انتہا درجہ احتیاط کی ضرورت

ہم ان کے اضطراب کی وجہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی سرحدوں کے لیے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔


اکرام سہگل April 10, 2015

KARACHI: یمن کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال نہ صرف پورے خطے کے لیے بالخصوص پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہو گئی ہے۔ یمن میں داخلی طور پر اتنے زیادہ تضادات اور پیچیدگیاں ہیں کہ جن پر قابو پائے بغیر حالات کا رخ بہتری کی طرف نہیں موڑا جا سکتا۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان سے فوری طور پر مدد کی درخواست کی گئی ہے۔

ہم ان کے اضطراب کی وجہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی سرحدوں کے لیے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ وہ اس افرادی قوت کے لیے جو ہم انھیں فراہم کرتے ہیں ہمیں معاوضہ دیتے ہیں لیکن یہ ایسی وجہ نہیں کہ جس کے لیے جان کی بازی لگا دی جائے، ہمارے لاکھوں ہم وطن عرب ممالک میں رزق کمانے کے لیے انتہائی مشکل حالات میں سخت محنت مشقت کرتے ہیں اور اس کے لیے بھی ہم ان کے شکر گزار ہیں اور اگر اس موقع پر ہم ان کی دفاعی امداد بھی کرتے ہیں تو یہ وقت کے تقاضے کے تحت ہو گی۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں جو بیان جاری کیا ہے، وہ زیادہ واضح نہیں ہے۔ ممکن ہے ایسا قصداً کیا گیا ہو لیکن اس ابہام میں بھی تشویش کے پہلو چھپے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے شیعہ سنی دونوں حجاز مقدس کی حفاظت کے لیے جذباتی طور پر آمادہ ہیں مگر جہاں تک سعودی سلطنت کی حفاظت کا تعلق ہے اس میں کوئی ابہام نہیں لیکن سعودی حکمرانوں کا تقاضا کیا ہے اس کا مکمل علم نہیں ہے کہ وہ اصل میں کیا چاہتے ہیں۔

جو عرب اتحاد یمن پر حملے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے کیا ہم بھی اس میں شامل ہو جائیں اور یمن میں حوثی قبائل کی قیادت میں جو باغی قوتیں ہیں ان کے خلاف برسرپیکار ہو جائیں۔ حوثیوں کو مبینہ طور پر ایران کی حمایت حاصل ہے جن کے ساتھ کچھ آرمی یونٹ بھی شامل ہو گئے ہیں جو سابق صدر عبداللہ صالح کے وفادار ہیں (1978ء سے 1990ء تک یمن دو حصوں میں تقسیم تھا جب کہ 1990ء سے 2012ء کے دوران شمالی اور جنوبی یمن کا ادغام ہو گیا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صورت حال کی پیچیدگی اور نزاکت کے پیش نظر ہم پر لازم ہے کہ جو قدم اٹھائیں پھونک پھونک کر اٹھائیں۔ داخلی طور پر ہمیں اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے کسی اقدام سے فرقہ واریت کو کسی قسم کا فروغ حاصل نہ ہو (اگرچہ ہمارے دوست مشاہد حسین نے اس معاملے کو فرقوں کے بجائے مختلف قوموں کے مابین پراکسی وار قرار دیا ہے) اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ سعودی عرب اور ایران کے حامیوں کے درمیان ایک پراکسی وار محسوس ہوتی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے کچھ پہلے ہمارے وزیراعظم نے ایران کو یمن کے بارے میں انتباہ کیا ہے۔کیا اس کا مقصد کسی ایک فریق کی طرفداری کا اشارہ تو نہیں؟

اراکین اسمبلی نے متفقہ طور پر اس خطرے کی توثیق کی ہے کہ ہمیں کسی ایسے فریق کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنی چاہیے جو ہمارا دشمن نہ ہو کیونکہ اس طرح خود ہمارے معاشرے میں پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ہماری مسلح افواج صورت حال کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت کی حامل ہیں اور وہ ضروری اقدامات کر بھی رہی ہیں۔

جنرل راحیل شریف نے اس بات پر درست اصرار کیا ہے کہ سعودی عرب کو موثر حمایت فراہم کرنے کے لیے پارلیمنٹ فیصلہ کرے اور ہمارے اراکین پارلیمنٹ نے درست طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ میاں نواز شریف کے ایجنڈے میں کیا بات پنہاں ہے، گویا اس معاملے میں نواز شریف حکومت اور سول سوسائٹی کو ایک دوسرے سے مختلف راستوں پر گامزن محسوس کیا گیا ہے اگر کسی سیاسی اقدام کی منفی انداز سے تعبیر کی جائے تو اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

جہاں تک اقوام کے مابین تعلقات اور اپنے قومی مفادات کو پروان چڑھانے کا معاملہ ہے اس ضمن میں اخلاقی اقدار کو مقدم رکھنے کا اصول باالعموم ناکام ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمیں اس پیچیدہ تضاد پر قابو پانا ہو گا اور انتہا پسند نقطہ نظر سے بہت احتیاط کے ساتھ نبٹنا ہو گا۔ جہاں تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کو زیادہ تر جذباتی انداز سے چلایا جا رہا ہے جس میں کہ اپنے قومی مفاد سے بھی صرف نظر کر دیا جاتا ہے۔

جنرل مشرف کو مغرب میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہو گئی تھی (اور اب بھی ہے) کیونکہ انھوں نے کولن پاول کی محض ایک فون کال پر ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' میں بے دھڑک چھلانگ لگا دی۔ جس کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں اور جس کے لیے ہماری قوم نے بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں اور ہمارا بے حد نقصان ہوا ہے۔

ہمارے کمانڈو جرنیل نے ایک بار بھی فاٹا یا سوات میں لڑنے والے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے وہاں کا دورہ نہیں کیا۔ شریف فیملی کے سعودیوں کے ساتھ جو تعلقات ہیں ان کا تقاضا ہے کہ سعودیہ کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے کیونکہ اس حوالے سے کوتاہی ہمیشہ کے لیے غلط فہمیاں پیدا کر سکتی ہے۔

بہت کم قومیں ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں کے لیے نقصان اٹھانے پر تیار ہوں لیکن کچھ دوستیاں اس قدر گہری ہوتی ہیں کہ ان کے معاملے میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے لیکن کیا ہمارے ایسے دوست بھی ہیں جو اپنے فوجیوں کی زندگی ہمارے بچاؤ کی خاطر داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہوں۔ ہمیں البتہ اپنے واجب الاحترام دوست کے لیے اپنی فوجوں کو دفاع کے لیے بھجوانا ضروری ہو سکتا ہے لیکن حملے کے لیے انھیں نہیں بھجوانا چاہیے۔

سعودی عرب کی مسلح افواج میں ان کی باقاعدہ فوج کے علاوہ ان کے نیشنل گارڈ (ایس اے این جی) بھی شامل ہیں جو بھرپور انداز سے مسلح ہیں۔ ان کے پاس تین بکتر بند بریگیڈ' پانچ میکنائزڈ بریگیڈ' ایک ایئر بورن بریگیڈ اور ایک رائل گارڈ بریگیڈ شامل ہے۔ ایس اے این جی میں تین میکنائزڈ بریگیڈ اور تین انفنٹری بریگیڈ شامل ہیں، ان کی فضائیہ کے پاس سات لڑاکا اور زمینی حملے والے سکوارڈرن اور چھ لڑاکا سکوارڈرن ہیں، ان کی بحریہ کے پاس گیارہ سطح سمندر پر چلنے والے جہاز اور 65 پٹرولنگ اور ساحلی لڑائی کرنے والی کشتیاں ہیں۔

اس کے پاس ایک بیلسٹک میزائل فورس بھی ہے جس کے پاس درمیانے فاصلے پر مار کرنے والے تقریباً 100 ڈاگ لینڈ بیلسٹک میزائل ہیں جب کہ ایئر ڈیفنس میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ریڈار نظام 164 مقامات پر نصب ہیں گویا سعودی عرب کی فضا مکمل طور پر محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں ان کے گشت کرنے والے جہازوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جن کی موجودگی میں سعودی عرب کی سمندری سرحدوں کو کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اگر ان کے خلاف لڑاکا طیارے اور بحریہ کے لڑاکا جنگی جہاز استعمال کیے جائیں لیکن اگر پاکستان اس کے ساتھ شامل ہوتا ہے تو اس کو نام نہاد ''سنی اتحاد'' کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ہم ابتدائی طور پر ایک میکنائزڈ بریگیڈ متعین کر سکتے ہیں جو سعودی اسلحے اور آلات حرب سے آراستہ ہو۔ جنھیں یمن کی سرحد پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔

اس خدشے کے پیش نظر کہ یمن کی طرف سے سرحد کی خلاف ورزیوں کا احتمال ہے جیسا کہ 1991ء کی خلیجی جنگ (آپریشن ڈیزٹ اسٹارم) کے دوران کیا گیا تھا۔ ہمارے پاس کراچی' ملتان' لاہور اور اسلام آباد کے ہوائی اڈوں پر ٹاسک فورس کے دستے موجود ہیں جنھیں کسی ہنگامی صورت حال میں فوری طور پر سعودی سرحد کی طرف بھجوایا جا سکتا ہے۔ ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی قائم کیا جا سکتا ہے تا کہ دفاعی کمک کی فی الفور ترسیل کی جا سکے اور اس حوالے سے کوئی تاخیر نہ ہو۔

جہاں تک سعودی مملکت کے اندر سیکیورٹی میں اضافے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بغیر کسی ابہام کے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ پاکستانی مسلح افواج کا کوئی ایک فرد بھی وہاں نہیں بھیجا جائے گا۔ ہم سعودی مسلح افواج کو اپنے طور کارروائی کرنے کے لیے سہولت بہم پہنچا سکتے ہیں اور جہاں تک فضائی حملوں کا تعلق ہے تو یہ صرف سعودی فضائیہ پر ہی مشتمل ہونے چاہئیں۔ ہم کسی کے خلاف جارحیت میں فریق نہیں بن سکتے اور نہ ہی دوسروں کی خانہ جنگی میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ہمیں مصالحت کی کوششوں میں شرکت کرنی چاہیے کیونکہ صورت حال انتہائی گمبھیر، پیچیدہ اور نازک ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں