کے دوران مجھے سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں 17 گھنٹے بیٹھنا پڑا۔یہ انداز نظر عدلیہ پر اعتماد کا مظہر ہے ،جب کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جوڈیشل کمیشن میں فریق بننے کا فیصلہ کر لیا ہے جو آزاد عدلیہ تک اپنا نقطہ نظر پہنچانے کا اہم واقعہ ہے۔