اختلافات کی خلیج
مسئلہ وہاں پیدا ہو گیا جب مسلمانوں کی اکثریت دین پر عمل کرنے لگی اور نافذ ہونے لگا،
آج ایک تاریخی، جغرافیائی، سماجی حقیقت پر کچھ غور کرتے ہیں کہ یہ متقاضی ہے کہ ہم لوگوں تک ان کو پہنچا دیں، غور و فکر کا درس تو ہمیں ملا ہی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم اہل اسلام کی سرشت میں پیوست کر کے دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ Switch On کریں یا نہ کریں آپ کی مرضی، دین میں جبر نہیں، ساری اسلامی دنیا کو آج سے کئی صدیوں پہلے دیکھا جائے تو پہلے دو (2) فکر میں رکھا گیا اور بعد میں تین (3) اور پھر محاورے کے مطابق تیرہ (13) اور شاید آخر بہتر (72)!
کسی خاص واقعے سے بات شروع کریں گے تو شاید بات کو کوئی اور رخ مل جائے۔ لہٰذا اسے چھوڑ کر بادشاہتوں سے آغاز کرتے ہوئے وہاں آ جاتے ہیں جہاں حجاز کا نام ابھی تبدیل ہونے والا ہے۔
یہاں سے تیسری فکر کا آغاز ہوا، حجاز کا نام بدل گیا، وہ ہو گیا جو اب ہے، یہ تیسری فکر وہ تیسرا نظریہ ہے جس کی بنیاد بادشاہت پر رکھی گئی اور تخت نظریہ اسلام کا استعمال کیا گیا اس کی نئی تشریحات کی گئیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح عباسی خلفا اپنے اقتدار کے لیے نئے نئے اسلامی اور نیم اسلامی راستے تلاش کیا کرتے تھے۔
برصغیر ہند و پاک جو پہلے صرف ہندوستان تھا میں ہندو بدھ بہت پہلے سے آباد تھے اس وقت بھی جب مدینے میں نبوت کا اعلان ہوا تھا، ہندو اصل مذہب وہ نہیں تھا جو اب ہے، اس کی خالص باتیں انسانیت دوستی کا سبق دیتی تھیں، دنیا کا ہر مذہب اگر اصل کتاب اس مذہب کی دستیاب ہو جائے تو انسانیت پر انحصار کرتے ہوئے بنیادیں قائم کرتا ہے۔
اسلام برصغیر میں اور مسلمان ''درآمدہ لوگ'' تھے اور انھوں نے یہاں مزاحمتوں کے باوجود اپنے طرز عمل سے یہاں کے رہنے والوں سے رشتے استوار کیے، دوستیاں پیدا کیں اور ان میں رچ بس گئے کیوں کہ ہندو مت اور بدھ مت ''موئن جو دڑو'' ٹیکسلا، آمری اور کئی جگہ اس برصغیر میں اپنی نشانیاں رکھتا ہے، یہاں تک کہ شاید رانی کوٹ میں بھی اگر کبھی کوئی آثار ملے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس دور کے ہی ہوں یہ سارا راستہ ایک گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
خصوصاً صوبہ سندھ اس بین الاقوامی گزر گاہ کا پہلا پڑاؤ تھا۔ہم واپس آتے ہیں برصغیر میں یہاں مسلمانوں نے دو فکریں رکھیں اور دونوں کا اختلاط ہندو معاشرت سے تھا اور دونوں نے ہندو معاشرت اور رسم و رواج سے بہت کچھ OPT اور ACCEPT کیا اور اسے مثبت انداز میں اپنی فکر میں شامل کیا۔ ساتھ ہی ہند کے پارس یعنی ایران سے بھی رابطے تھے تو وہاں کے اثرات و رسوم بھی قافلوں کے ذریعے ہندوستان پہنچے، رائج ہوئے، تہذیبیں بھی متصادم نہیں متعارف ہوئیں، گماشتے، کارندے آتے جاتے رہے، زبانیں بھی ایک دوسری جگہ سفر کرتی رہیں، ترکی تک کے رسوم و رواج ہندوستان میں آ گئے۔
مسئلہ وہاں پیدا ہو گیا جب مسلمانوں کی اکثریت دین پر عمل کرنے لگی اور نافذ ہونے لگا، اس سے دوسری قوموں کو اپنے وجود کے متعلق خدشات پیدا ہو گئے کہ اگر لوگوں نے حقیقت شناسی کا راستہ اختیار کر لیا تو مسلمانوں کی تعداد بڑھ جائے گی، ہو سکتا ہے اور ہوا بھی کہ ہماری قوم کے لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں کیوں کہ وہاں ذات پات پر اتنی سختی سے عمل در آمد نہیں ہے، صرف غریب امیر کا ہی فرق ہے وہ ہمیشہ تھا اور ہے اور رہے گا یوں برصغیر میں ہندو مسلم اتحاد میں دراڑ پڑی، انگریز نے اسے چوڑا کیا دو فکروں کے درمیان اختلافات کی خلیج حائل کی، لوگ خریدے گئے، لوگ بکے، بک رہے ہیں۔
ادھر حجاز کا نام بدلا تیل کے چشمے پھوٹ پڑے، متحدہ عرب امارات خوشحال تیل کی دولت سے مالا مال، بادشاہت کا رواج اور سارے خطے میں بادشاہ شہزادے اور شہزادیاں، مصر سے لے کر حجاز تک اب اس خاندان کی تعداد 25 ہزار ہے۔ لا تعداد شہزادے اور شہزادیاں ہیں اور مزید پیدا ہو رہے ہیں سب مسلمان ہیں دنیا کی تاریخ میں انھیں مسلمان شہزادے، شہزادیاں اور ''کنگ'' کہا جاتا ہے، سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اس خاندان کو مستقل تحفظ ملنا چاہیے اور اس خیال کو مکمل رد کرنا چاہیے کہ اسلام میں بادشاہت کا کوئی تصور نہیں ہے اس کے لیے اس تیسری سوچ اور فکر کا سہارا لیا گیا جو ابتدا میں عرض کیا گیا تھا۔
برصغیر ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش میں تقسیم ہے۔ مسلمان ہر جگہ ہیں۔ یہ دراصل خطرہ ہیں ان مملکتوں کے لیے جو بادشاہت کی بنیاد پر قائم ہیں۔ تینوں ملکوں کے حالات پر نظر ڈال لیجیے۔ بنگلہ دیش کو تو ابھی بھارت کی ہی ایک کالونی سمجھنا چاہیے۔ پاکستان آپ کے سامنے ہے۔ کس طرح کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان ہی مسلمان کو ختم کر دیں۔ شاید قاتلوں کو مسلمان کہنا ٹھیک نہیں مگر افسوس یہ ہے کہ انھوں نے مسلمان گھرانوں میں جنم لیا ہے۔ بھارت میں مودی ایک شاطر انتہائی فسادی ذہن رکھنے والا، جس کے وزیر اعظم بنتے ہی بھارت کے ہندوؤں کی آنکھیں ماتھے پر چلی گئیں۔
بھارت کے مسلمانوں کی حالت زار کا کیا ذکر کریں دلت اور شودروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں مسلمان اور چند مفاد پرست میر جعفر، میر قاسم ٹائپ کے لوگ وہاں جے جے کار مسلمانوں کی کرتے رہتے ہیں۔مسلمانوں کو ''شدھی'' کرنے کی باقاعدہ مہم موجود ہے۔ ہمارے لیڈروں کے منہ پر کالک مل کر امریکا نے پاکستان کے دشمن سے حسب سابق دوستی کر لی ہے اور اب یہ دوستی پاکستان اور اسلام کے خلاف کام آئے گی۔
پاکستان میں طالبان اور دہشت گرد سرگرم عمل ہیں۔ پشاور کے بعد شکارپور ہو گیا آپ نہیں روک سکے۔ وہ آپ کی جڑوں میں بیٹھے ہیں۔ ان کو سپورٹ حاصل ہے، بہت اعلیٰ پیمانے کی اور اب تو وہ بھی دو ہو گئے ہیں ایک اور داعش بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ ایک اور بادشاہت کیوں قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ اسلام دشمنوں کے مکمل آلہ کار ہیں اور مسلمانوں کے تاریخی آثار تک مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اسلام کی برگزیدہ اور بزرگ ہستیوں کے مزارات اور مقبروں کے نام و نشان مٹا کر یہ اپنی دانست میں اسلام کا ہی نام مٹا رہے ہیں اسلام کے نام پر یہ ہے وہ ساری صورتحال جس میں پاکستان گھرا ہوا ہے۔
ایک طرف بھارت، دوسری طرف افغانستان، ایران سے گیس اور بجلی کے سلسلے میں امریکا کی غلامی کے صدقے بدعہدی نے ایک دوست کو متنفرکر دیا ہے یہ وہ دوست ہے جو اب تک امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے ہر چند کہ اب وہاں وہ حکومت نہیں کہ جسے امریکا شدید ناپسند کرتا تھا۔ چین واحد ملک ہے جو ساتھ کھڑا ہے،کب تک، اگر ہم اسی طرح بدعہدی کرتے رہے، تقسیم در تقسیم ہوتے رہے، خاکوں کو بنیاد بنا کر اسلام دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے، انھیں احساس دلاتے رہے کہ یہ ہماری کمزوری ہے آؤ ہمیں کمزور کرو تو پھر کل کیا ہونا ہے۔
ہر طرف سے پاکستان پر یلغار ہے، اندرونی بھی، بیرونی بھی۔ یوں لگتا ہے کہ یہ اسلام کے بچے کچھے نام لیوا ہیں جن کو سب مل کر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ملک میں نااہل حکمران ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی زیرو لیول کے آس پاس ہے، عوام کو سہولتوں کے بجائے تکالیف مل رہی ہیں، ان کو دونوں ہاتھوں سے TAX کے انواع و اقسام کے حربوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ ان کے سینوں سے اسلام کو نکالا نہیں جا سکتا۔