جمہوریت کے ثمرات
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے مذہبی حساسیت خاصی گہری ہو گئی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے مذہبی حساسیت خاصی گہری ہو گئی ہے۔ اگرچہ انھوں نے جن اصولوں کا اعلان کیا ہے انھیں ساروا، دھارما اور سمبھارا کا اصطلاحی نام دیا گیا ہے جن کا عمومی مطلب خدمت، مذہب اور طرز عمل کہا جا سکتا ہے لیکن اس سارے عمل میں تقسیم در تقسیم کا مکروہ چہرہ سب سے زیادہ نمایاں ہے جو ہر شعبے میں دیکھا جا سکتا ہے۔
عدلیہ واحد ادارہ ہے جو ان قباحتوں سے بالاتر ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے جج ''کُریان جوزف'' کی برہمی سے اقلیتی کمیونٹی کے دبے ہوئے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ''ہماری مذہبی اور ثقافتی تقریبات جن میں ذات پات یا رنگ اور نسل کا کوئی امتیاز نہیں بلکہ سب مل جل کر ان میں شرکت کرتے ہیں جو ہماری ثقافت کی رنگارنگی کا اظہار ہے اور پوری دنیا رشک کے ساتھ ہمارے سیکولر تشخص، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہماری عظیم قوم کی ثقافتی یک جہتی کو دیکھتی ہے۔
بھارت کو اس مشکل وقت میں اپنی ان خصوصیات کی حفاظت کرنی چاہیے اور دیگر اقوام کے لیے ایک رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہوئے مثال پیش کرنی چاہیے۔ البتہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے چیف جسٹسز کی سالانہ کانفرنس ''گڈ فرائیڈے'' کو کو رکھنے پر کچھ زیادہ ہی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کے چیف جسٹس ایچ۔ ایل دتو نے دیانت داری سے یہ محسوس کیا کہ لمبی تعطیلات کے باعث عدالتی کارکردگی میں خلل پڑ سکتا ہے لٰہذا انھوں نے ان لمبی تعطیلات کے دوران کانفرنس منعقد کرانے کا فیصلہ کر لیا جن میں ''گڈفرائیڈے'' کی چھٹی بھی شامل تھی۔
لیکن جہاں ان سے غلطی ہوئی وہ یہ تھی کہ انھوں نے مسیحی ججوں یا مسیحی برادری کی اس حوالے سے حساسیت کا خیال نہیں رکھا۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ اس قسم کی کانفرنس ''گڈفرائیڈے'' پر منعقد ہوئی ہو یہ الگ بات ہے کہ اُن دنوں میں اقلیتوں کو امتیازی سلوک کا اتنا شدید احساس نہیں تھا لیکن اب بی جے پی کی طرف سے ہندوتوا پر جو ضرورت سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے اس سے معاشرتی اجتماعیت کی فضا مکّدر ہو گئی ہے اور ملک کی آزادی کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے۔یہ درست ہے کہ ملک نے لوک سبھا میں بی جے پی کو مکمل اکثریت دی ہے، اس سے عوام کی سوچ میں ایک تبدیلی نظر آتی ہے جو چند سال پہلے تک صرف سیکولر جماعتوں کو ہی ووٹ دیتے تھے۔
یہاں یہ بات لازمی طور پر یاد رکھنی چاہیے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ جس کی وضاحت سپریم کورٹ نے کی ہے اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور سیکولر ازم آئین کا ایک جزو لاینفک ہے۔ عدلیہ کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک کے انتہا پسند عناصر آئین کی بنیاد کو ہی تبدیل کرانے کی اپنی سی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نئی اصطلاحات جیسے کہ ''گھر واپسی'' جس کا مطلب دوبارہ ہندومت قبول کرنا ہے اجمتاعیت کے تصور کو بگاڑنے کے لیے گھڑی گئی ہیں۔ ہریانہ کے اسکولوں میں ''بھگوت گیتا'' کو نصاب میں شامل کر لیا گیا ہے۔دہلی، ممبئی اور مدھیہ پردیش کے علاقے جبل پور میں گرجا گھروں پر حملے کیے گئے۔
ہریانہ اور مہاراشٹر میں بڑے گوشت (بیف) پر پابندی عائد کر دی گئی۔ وزیراعظم مودی نے بمشکل ہی گرجا گھروں پر حملے کی مذمت کی ہے جب کہ عام تاثر یہ ہے کہ وہ ہندوتوا کے پھیلاؤ کے خلاف نہیں ہیں جو کہ اب ملک بھر میں پھیلتا نظر آ رہا ہے۔بی جے پی کی جن ریاستوں پر حکومت ہے ان کی حالت اور زیادہ خراب ہے۔ وہاں پر ہندوتوا کے مظاہر بہت نمایاں ہیں لہٰذا اقلیتوں کا ڈر اور خوف قابل فہم ہے۔ میں نے بہت سے مسلمانوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ان کی جان و مال خطرے میں ہے۔ آر ایس ایس کے لیڈر اس صورت حال کا لطف لے رہے ہیں جب کہ بی جے پی میں جو آزاد خیال عناصر ہیں وہ چپ سادھے بیٹھے ہیں۔
ممکن ہے وہ بھی ہندوتوا کے نظریے کی بالادستی کے خواہاں ہوں لیکن، مسلمانوں کے لیے دوسرے درجے کا شہری ہونے کا تصور کسی صورت بھی قابل قبول نہیں کیونکہ آئین اس بات پر زور دیتا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور ہر ایک فرد کو صرف ایک ووٹ ڈالنے کا ہی حق حاصل ہے۔ مودی حکومت کے لیے یہ لازم ہے کہ کسی ادارے میں فرقہ واریت کا عنصر غالب نہ آئے۔ کیونکہ اس طرح عدلیہ کو ذمے دار سمجھا جائے گا جب کہ وزیراعظم کی طرف سے عدلیہ کو طنز کا نشانہ بنانے کی وجہ سے صورت حال اور زیادہ خراب ہو گئی ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے مودی کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ دو بھائیوں کی طرح ہیں جنھیں باہم مل کر مؤثر انتظامیہ اور انصاف کے لیے کام کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں جمہوریت کی دین ہیں۔ انھیں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر منصفانہ اور اجتماعیت پر مبنی معاشرے کے لیے کام کرنا چاہیے اور جہاں کسی کو غلط روی کا خدشہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دوسرے کو درست کرے۔یہ تاثر کہ فعال کارکنوں کی سرگرمیاں عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں درست نہیں۔ عدلیہ کی تقرری کے قومی کمیشن سے توقع ہے کہ وہ ججوں کی تقرری کے پرانے نظام کو تبدیل کر دے گا تا کہ ججوں کو انتظامیہ پر فوقیت حاصل ہو سکے تاہم ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب انتظامیہ کی بات کو زیادہ وزن دیا جاتا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب حکومت ججوں کی تقرری اور تبادلے میں سیاسی وجوہات کی بنا پر مداخلت کرتی ہے لہٰذا اس کی اصلاح کا انحصار بھی عدلیہ پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
جہاں تک موجودہ صورت حال کا تعلق ہے عدلیہ اور انتظامیہ دونوں ہی تقرریوں پر غیر جانبداری کی ضمانت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا لاء کمیشن کو سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ عدلیہ کو کس طرح دیگر اثرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس کے لیے کوئی ایسا طریق کار بنانا چاہیے جس سے انتظامیہ کو بھی شکایت کا موقع نہ ملے۔ اس طریقے سے عدلیہ اور انتظامیہ دونوں کی حساسیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں کا اصل کام عوام کی خدمت کرنا ہے۔حتیٰ کہ وزیراعظم کے بیان کی بھی اسکروٹنی کی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم کو احساس ہونا چاہیے کہ فعال کارکنوں کا کام ہی ان چیزوں کا گہرائی سے جائزہ لینا ہے۔
بہت سے سرکاری اسکینڈل ہرگز منظر عام پر نہیں آ سکتے تھے اگر سرکاری فیصلوں پر سوال نہ اٹھائے جاتے۔ مودی کی حکومت کو اس بات کی ضمانت دینی چاہیے کہ انتظامیہ عدلیہ کی کارکردگی میں قطعاً کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی عدلیہ کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ انتظامیہ کی پالیسی سازی پر بے جا اعتراضات سے گریز کرے۔ بالآخر دونوں کو آئین کی حدود میں رہ کر ہی کام کرنا ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)