ہو رہے گا کچھ نہ کچھ
وطن عزیز یوں تو ہمیشہ طرح طرح کے مسائل کا شکار رہتا ہے، کیونکہ اب یہی مسائل ہمارے وجود کی علامت بن چکے ہیں۔
وطن عزیز یوں تو ہمیشہ طرح طرح کے مسائل کا شکار رہتا ہے، کیونکہ اب یہی مسائل ہمارے وجود کی علامت بن چکے ہیں۔ مگر ہمیشہ کو چھوڑیے فی الحال جو تازہ ترین مسائل ہیں اور جو بہت اہم بھی ہیں ان میں سرفہرست قومی اسمبلی کا حلقہ 246 کا ضمنی انتخاب، پی ٹی آئی کی دوبارہ ایوان میں آمد، یہ دو تو ہوئے ہمارے اندرونی مسائل، ایک بیرونی مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان ہونے والے تنازعے میں ہمارا (پاکستان ) کیا کردار ہونا چاہیے۔
اس معاملے پر فی الحال اظہار خیال اس لیے نہیں کر رہے کہ حکومت خود ابھی تمام سیاسی جماعتوں سے مشورے کر رہی ہے (ہو سکتا ہے کہ ہمارا کالم آنے تک فیصلہ ہو چکا ہو) اور تمام ہی ممبران اسمبلی اور سینیٹ (ایوان بالا و ایوان زیریں) اپنے اپنے نقطہ نظر پر بات کر رہے ہیں، مگر بقول اعتزاز احسن ''وزیر اعظم بھی سعودی عرب ہو آئے، ایک وفد بھی جا کر آ گیا، وہاں کیا طے پایا؟ کیا وعدے ہوئے، ہمیں پہلے ان سے آگاہ کیا جائے پھر ہم ان کی روشنی میں اپنی حتمی رائے کا اظہار کریں۔
یہ مشترکہ اجلاس محض دکھاوے اور انگوٹھا لگوانے کے لیے منعقد نہیں ہونا چاہیے۔'' لہٰذا ابھی صورتحال واضح نہیں۔ مگر ضمنی انتخابات اور پی ٹی آئی کی ایوان میں واپسی تو سامنے کی باتیں ہیں۔ ضمنی انتخابات ہوتے رہتے ہیں، مگر ان کو انا اور ہٹ دھرمی کے بجائے جمہوری ہی رہنا چاہیے، ورنہ پھر انتخابات کتنے ہی شفاف اور غیر جانبدار ہوں مدتوں اس پر تبصرے اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یوں تو رواداری ہمارے معاشرے میں ناپید ہو چکی ہے مگر جو خود کو عوام کے نمایندے کہتے ہیں انھیں کم از کم دکھاوے کے لیے ہی سہی کچھ نہ کچھ رواداری ضرور دکھانی چاہیے۔
این اے 246 میں ایک طویل عرصے سے ایم کیو ایم کامیاب ہوتی آ رہی ہے، ایم کیو ایم کے ساتھ انتظامیہ اور حکومت سندھ کے موجودہ رویے نے پی ٹی آئی کو موقع دیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس کو موقعہ دلایا گیا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ بہرحال اس صورتحال کے باعث معاملہ کچھ زیادہ اہم اور کسی حد تک دلچسپ ہو گیا ہے۔ دونوں جانب سے انتخابی بیان بازی جاری تو تھی ہی (جو کہ ہر انتخاب میں معمول کی بات ہے) اور دونوں جانب سے کبھی سخت اور کبھی دلچسپ بیانات کا تبادلہ ہو رہا تھا مگر صورتحال اس وقت سنجیدہ ہوئی جب پی ٹی آئی کے اس حلقے سے مجوزہ امیدوار عمران اسمٰعیل اچانک اپنے حامیوں کو لے کر بغیر انتظامیہ کو پیشگی اطلاع کیے جناح گراؤنڈ پہنچ گئے جہاں محلے کے لڑکے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے۔
اطلاعات کے مطابق (غلط یا صحیح) پی ٹی آئی امیدوار کے ساتھ آنے والوں نے جن کا اس علاقے سے کوئی تعلق نہ تھا انھوں نے جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے جناح گراؤنڈ میں آویزاں الطاف حسین کی تصاویر پوسٹرز ایم کیو ایم کے جھنڈے اور دیگر بینرز کو نقصان پہنچایا تو وہاں کھیلتے لڑکوں نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا اور خوب نعرے لگائے جب جوابی نعروں کا تبادلہ ہوا تو نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ لاتوں کے علاوہ بلے اور ڈنڈوں کا استعمال بھی ہوا خود عمران اسمٰعیل کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ علاقہ ایم کیو ایم کے ہمدردوں کا ہے۔
اگرچہ جناح گراؤنڈ ایم کیو ایم کی ملکیت نہ سہی مگر ان کے اثر و رسوخ کے علاقے میں نہ صرف ہے بلکہ انھوں نے ہی اس کو صاف ستھرا اور آراستہ کر رکھا ہے اور وہاں انھوں نے اپنے ماورائے عدالت مارے جانے والے کارکنان کی یادگار بھی قائم کی ہوئی ہے تو جو جذباتی لگاؤ ان کو اس گراؤنڈ سے ہو گا وہ اور کسی کو کیسے ہو سکتا ہے؟ اس واقعے کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ اب گزشتہ دنوں واٹر پمپ چورنگی سے پی ٹی آئی نے ایک ریلی نکالی، اس میں بھی دونوں جانب کے کارکنان آمنے سامنے آ گئے۔
این اے 246 میں ضمنی انتخابات کی وجہ نبیل گبول کا استعفیٰ ہے۔ جب ایم کیو ایم نے گبول صاحب کو ٹکٹ دیا تھا تو میں نے الطاف حسین کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ عرصے سے ایم کیو ایم کے لیے قربانیاں دینے والوں پر ایک نووارد کو ترجیح دینا مناسب نہیں ہے، پہلے انھیں کچھ عرصہ آزمالیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس حلقے کے تینوں امیدوار اپنی اپنی کامیابی کا اعلان کر چکے ہیں، ریلی کے اختتام پر عمران اسمٰعیل اور عارف علوی نے اعلان کیا کہ ہم جیت چکے ہیں (یعنی الیکشن کمیشن بلاوجہ زحمت نہ فرمائے) ادھر ایم کیو ایم کے امیدوار نے کہا کہ اگر انتخاب شفاف اور غیرجانبدار ہوئے، یہ رینجرز یا فوج کسی کی بھی نگرانی میں ہوں تو پی ٹی آئی کو دس ہزار سے زائد ووٹ نہیں ملیں گے، ادھر جماعت اسلامی کے امیدوار نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا البتہ یہ کہہ کر صورتحال واضح کر دی کہ ''حلقے کی خاموش اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔''
ان تمام بیانات کی روشنی میں صورتحال یہ ہے کہ این اے 246 وہ خوش نصیب حلقہ ہے جس کو بہت جلد تین خادمین قوم میسر ہونے والے ہیں، جب تینوں ہی کامیاب ہوں گے تو پھر ان کا فرض بنتا ہے کہ اپنے ووٹرز کو مایوس نہ کریں اور ان کی جی جان سے خدمت کریں، اگر ایسا ہوا تو یہ علاقہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ایشیا کا واحد علاقہ ہو گا جس کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے، خوشحالی، فارغ البالی، گھر گھر امن و سکون، ملک بھر کا سب سے پر امن اور ترقی یافتہ علاقہ۔
ابھی تک دوسرے مسئلے یعنی پی ٹی آئی کی ایوان میں واپسی پر بات نہ ہو سکی کیونکہ یہ صورتحال بھی کافی دلچسپ اور اہم ہے۔ چلیے ہم اپنا نقطہ نظر چھوڑتے ہیں، صرف دانشوران قوم کے ارشادات تک بات کو محدود رکھتے ہیں، کسی نے اس صورتحال کو آئینی کسی نے غیر آئینی قرار دیا تو کسی نے جمہوریت کے حق میں نیک فال اور احسن اقدام سے تعبیر کیا، مگر کچھ سرپھروں کا کہنا یہ بھی ہے ملکی حالات کی ابتری کے باوجود طویل دھرنوں سے کیا حاصل کیا؟ جو سرفہرست مطالبہ تھا یعنی وزیراعظم کا استعفیٰ، صرف وہی نہ منوایا گیا۔
ہاں ایک سال دس ماہ کے دوران حکومت پی ٹی آئی، دھرنے، احتجاج جلسے جلوس غرض کسی نہ کسی صورت میڈیا پر اپنی موجودگی ضرور ظاہر کرتی رہی اور میڈیا بڑے خلوص سے ان کو بھرپور کوریج دیتا رہا اس کے علاوہ اور کیا حاصل کیا؟ نہ کوئی حلقہ کھلا، نہ کہیں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوئی، نہ کسی عدالت نے دھاندلی ثابت کی، رہا جوڈیشل کمیشن وہ بن تو گیا مگر وہ بھی متنازعہ ہی ہے۔ ویسے ہو سکتا ہے کچھ نہ کچھ پا لیا ہو ہمیں اندرونی باتوں کی ہوا کب لگتی ہے۔
البتہ یہ ہے کہ سیاسی ماہرین روز اول سے محترم خان صاحب کو پرخلوص مشورے دے رہے ہیں کہ ''اور بھی دکھ ہیں زمانے میں سیاست کے سوا'' تو اگر موصوف کو کچھ دکھ پالنے کا شوق ہے ہی تو کسی دوسرے انداز سے یہ دکھ سہہ لیں، مگر سیاست کو معاف کریں کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ اب تک کی صورتحال یعنی خان صاحب کے تمام فیصلے اس بات کی تصدیق ہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے کئی دانشور خان صاحب کی پیٹھ ٹھونک ٹھونک کر ان کو مزید خوش فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں کہ حضور آپ ہی تو قوم کے اصل نجات دہندہ ہیں، قدم بڑھائیے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
بہرحال جو کچھ بھی صورت پیش آئے حقیقت یہ ہے کہ دنیا اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہے، پاکستان یوم اختتام تک انشا اللہ قائم و دائم رہے گا اور اس کے سیاستدان بھی۔ اس مختصر عرصے میں کیا صورتحال بنتی ہے؟ اور بس (تازہ اطلاعات کے مطابق جماعت امیدوار پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار ہو گئے) یعنی سب مل کر اس بار ایم کیو ایم کو آؤٹ کر دینے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ تو رہنے دیجیے:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
اس معاملے پر فی الحال اظہار خیال اس لیے نہیں کر رہے کہ حکومت خود ابھی تمام سیاسی جماعتوں سے مشورے کر رہی ہے (ہو سکتا ہے کہ ہمارا کالم آنے تک فیصلہ ہو چکا ہو) اور تمام ہی ممبران اسمبلی اور سینیٹ (ایوان بالا و ایوان زیریں) اپنے اپنے نقطہ نظر پر بات کر رہے ہیں، مگر بقول اعتزاز احسن ''وزیر اعظم بھی سعودی عرب ہو آئے، ایک وفد بھی جا کر آ گیا، وہاں کیا طے پایا؟ کیا وعدے ہوئے، ہمیں پہلے ان سے آگاہ کیا جائے پھر ہم ان کی روشنی میں اپنی حتمی رائے کا اظہار کریں۔
یہ مشترکہ اجلاس محض دکھاوے اور انگوٹھا لگوانے کے لیے منعقد نہیں ہونا چاہیے۔'' لہٰذا ابھی صورتحال واضح نہیں۔ مگر ضمنی انتخابات اور پی ٹی آئی کی ایوان میں واپسی تو سامنے کی باتیں ہیں۔ ضمنی انتخابات ہوتے رہتے ہیں، مگر ان کو انا اور ہٹ دھرمی کے بجائے جمہوری ہی رہنا چاہیے، ورنہ پھر انتخابات کتنے ہی شفاف اور غیر جانبدار ہوں مدتوں اس پر تبصرے اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یوں تو رواداری ہمارے معاشرے میں ناپید ہو چکی ہے مگر جو خود کو عوام کے نمایندے کہتے ہیں انھیں کم از کم دکھاوے کے لیے ہی سہی کچھ نہ کچھ رواداری ضرور دکھانی چاہیے۔
این اے 246 میں ایک طویل عرصے سے ایم کیو ایم کامیاب ہوتی آ رہی ہے، ایم کیو ایم کے ساتھ انتظامیہ اور حکومت سندھ کے موجودہ رویے نے پی ٹی آئی کو موقع دیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس کو موقعہ دلایا گیا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ بہرحال اس صورتحال کے باعث معاملہ کچھ زیادہ اہم اور کسی حد تک دلچسپ ہو گیا ہے۔ دونوں جانب سے انتخابی بیان بازی جاری تو تھی ہی (جو کہ ہر انتخاب میں معمول کی بات ہے) اور دونوں جانب سے کبھی سخت اور کبھی دلچسپ بیانات کا تبادلہ ہو رہا تھا مگر صورتحال اس وقت سنجیدہ ہوئی جب پی ٹی آئی کے اس حلقے سے مجوزہ امیدوار عمران اسمٰعیل اچانک اپنے حامیوں کو لے کر بغیر انتظامیہ کو پیشگی اطلاع کیے جناح گراؤنڈ پہنچ گئے جہاں محلے کے لڑکے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے۔
اطلاعات کے مطابق (غلط یا صحیح) پی ٹی آئی امیدوار کے ساتھ آنے والوں نے جن کا اس علاقے سے کوئی تعلق نہ تھا انھوں نے جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے جناح گراؤنڈ میں آویزاں الطاف حسین کی تصاویر پوسٹرز ایم کیو ایم کے جھنڈے اور دیگر بینرز کو نقصان پہنچایا تو وہاں کھیلتے لڑکوں نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا اور خوب نعرے لگائے جب جوابی نعروں کا تبادلہ ہوا تو نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ لاتوں کے علاوہ بلے اور ڈنڈوں کا استعمال بھی ہوا خود عمران اسمٰعیل کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ علاقہ ایم کیو ایم کے ہمدردوں کا ہے۔
اگرچہ جناح گراؤنڈ ایم کیو ایم کی ملکیت نہ سہی مگر ان کے اثر و رسوخ کے علاقے میں نہ صرف ہے بلکہ انھوں نے ہی اس کو صاف ستھرا اور آراستہ کر رکھا ہے اور وہاں انھوں نے اپنے ماورائے عدالت مارے جانے والے کارکنان کی یادگار بھی قائم کی ہوئی ہے تو جو جذباتی لگاؤ ان کو اس گراؤنڈ سے ہو گا وہ اور کسی کو کیسے ہو سکتا ہے؟ اس واقعے کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ اب گزشتہ دنوں واٹر پمپ چورنگی سے پی ٹی آئی نے ایک ریلی نکالی، اس میں بھی دونوں جانب کے کارکنان آمنے سامنے آ گئے۔
این اے 246 میں ضمنی انتخابات کی وجہ نبیل گبول کا استعفیٰ ہے۔ جب ایم کیو ایم نے گبول صاحب کو ٹکٹ دیا تھا تو میں نے الطاف حسین کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ عرصے سے ایم کیو ایم کے لیے قربانیاں دینے والوں پر ایک نووارد کو ترجیح دینا مناسب نہیں ہے، پہلے انھیں کچھ عرصہ آزمالیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس حلقے کے تینوں امیدوار اپنی اپنی کامیابی کا اعلان کر چکے ہیں، ریلی کے اختتام پر عمران اسمٰعیل اور عارف علوی نے اعلان کیا کہ ہم جیت چکے ہیں (یعنی الیکشن کمیشن بلاوجہ زحمت نہ فرمائے) ادھر ایم کیو ایم کے امیدوار نے کہا کہ اگر انتخاب شفاف اور غیرجانبدار ہوئے، یہ رینجرز یا فوج کسی کی بھی نگرانی میں ہوں تو پی ٹی آئی کو دس ہزار سے زائد ووٹ نہیں ملیں گے، ادھر جماعت اسلامی کے امیدوار نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا البتہ یہ کہہ کر صورتحال واضح کر دی کہ ''حلقے کی خاموش اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔''
ان تمام بیانات کی روشنی میں صورتحال یہ ہے کہ این اے 246 وہ خوش نصیب حلقہ ہے جس کو بہت جلد تین خادمین قوم میسر ہونے والے ہیں، جب تینوں ہی کامیاب ہوں گے تو پھر ان کا فرض بنتا ہے کہ اپنے ووٹرز کو مایوس نہ کریں اور ان کی جی جان سے خدمت کریں، اگر ایسا ہوا تو یہ علاقہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ایشیا کا واحد علاقہ ہو گا جس کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے، خوشحالی، فارغ البالی، گھر گھر امن و سکون، ملک بھر کا سب سے پر امن اور ترقی یافتہ علاقہ۔
ابھی تک دوسرے مسئلے یعنی پی ٹی آئی کی ایوان میں واپسی پر بات نہ ہو سکی کیونکہ یہ صورتحال بھی کافی دلچسپ اور اہم ہے۔ چلیے ہم اپنا نقطہ نظر چھوڑتے ہیں، صرف دانشوران قوم کے ارشادات تک بات کو محدود رکھتے ہیں، کسی نے اس صورتحال کو آئینی کسی نے غیر آئینی قرار دیا تو کسی نے جمہوریت کے حق میں نیک فال اور احسن اقدام سے تعبیر کیا، مگر کچھ سرپھروں کا کہنا یہ بھی ہے ملکی حالات کی ابتری کے باوجود طویل دھرنوں سے کیا حاصل کیا؟ جو سرفہرست مطالبہ تھا یعنی وزیراعظم کا استعفیٰ، صرف وہی نہ منوایا گیا۔
ہاں ایک سال دس ماہ کے دوران حکومت پی ٹی آئی، دھرنے، احتجاج جلسے جلوس غرض کسی نہ کسی صورت میڈیا پر اپنی موجودگی ضرور ظاہر کرتی رہی اور میڈیا بڑے خلوص سے ان کو بھرپور کوریج دیتا رہا اس کے علاوہ اور کیا حاصل کیا؟ نہ کوئی حلقہ کھلا، نہ کہیں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوئی، نہ کسی عدالت نے دھاندلی ثابت کی، رہا جوڈیشل کمیشن وہ بن تو گیا مگر وہ بھی متنازعہ ہی ہے۔ ویسے ہو سکتا ہے کچھ نہ کچھ پا لیا ہو ہمیں اندرونی باتوں کی ہوا کب لگتی ہے۔
البتہ یہ ہے کہ سیاسی ماہرین روز اول سے محترم خان صاحب کو پرخلوص مشورے دے رہے ہیں کہ ''اور بھی دکھ ہیں زمانے میں سیاست کے سوا'' تو اگر موصوف کو کچھ دکھ پالنے کا شوق ہے ہی تو کسی دوسرے انداز سے یہ دکھ سہہ لیں، مگر سیاست کو معاف کریں کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ اب تک کی صورتحال یعنی خان صاحب کے تمام فیصلے اس بات کی تصدیق ہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے کئی دانشور خان صاحب کی پیٹھ ٹھونک ٹھونک کر ان کو مزید خوش فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں کہ حضور آپ ہی تو قوم کے اصل نجات دہندہ ہیں، قدم بڑھائیے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
بہرحال جو کچھ بھی صورت پیش آئے حقیقت یہ ہے کہ دنیا اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہے، پاکستان یوم اختتام تک انشا اللہ قائم و دائم رہے گا اور اس کے سیاستدان بھی۔ اس مختصر عرصے میں کیا صورتحال بنتی ہے؟ اور بس (تازہ اطلاعات کے مطابق جماعت امیدوار پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار ہو گئے) یعنی سب مل کر اس بار ایم کیو ایم کو آؤٹ کر دینے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ تو رہنے دیجیے:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا