خوش کن خواب
کیا عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کی ازلی و دائمی خواہش پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گی؟
BARCELONA:
سیاست کے حوالے سے مستقبل بہت عجیب لگتا ہے۔ آنے والے دن، مہینے، سال اپنے دامن میں ملک و قوم کے لیے کیا لیے ہوئے ہوں گے؟ ڈھیروں خوشیاں، مسرتیں، اطمینان، امن یا دکھ غم، مایوسی حسرتیں۔ بعض اوقات یہ سوچ کر خود اپنے آپ سے کچھ سوالات کرنے کو دل چاہتا ہے۔ مثلاً کیا 2017ء کے بعد ملک سے انرجی بحران کا خاتمہ ہو جائے گا؟ کیا طالبانائزیشن ختم ہو جائے گی؟ ملک میں دہشت گردی، بدامنی نہیں ہو گی؟ مہنگائی کم ہو سکے گی؟ کیا ہمارے سیاسی رہنما بالغ نظر ہو جائیں گے؟ کیا الطاف حسین اپنی تقریر مقررہ وقت میں ختم کر رہے ہوں گے؟ کیا مولانا فضل الرحمن کی سیاست بے غرض و غایت ہو گی؟
کیا عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کی ازلی و دائمی خواہش پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گی؟ کیا آصف علی زرداری کی مفاہمانہ سیاست سے ان کی فیملی محفوظ ہو گی؟ کیا انڈیا خطے میں ہماری برتری قبول کر لے گا؟ کیا ہم امریکی چنگل سے نکل چکے ہوں گے؟ کیا آرمی محض سرحدوں کی حفاظت کے کام پر مامور ہو گی؟ کیا یہ فیصلہ ہو چکا ہو گا کہ کسی واقعے کی پہلی خبر میڈیا کے کس چینل نے نشر کی؟ کیا کھرے سچ اور کھرے جھوٹ میں تمیز کی جا سکے گی؟
یہ اور کچھ مزید سوالات جو میں نے بسا اوقات اپنے آپ سے کیے۔ لیکن ان کے جوابات تک پہنچنے میں مجھے مکمل تو کیا جزوی کامیابی بھی نصیب نہیں ہوئی۔ لہٰذا مان لینے میں حرج نہیں کہ مستقبل، سیاست کو چھوڑ کر تجارت و ثقافت کے حوالے سے بھی واضح نہیں۔ اس کی وجہ ان Policies کا نہ بننا ہے جو کم از کم 20 برسوں کے لیے بنائی جانی چاہئیں۔ مستقل قائم رہنے کے لیے۔ یعنی حکومت کسی کی بھی آئے یا جائے۔ تعلیم، صحت، میونسپل سروسز اور ملکی ترقیاتی پروگرامز کے حوالے سے جو منصوبہ بندی ہو اسے کوئی تبدیل نہ کرے۔
باوجود یہ کہ وہ خواہش رکھتا ہو۔ لیکن پھر بھی بنیادی انسانی ضرورتوں پر بننے والے منصوبوں کو تبدیل نہ کیا جائے۔ ایسے قوانین کا بننا اور اسے اسمبلی کے ہر ایوان سے منظور ہونا چاہیے۔ اور اگر بحکم خدا یہ ممکن ہو گیا تو پھر ان سوالات کے جواب شاید مل جائیں۔ شاید پھر ملک ترقی کی ڈگر پر چل نکلے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو جس پر ان دنوں بھی کچھ کام ہو رہا ہے۔ لیکن بہت سا ہونا باقی ہے۔ وہ ہے صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد جو کسی قسم کی دھاندلی سے پاک ہو۔ ایسا الیکشن جس کے پس پردہ کوئی خفیہ، اعلانیہ ہاتھ نہ ہو۔ وہ کسی ایسی خواہش سے بالاتر ہو کہ فلاں کو لانا ہے فلاں کو آنا ہے۔
کیونکہ جس دن ایک فرد کو یقین ہو گیا کہ اس نے اپنا ووٹ جس امیدوار کو دیا تھا وہ اسی کو ملا، تو اس کا اعتماد اور بھروسہ الیکشن پر بڑھے گا۔ اور اگلی بار ممکن ہے کہ وہ اپنا ووٹ کسی مزید بہتر امیدوار کے حق میں استعمال کرے۔ آگے جا کر یہی فرد، افراد میں، افراد معاشرے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ فیصلہ کرنے کا اختیار واقعتاً اسی ہاتھ میں ہو جسے حکومت بنانی ہے۔ اب کیا بنانی ہے یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کیسی طرز حکومت چاہتا ہے۔ کیسی سوسائٹی اس کی خواہش ہے۔ Election Reforms ان بنیادوں پر ہونی چاہئیں جن کے بعد الیکشنز کے 100 فیصد شفاف ہونے کی امید کی جا سکے۔
خواہ Biometric سسٹم پر انتخابات کروائیں یا نادرا جیسے اور کارآمد محکمے بنا لیے جائیں۔ اس معاملے کو بہرحال Complete Perfection کی نہج پر آنا چاہیے۔ تب ہی ہم مستقبل کے پاکستان سے جڑے سوالات کا کوئی حل طلب جواب نکال پائیں گے۔ ہم موجودہ سیاسی قیادت سے تجویز شدہ تبدیلیوں کی امید کریں تو بعید از قیاس ہو گا کیونکہ وہ کسی قدر اسی نظام کا حصہ ہیں یا اسے بنانے کے ذمے دار ہیں جنھیں بدلنے کا ذکر خیر ہے۔ لہٰذا کچھ مدت تک عدلیہ اور پاک فوج جیسے مضبوط اور منظم اداروں کو اپنا کردار اس معاملے میں ادا کرنا چاہیے۔ اگر کوئی حکومت بے سمت، گمراہ یا عاقبت نااندیش ہو۔ اور جمہوری بھی کہلاتی ہو تو اسے اس متعین حد سے باہر نہ نکلنے دیا جائے جسے آئین نے اس کے لیے طے کر دیا۔ جیسے عمران خان کو یقین کامل ہے کہ وہ ملک کی کل آبادی میں سب سے Honest, Purify اور The Best ہیں۔
لہٰذا یہ طے کر لینے کے بعد وہ ہر ادارے، اپنے ہر حریف پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں یا آصف علی زرداری جو مفاہمت کی آڑ میں محض اپنے کاروبار کا پھیلاؤ چاہتے ہیں۔ اسی طرح دیگر سیاسی رہنما جو بڑی اور ملک گیر جماعتوں کے قائد ہیں۔ لیکن ان کا ایجنڈا حکومت میں آنے سے قبل اور آنے کے بعد یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ان کی حدود اور دائرہ کار یا بہ الفاظ دیگر دائرہ اختیار متعین ہونا چاہیے۔ وہ مقتدر ادارے جن کا میں ذکر کر چکا ہوں۔ انھیں ہر حکومت کے پانچ سال کچھ پابندیوں کے ساتھ جو سراسر آئینی ہوں پورے کروانے چاہئیں۔ تا کہ ان کے دعوے، وعدے اور ارادے عوام پر کھل سکیں اور وہ اگلی مرتبہ پھر سے مظلوم بن کر عوام کے سامنے نہ کھڑے ہوں۔ میرا خیال ہے کہ تحریر کے اس موڑ تک پہنچنے پر چند ایسی تجاویز پر بات ہوئی جو Future کے پاکستان کی ترقی کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتی ہیں۔ اب ذرا آگے چلتے ہوئے میں ایسے اہل دانش، مفکر، ادیب، شعرا، پروفیسرز، یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز پر مشتمل ''تھنک ٹینک'' کے قیام کی تجویز بھی پیش کروں گا جو ریاستی اداروں یا اگر قانون میں گنجائش ہو تو اعلیٰ عدلیہ کی زیر نگرانی قائم کیے جائیں۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے کا یہ طبقہ بہت ذہین و زمانہ شناس ہوتا ہے۔ بلاشبہ کسی عام فرد کے مقابلے میں اس طبقے کا فرد جانتا ہے کہ ملکی ترقی کا راز کن فیصلوں میں مضمر ہے۔
انھی Think Tanks پر یہ ذمے داری عائد کی جائے کہ وہ بین الصوبائی تعلقات میں بہتری کے لیے کام کریں۔ اور چاروں صوبوں کی عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایسے منصوبے بنائیں ایسی تقریبات کا انعقاد کریں کہ ملک سے علاقائی اور صوبائی سوچ کا خاتمہ ہو اور اس کی جگہ ایسا Coalition Culture لے جس میں ہر ایک پاکستانی ہو۔ اور فخریہ ہو۔ جب کہ دیگر نام محض شناخت کی علامت کے لیے استعمال کیا جائے۔
قارئین کرام! ممکن ہے کہ میں کوئی خوش کن خواب دیکھ رہا ہوں۔ لیکن کیا خواب دیکھنا جرم ہے؟ کیا خوش فہمی آگے بڑھنے کے لیے ضروری نہیں؟