بے آوازلوگ
تھوڑی دیرکے لیے بھول جائیے،کہ بازارِسیاست میں ایک فریق دوسرے کے ساتھ کیاکررہاہے۔
تھوڑی دیرکے لیے بھول جائیے،کہ بازارِسیاست میں ایک فریق دوسرے کے ساتھ کیاکررہاہے۔ زیادہ متوازن سوال یہ ہے کہ کیوں کررہاہے؟یہ بھی فراموش کردیجیے،کہ ہمارے غریب ملک سے کھربوں روپے باہرکے ممالک میں غیرقانونی طریقے سے منتقل کیے جاچکے ہیں اورآج بھی ہو رہے ہیں۔سڑکوں کے جال،سیمنٹ اورلوہے کے بنے ہوئے شہری جنگلات سے بھی صرفِ نظرکرلیجئے۔تھوڑی دیر کے لیے ملکی نظام عدل کوبھی ذہن نکال دیجیے جو اپنی افادیت کھو چکاہے۔غرض سب کچھ بھول کر اصل نکتہ کی طرف ذہن دوڑائیے۔یعنی ہمارے ملک کاعام آدمی!
حکومتی سطح پرگزشتہ ساٹھ برس سے مثبت تبدیلی دیکھنے کی کوشش کررہاہوں، مگر اب میں کافی حد تک ناکام ہوچکا ہوں۔نعروں اورمسلسل وعدوں کی گھاٹی سے نکلنے کی ناکام کوشش کرتارہتاہوں۔سچ یہ ہے کہ عام آدمی کے ہرمسئلہ کومحض ایک حکومتی بیان یاچندسکوں کے پیمانہ میں تول کربے توقیر کردیا جاتا ہے۔
اگرکوئی دہشت گردی کاشکارہوجائے،توکریانے کی دکان پرلگے ہوئے نرخ نامہ کی مانندچندلاکھ روپے،اگرکوئی ایکسیڈنٹ کاشکارہوکردنیاسے چلاجائے،توپھرنرخ نامہ پر لکھے ہوئے ایک ریٹ کے مطابق چندروپے!
دنیاکاہرملک اپنے ایک اثاثہ کی ہرقیمت پرحفاظت کرتا ہے اوروہ ہے اسکاعام شہری۔یورپ اورامریکا کے لوگوں سے دریافت کیجیے،کہ انکاگورنر،صدریامقامی سینیئرکون ہے؟ساٹھ فیصدغلط جواب دینگے۔امریکا میں تیس فیصدکے لگ بھگ لوگ بارک اوباما کومسلمان سمجھتے ہیں۔لیکن آپ کسی بھی جگہ ان کے ملک کے عام شہری کو ہاتھ نہیں لگاسکتے۔
ان حکومتوں کا سفارت خانہ،ہر اس ملک کی حکومت کوناکوں چنے چبوادیگا جو ان کے شہری کوتنگ کریگا۔ وجہ سادہ سی ہے،وہاں تمام ترسیاسی، سماجی اورمذہبی اختلافات کی موجودگی کے باوجودحکومت عام شہری کواہم سمجھتی ہے۔ہمارے ہاں!عام آدمی کاکیاحال ہے، اسکاجواب کراچی صدر،لاہورمیں بسوں کے اڈے یاپشاور کے کسی چائے خانہ میں جاکرپوچھیں۔آپکودرست جواب مل جائے گا۔ہماراپوراملک اورنظام عام آدمی کی تذلیل پر چلتا ہے۔
دل پرہاتھ رکھ کربتائیے کیاآپ کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس اپنے جائزکام کے لیے بے خوف جاسکتے ہیں؟ یا وہاںرشوت دیے بغیرکام کرواسکتے ہیں؟اوپرسے نیچے تک، تمام ملکی نظام بالکل یکساں ہے۔اگرپٹواری ہزاروں روپیہ وصول کررہا ہے، تووزیرموصوف کڑوڑوں کے ناجائزاثاثے بنانے میں مصروفِ ہے۔ جب نظام ابتلاء کاشکارہوتاہے، توعام لوگ بھی وہی ادنیٰ راستہ اختیارکرلیتے ہیں جس پرحکمران خودچلتے ہیں۔
نتیجہ یہ، کہ عام آدمی بھی ہرمعاملے میں ناجائز طریقے سے پیسہ بنانے میں مشغول ہوچکا ہے۔اندازہ کیجیے،قصائی گوشت میں پانی بھررہاہے،تاکہ اسکاوزن زیادہ ہو۔لوگ کمہاروں کے گدھے چوری کررہے ہیں،تاکہ انکوذبح کرکے لوگوں کی بھوک کم کرسکیں۔نوے فیصد تاجرانتہائی مذہبی نظرآتے ہیں۔حج،عمرہ کی سعادت باربار حاصل کرتے ہیں۔ مگر ملاوٹ،زخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع حاصل کرنے سے بالکل نہیں شرماتے۔ دوائیوں کاجعلی ہونا معمول کی بات ہے۔
آپ جج صاحبان کوچھوڑدیجیے،ان کے ریڈر،بیلف اور اہلکار، جج صاحبان کی ناک کے نیچے سائل سے پیسہ وصول کرنااپناحق سمجھتے ہیں۔پیٹرول،ڈیزل اورتیل میں ملاوٹ بالکل عام ہے۔بھٹہ والے،پورے وزن کی اینٹ بناناگناہ سمجھتے ہیں۔ آپ کسی دن کسی خاتون سے پوچھیے،کہ ان کے ساتھ بسوں اورویگنوں میں مردحضرات کیاسلوک کرتے ہیں! لاہور کاشاہ عالمی بازاردونمبرچیزوں سے لداپڑاہے جوہربڑے اسٹور پرقمموں کی چمک میں اصلی بناکربیچیجاتی ہیں۔
اسطرح کی ہزاروں مثالیں ہیں۔ کینسرکے مریضوں کومیڈیکل اسٹورنے جعلی ٹیکے فروخت کردیے۔ یعنی اب عام آدمی نے وہی طرزعمل اختیارکرلیاہے،جوحکمرانوں نے ان کے ساتھ روارکھا ہے۔ لہذا گلہ اورشکوہ کس بات کا؟اگرآپ چین جاکرملاوٹ کریں تواس کی سزاموت ہے۔ پاکستان میںموت کاکسی کوکوئی غم نہیں۔ لہذا یہاں سب کچھ جائزہے؟
آج میں آپکے سامنے اس طبقے کی آوازاٹھاناچاہتاہوں جسکے ہمارے معاشرہ میں کسی قسم کے کوئی حقوق نہیں۔ان لوگوں کی ہمارے پورے معاشرے میں کوئی پہچان تک نہیں! ان کے وجودتک سے اکثریت انکارکرتی ہے۔یہ سمجھیے کہ"کوئی بھی" ان کے وجودکوتسلیم کرنے کے لیے تیارہی نہیں"۔"کوئی بھی" کی جگہ آپ"اکثریت"کالفظ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔یہ طبقہ ان لوگوں پرمشتمل ہے جومختلف ذہنی بیماریوں کاشکار ہوچکے ہیں۔ایک غیرجانبدارانہ تحقیق کے مطابق،ہمارے ملک کی اکثریت ذہنی بیماریوں کاشکار ہے۔
آپ قدرت کا انصاف دیکھیے،کہ اس میں امیراورغریب لوگوں کی طبقاتی تفریق موجود نہیں۔ ارد گرد نظر دوڑائیے، کثیر تعدادمیں لوگوں کی ذہنی سطح پر شک ہونے لگے گا۔ڈاکٹرکی حیثیت سے اگر جائزہ لیںتوشک یقین میں بدل جائے گا۔ دعوے سے عرض کرونگاکہ اگرآپ اہلیت رکھنے والے دماغی امراض کے ماہرین سے حقیقی سروے کروائیے،توان کی رپورٹ سے اس ملک کے تمام نظام کی چولیں ہل جائینگی۔ پہلی بارپتہ چلے گاکہ مقتدرطبقے کے بہت سے افراد،اپنی ذہنی بیماریوں کولفظوں کی ڈھال کے پیچھے چھپاکررکھے ہوئے ہیں۔اعلیٰ سرکاری افسروں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جو سیاسی قیادت کی میٹنگ میں باقاعدہ کانپنا شروع کردیتی ہے۔
بدن کی غیرارادی حرکات پرانکاکوئی کنٹرول نہیں۔اپنے دفتر میں چائے کاکپ اٹھاتے ہوئے ان کی انگلیاں لرزتیں ہیں، یعنی وہ کپ تک نہیں اٹھاسکتے۔آپ ان کی ذہنی حالت کا کیا اندازہ لگائینگے!ان سے مضبوط اوردرست فیصلے کیسے ممکن ہونگے!تکلیف دہ اَمریہ بھی ہے کہ وہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ وہ دماغی طورپرمفلوج ہوچکے ہیں۔علاج تو خیر کیا کروانا۔ پاکستان کی آبادی کتنی ہے،کسی کوکچھ پتہ نہیں۔
اگرہم اپنی آبادی کواٹھارہ کڑوڑبھی تسلیم کرلیں،توذہنی امراض میں مبتلا انسانوں کی تعداد 10-16 فیصدتک ہے۔یہ اعدادوشمار، مستند ترین بین الاقوامی اورقومی اداروں کی طرف سے شایع کیے گئے ہیں۔مطلب یہ کہ دوسے چارکڑوڑانسان مختلف درجہ کے دماغی امراض میں مبتلا ہیں۔یہ تعدادانتہائی تشویشناک ہے۔ہماری یہ آبادی، حقیقت میں انسانی سطح سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ شائد کئی حالات میں جانورسے بھی بدتر۔
W.H.Oکی رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں اس شعبہ کے صرف چارسو (Psychiatrists) ڈاکٹر موجود ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ پانچ لاکھ سے لے کردس لاکھ تک کی آبادی کے لیے صرف اورصرف ایک ماہرموجودہے۔پاکستان میں صرف پانچ اسپتال موجودہیں جوان امراض کاعلاج کرسکتے ہیں۔صرف پانچ۔آپ کسی مزارپرچلے جائیے۔ جیسے لاہور میں داتادر باریابی بی پاکدامن،کراچی میں عبداللہ غازی، آپکو ہرطرف عجیب وغریب ملنگ اوردرویش نظر آئینگے۔
ان میں مرداور عورتیں دونوں شامل ہیں۔یہ آپکو عجیب وغریب حرکتیں کرتے نظرآئینگے۔کوئی ہروقت ناچ رہا ہوگا۔کسی نے منوں کے حساب سے زنجیریں اورلوہا پہنا ہوگا۔ کبھی کوئی ایسا بھی مل جائے گا جو کپڑوں سے آزاد ہوگا۔ اکثر، طویل عرصے سے درباروں پرزندگی گزاررہے ہیں۔ ان کو اپنے والدین،اہل خانہ یا عزیز اقارب کاکوئی شعورنہیں۔مگریہ تو معدودے چندہزار انسان ہیں جوآپکونظرآجاتے ہیں۔ کڑوڑوں لوگ گلیوں، محلوں اور گھروں میں انتہائی مجبوری اور تکلیف دہ زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔وہ محض سانس لے رہے ہیں۔ ذہنی امراض میں ڈیپریشن، Schizophernia اور مرگی سرِفہرست ہیں۔
یہ تمام امراض سوفیصدقابل علاج ہیں۔ دوائیاں بھی موجودہیں۔مگراکثرمریض بغیرعلاج کے کسمپرسی کے حالات میں رہ کرجہان فانی سے کُوچ کرجاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سماجی نظام اتنامنافقانہ ہے کہ اگرگھرمیں کسی فردکوکسی قسم کی ذہنی بیماری ہوجائے،توسب سے پہلاردِعمل یہ ہوتاہے کہ اس مرض کوچھپایاجائے۔اسکوتسلیم کرنا"باعثِ شرم" سمجھاجاتاہے۔اسکاذکرتک نہیں کیا جاتا۔ یہاں سے طبی پیچیدگیوں کاآغازہوتاہے۔مرض کے شروع میں اگر آپکو صحیح ڈاکٹرمل جائے تومریض ٹھیک ہوسکتا ہے۔
مگر چھپانے سے مرض بڑھتا چلاجاتاہے۔ اکثراوقات اسکواسکے حال پر چھوڑدیاجاتاہے۔اسکوگھرسے باہرنہیںنکلنے دیاجاتا۔ اسی فیصد(80%)مریضوں کو پیروں،فقیروں،جادوگروں اور تعویز کرنے والے عاملوں کے پاس لیجایاجاتاہے۔مریض پر ایسے ایسے تجربہ کیے جاتے ہیں کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔ گرم لوہے کی سلاخوں سے داغا جاتاہے،ڈنڈوں سے پیٹا جاتا ہے،دھونی دیکران کے بدن اورسرپرجوتے مارے جاتے ہیں،کہیں جنات کاذکرکرکے جسم کے حصوں کوجلادیا جاتا ہے۔
ایسی داستانیں ہرقصبہ اورشہرمیں موجودہیں۔قصہ کوتاہ، یہ کہ مریض کوایسے عذاب میں مبتلاکردیاجاتاہے،جس سے اسکانکلناتقریباًناممکن ہوتا ہے۔پیروں،فقیروں اور جادوگروں کایہ بھیانک کھیل بغیرکسی رکاوٹ کے ہرجگہ جاری ہے۔ اور تو اور،آپ ٹی وی کوملاحظہ کیجیے۔درجنوں اشتہارات دیکھنے کو ملیں گے جس میں بابوں، عاملوں اورکالاعلم کرنے والوں کے ایڈریس اورفون نمبر موجود ہونگے۔
ہمارے ملک میں کیونکہ غیرسائنسی رویے عروج پرہیں،لہذااس جہالت کی بدولت ذہنی مریض عاملوں کالقمہ تربن جاتے ہیں۔ چند سالوں میں بیماری مزیدبگڑجاتی ہے۔ اکثرواقعات میں یہ لاعلاج ہوجاتی ہے۔مگران مسکین مریضوں کوڈاکٹرکے پاس پھربھی نہیں لیجایاجاتا۔اس معاملہ میں سب سے مظلوم طبقہ خواتین کاہے۔ اگر کوئی عورت بدقسمتی سے ذہنی مرض کاشکارہوجاتی ہے تواس پر قیامت گزرجاتی ہے۔ اسکو گھر یلوتشدداورسسرال کی جانب سے غیرمنصفانہ رویہ کانشانہ بنایا جاتاہے۔ہروقت،طعنے اور طنز اسکامقدربن جاتے ہیں۔ علاج توبڑی دورکی بات،اس کی زندگی بربادکردیجاتی ہے۔
شوہر،اپنی بیوی کاساتھ دینے کے بجائے اس کی ذہنی تکلیف کومزیدبڑھادیتاہے۔ان سے بدترین انسانی سلوک روا رکھاجاتاہے۔ڈاکٹرکے طورپرمیں ایسے درجنوں کیسز جانتا ہوں،جس میں ان لوگوں کو قصداً مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔بدقسمتی کے مارے یہ لوگ، اکثر حالات میں بیماری سے نہیں بلکہ اپنوں کی بے حسی کی بدولت مرجاتے ہیں۔ان کڑوڑوں لوگوں کی کوئی آوازنہیں!یہ اگر بولیں بھی،توان کی بات سننے والادوردودرتک کوئی نہیں۔ اکثریت علاج کے بغیربے موت ماری جاتی ہے!یہ تمام خاموشی سے خوفزدہ ہوکرہم لوگوں کی طرف مناسب علاج کے لیے دیکھ رہے ہیں!مگران کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا!یہ لاچاراورمکمل بے آوازلوگ ہیں!