کراچی آپریشن
پی پی پی اس ذوالفقارعلی بھٹوکی پارٹی ہے جس کی پہچان غریب عوام کو سہولتیں دینا ہے۔
22 ویں ترمیم کے تحت ملنے والے اختیارات اس لیے دیے گئے کہ پورے پاکستان میں بالعموم شہرکراچی میں ان دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے ہر وہ اقدام اٹھایا جائے جس میں دہشت گرد ،خودکش حملہ کرنے والے اورکروانے والے، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنک، فرقہ وارنہ فساد برپا کرنے والے اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث وہ افراد جو بظاہر بڑے اہم سماجی وفلاحی اداروں سے وابستہ ہیں، جن کے وسیلے سے اغواکار تاوان کی رقم لے کر رہا ہوتے رہے۔
حتیٰ کہ یہ معاملہ بیرون ملک تک جا پہنچا جب صومالیہ کے جہازوں پر اغواء ہونے والوں کی رہائی کے لیے معاملات میں مسائل پیدا ہوئے۔ شہرکراچی پر سب سے زیادہ ظلم یہ ہوا کہ یہاں مذہبی اور سیاسی انتہاء پسندوں نے مافیاز قائم کرلیں، جس میں LANDGRABIGN بہت اہم معاملہ ہے۔ اہل کراچی کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ جب 22 ترمیم کے اختیارات کے تحت کر اچی میں آپریشن کا آغاز ہوا ہے مسلسل مجرم گرفت میں آرہے ہیں۔ اور INTELLIGENCE بنیاد ہر ان کی گرفتاریاں بڑی کامیابی سے جاری ہیں۔
ہمارا یہ پورا شہر یہاں کے ہرگلی اورکوچہ کے مکین ہر بازار کے دکاندار ہر ہول سیل مارکیٹ تا جر سب ہی بھتہ خور، اغواء کار اور ٹارگٹ کلنگ کے خوف سے دوچار تھے ۔ ان کے خوف کا یہ حال تھا جیسے ہی کچھ سیاسی حالات مخدوش ہوتے وہ رضا کارانہ طورپر اپنے کاروبارکو بند کرنے کا پہلے ہی اعلان کردیتے تھے یہی حال ہمارے ٹرانسپورٹر حضرات کا تھا۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے اس شہر میں دہشت گردی،اغواء ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے، پورے شہر میں سیکیورٹی کے نام پر جو ہرگلی ،کوچہ و بازار میں برئیرز لگائے گئے تھے ان کو ہٹوا کر اہل شہر کو ایک آزاد فضاء فراہم کی گئی ہے اس کے نفسیاتی اثرات تمام لوگوں پر بہت مثبت مرتب ہوئے۔ لیکن ابھی بھی یہ شہر محفوظ نہیں ہے۔ کیونکہ تمام دہشت گرد جنہوں نے خود کش حملوں کا بازارگرم رکھا تھا ان کی محفوظ پناہ گاہیں شہر میں موجود ہیں۔
کراچی سینٹرل کے چاروں سمت میں انھوں نے رہائش اختیارکی جس میں سہراب گوٹھ ہو یا لانڈھی کا علاقہ نیشنل ہائی وے اورنگی ٹاؤن کا اطراف ہو یا کیماڑی سے گلبائی کا علاقہ اور سب سے بڑا گڑھ لیاری کو بنایا یہاں ان کی تلاش کا کام آسان نہیں ہے نہ ہی یہ کام 2سال کی مدت میں پورا ہو سکتا ہے۔ ہماری وزارت داخلہ سندھ ابھی تک سوئی ہوئی ہے ان پر بہت بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ خاص طور پر سپریم کورٹ کے وہ احکامات جو پہلے جاری ہو چکے ہیں اس میں فٹ پاتھوں پرناجائز تجاوزات کا خاتمہ بھی ضروری ہے، برسوں سے بنی ہوئی رکاوٹیں دورہوسکتی ہیں تو اسی طرح پورے شہرکے فٹ پاتھ کو تجاوزات سے دور بھی ہونی چاہییں۔ خاص طور پرکمرشل ایریا میں طارق روڈ ہو یا حیدری ، شاپنگ مال ہو ہرجگہ ہر ایک دکاندار نے فٹ پاتھ کے 70سے 80فیصد حصہ اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے ۔ جہاں سے پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ پر چلنا بہت مشکل ہوگیا۔
اس شہر کو صرف مجرموں سے ہی پاک نہیں کرنا ہے بلکہ اس شہر کے INFRA STRUCTUREکو REPAIRکرنا ہے۔ تمام کھیل کے میدانوں اور پبلک پارکس کو ان کی تمام خوبیوں کے سا تھ بحال کیا جائے جہاں کبھی سبزہ ہوتا تھا وہاں کھنڈرات بن چکے ہیں ناجائز تجاوزات ہیں یہ سب کراچی میں موجود مافیاز نے کیا ہے۔اگر حکومت کے پا س اتنے وسا ئل نہیں کہ ان کا انتظام کرسکے تو ان تمام کھیل کے میدانوں اور پارکوں میں تین اطراف میں وہاں کی مناسبت سے دکانیں تعمیرکر کے ان کے کرائے سے ہونے والی آمدنی سے اس پارک اور کھیل کے میدانو ں کی دیکھ بھال کے لیے آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے اس کے علاوہ تمام پارکوں کو پاکستان کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو LEASEپر دیا جاسکتا ہے ان پارکوں اور میدانو ں میں معمولی نوعیت کے ٹکٹ لگائیں جا سکتے ہیں۔ جیسا ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ایک بڑا حوصلہ افزاپیغام دیا ہے کہ وہ پورے ملک سے جرائم کا خاتمہ کرکے آنے والی نسلوں کو بہترین فضاء فراہم کریں گے۔
خدا کرے وہ اپنے ان ارادوں میں کامیاب اورکامران ہوں ۔ ہم پھر اس کالم میں حکومت پاکستان کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جناب وزیراعظم نواز شریف جو اس وقت حقیقتاً بڑی دل سوزی اور توجہ کے سا تھ پاکستان کے معاملا ت کی اصلاح پرکام کررہے ہیں ان میں یہ قائدانہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ اس پاکستان کو سیاسی،سماجی،اخلاقی طورپر مخدوش ہوچکا ہے، دوبارہ ایسا ایک نیا پاکستان بنا دیں گے۔ ENERGY POWERکی کمی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ گیس، بجلی اور پانی ان پر بھرپور پرعزم LONG TERMپلا ننگ کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے جس طرح سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی بردباری کا مظاہرہ کیا اور جس طرح یمن میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن لانے پر قدم اٹھایا ہے وہ داد کے مستحق ہیں۔
ہمیں وزیراعظم سے ایک اہم درخواست کرنی ہے کہ وہ شہرکراچی کی بندرگاہ کو مزید فعال بنائیں اور یہاں کی بندرگاہ پرآنے والی برآمدات پر محصو ل کوکراچی کی ترقی کے لیے خرچ کرنے کا حکم دیں۔ کیونکہ اس شہرکراچی میں ہر صوبے کے لوگ آباد ہیں وہ مزدوری بھی کرتے ہیں کاروبار بھی مستقل رہائش بھی ان کی وجہ سے شہرکراچی میں 3فیصد سالانہ آبادی کا اضافہ بھی ہورہا ہے جب کہ پیدائشی اضافہ اس سے کہیں زیادہ اور اس شہر پر آبادی کی منتقلی کی وجہ سے بجلی، پانی، گیس انفرا اسٹرکچر کو MAINTAIN رکھنا محال ہو رہا ہے اس لیے یہ آمدنی کراچی پورٹ سے درآمد ات اوربرآمد ات کے حصول میں ملنے والی معمولی سی رقم سے یہ شہرحقیقتاً شہرقائد کہلا ئے گا روشنیوں کا جگمگاتا شہر اپنے ساحل کی خوبصورتی اور سبزدار پارکوں سے مزین نظر آئے گا۔
یہاں ٹرانسپورٹ بڑا مسئلہ ہے جس کی ذمے داری تو اصولی طور پر پی پی پی کی سندھ حکو مت کی تھی لیکن نہ جانے کیوں انھوں اس کراچی کو OWNنہیں کیا کوئی اہم کام اس کراچی میں انھوں نے نہیں کیا آج بھی اس شہر کراچی میں وہ کام جو ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر نے کیے اس جیسے ایک بھی پروجیکٹ موجودہ حکومت میںنہیں یہی وجہ ہے پی، پی، پی سیاسی طورپرکمزور ہورہی ہے۔پی پی پی کو ہرحال میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ کراچی اور سندھ میں عوامی مفاد کے فیصلے کرنے ہوں گے جس میں سب سے پہلے کم سے کم 5000 بسیں چلائی جائیں، چاہیں تو غیرممالک سے لیز پر حاصل کی جائیں اورکسی بھی پرائیوٹ کمپنی کے ذریعے ان کو چلوایا جائے۔
آصف زرداری ایک اچھے سیاستدان ضرور ہیں مگر نہ جانے وہ کون سی مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ کراچی کے ترقیاتی معاملات پر بالکل توجہ نہیں دے پاتے ۔ پی پی پی اس ذوالفقارعلی بھٹوکی پارٹی ہے جس کی پہچان غریب عوام کو سہولتیں دینا ہے۔ انھوں نے اسی شہر میں راشننگ ختم کی۔ انھوں نے اسٹیل ملز لگائی پورے شہر میں سڑکوں کا جال بچایا گھرگھر پانی فراہم کیا۔ ہرجگہ گیس پہنچائی ان کے دور میں امن وامان کی صورتحال بہت اچھی تھی۔ نہ بجلی، گیس نہ پانی کی قلت تھی انھوں نے اسکول NATIONALIZE کر کے غریب کو مفت پڑھائی کا موقع دیا، انھوں نے شناختی کارڈ کا اجراء کیا۔
بیرون ملک ملازمت کے مواقعے پیدا کیے اور پاسپورٹ کے حصول کو آسان بنادیا۔ اربن ٹرانسپورٹ بنائی 90ہزار قیدی ہندوستان سے رہا کر ائے۔ مقبوضہ علا قے خالی کرائے شملہ معاہدہ کیا اور سب سے عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اسلامی ممالک میں پاکستان کو پہلی مسلم جوہری قوت والا ملک بنوایا ۔ہمیں ایک ایسی فعال قیادت کی ضرورت ہے جو کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا سکے۔
حتیٰ کہ یہ معاملہ بیرون ملک تک جا پہنچا جب صومالیہ کے جہازوں پر اغواء ہونے والوں کی رہائی کے لیے معاملات میں مسائل پیدا ہوئے۔ شہرکراچی پر سب سے زیادہ ظلم یہ ہوا کہ یہاں مذہبی اور سیاسی انتہاء پسندوں نے مافیاز قائم کرلیں، جس میں LANDGRABIGN بہت اہم معاملہ ہے۔ اہل کراچی کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ جب 22 ترمیم کے اختیارات کے تحت کر اچی میں آپریشن کا آغاز ہوا ہے مسلسل مجرم گرفت میں آرہے ہیں۔ اور INTELLIGENCE بنیاد ہر ان کی گرفتاریاں بڑی کامیابی سے جاری ہیں۔
ہمارا یہ پورا شہر یہاں کے ہرگلی اورکوچہ کے مکین ہر بازار کے دکاندار ہر ہول سیل مارکیٹ تا جر سب ہی بھتہ خور، اغواء کار اور ٹارگٹ کلنگ کے خوف سے دوچار تھے ۔ ان کے خوف کا یہ حال تھا جیسے ہی کچھ سیاسی حالات مخدوش ہوتے وہ رضا کارانہ طورپر اپنے کاروبارکو بند کرنے کا پہلے ہی اعلان کردیتے تھے یہی حال ہمارے ٹرانسپورٹر حضرات کا تھا۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے اس شہر میں دہشت گردی،اغواء ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے، پورے شہر میں سیکیورٹی کے نام پر جو ہرگلی ،کوچہ و بازار میں برئیرز لگائے گئے تھے ان کو ہٹوا کر اہل شہر کو ایک آزاد فضاء فراہم کی گئی ہے اس کے نفسیاتی اثرات تمام لوگوں پر بہت مثبت مرتب ہوئے۔ لیکن ابھی بھی یہ شہر محفوظ نہیں ہے۔ کیونکہ تمام دہشت گرد جنہوں نے خود کش حملوں کا بازارگرم رکھا تھا ان کی محفوظ پناہ گاہیں شہر میں موجود ہیں۔
کراچی سینٹرل کے چاروں سمت میں انھوں نے رہائش اختیارکی جس میں سہراب گوٹھ ہو یا لانڈھی کا علاقہ نیشنل ہائی وے اورنگی ٹاؤن کا اطراف ہو یا کیماڑی سے گلبائی کا علاقہ اور سب سے بڑا گڑھ لیاری کو بنایا یہاں ان کی تلاش کا کام آسان نہیں ہے نہ ہی یہ کام 2سال کی مدت میں پورا ہو سکتا ہے۔ ہماری وزارت داخلہ سندھ ابھی تک سوئی ہوئی ہے ان پر بہت بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ خاص طور پر سپریم کورٹ کے وہ احکامات جو پہلے جاری ہو چکے ہیں اس میں فٹ پاتھوں پرناجائز تجاوزات کا خاتمہ بھی ضروری ہے، برسوں سے بنی ہوئی رکاوٹیں دورہوسکتی ہیں تو اسی طرح پورے شہرکے فٹ پاتھ کو تجاوزات سے دور بھی ہونی چاہییں۔ خاص طور پرکمرشل ایریا میں طارق روڈ ہو یا حیدری ، شاپنگ مال ہو ہرجگہ ہر ایک دکاندار نے فٹ پاتھ کے 70سے 80فیصد حصہ اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے ۔ جہاں سے پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ پر چلنا بہت مشکل ہوگیا۔
اس شہر کو صرف مجرموں سے ہی پاک نہیں کرنا ہے بلکہ اس شہر کے INFRA STRUCTUREکو REPAIRکرنا ہے۔ تمام کھیل کے میدانوں اور پبلک پارکس کو ان کی تمام خوبیوں کے سا تھ بحال کیا جائے جہاں کبھی سبزہ ہوتا تھا وہاں کھنڈرات بن چکے ہیں ناجائز تجاوزات ہیں یہ سب کراچی میں موجود مافیاز نے کیا ہے۔اگر حکومت کے پا س اتنے وسا ئل نہیں کہ ان کا انتظام کرسکے تو ان تمام کھیل کے میدانوں اور پارکوں میں تین اطراف میں وہاں کی مناسبت سے دکانیں تعمیرکر کے ان کے کرائے سے ہونے والی آمدنی سے اس پارک اور کھیل کے میدانو ں کی دیکھ بھال کے لیے آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے اس کے علاوہ تمام پارکوں کو پاکستان کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو LEASEپر دیا جاسکتا ہے ان پارکوں اور میدانو ں میں معمولی نوعیت کے ٹکٹ لگائیں جا سکتے ہیں۔ جیسا ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ایک بڑا حوصلہ افزاپیغام دیا ہے کہ وہ پورے ملک سے جرائم کا خاتمہ کرکے آنے والی نسلوں کو بہترین فضاء فراہم کریں گے۔
خدا کرے وہ اپنے ان ارادوں میں کامیاب اورکامران ہوں ۔ ہم پھر اس کالم میں حکومت پاکستان کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جناب وزیراعظم نواز شریف جو اس وقت حقیقتاً بڑی دل سوزی اور توجہ کے سا تھ پاکستان کے معاملا ت کی اصلاح پرکام کررہے ہیں ان میں یہ قائدانہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ اس پاکستان کو سیاسی،سماجی،اخلاقی طورپر مخدوش ہوچکا ہے، دوبارہ ایسا ایک نیا پاکستان بنا دیں گے۔ ENERGY POWERکی کمی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ گیس، بجلی اور پانی ان پر بھرپور پرعزم LONG TERMپلا ننگ کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے جس طرح سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی بردباری کا مظاہرہ کیا اور جس طرح یمن میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن لانے پر قدم اٹھایا ہے وہ داد کے مستحق ہیں۔
ہمیں وزیراعظم سے ایک اہم درخواست کرنی ہے کہ وہ شہرکراچی کی بندرگاہ کو مزید فعال بنائیں اور یہاں کی بندرگاہ پرآنے والی برآمدات پر محصو ل کوکراچی کی ترقی کے لیے خرچ کرنے کا حکم دیں۔ کیونکہ اس شہرکراچی میں ہر صوبے کے لوگ آباد ہیں وہ مزدوری بھی کرتے ہیں کاروبار بھی مستقل رہائش بھی ان کی وجہ سے شہرکراچی میں 3فیصد سالانہ آبادی کا اضافہ بھی ہورہا ہے جب کہ پیدائشی اضافہ اس سے کہیں زیادہ اور اس شہر پر آبادی کی منتقلی کی وجہ سے بجلی، پانی، گیس انفرا اسٹرکچر کو MAINTAIN رکھنا محال ہو رہا ہے اس لیے یہ آمدنی کراچی پورٹ سے درآمد ات اوربرآمد ات کے حصول میں ملنے والی معمولی سی رقم سے یہ شہرحقیقتاً شہرقائد کہلا ئے گا روشنیوں کا جگمگاتا شہر اپنے ساحل کی خوبصورتی اور سبزدار پارکوں سے مزین نظر آئے گا۔
یہاں ٹرانسپورٹ بڑا مسئلہ ہے جس کی ذمے داری تو اصولی طور پر پی پی پی کی سندھ حکو مت کی تھی لیکن نہ جانے کیوں انھوں اس کراچی کو OWNنہیں کیا کوئی اہم کام اس کراچی میں انھوں نے نہیں کیا آج بھی اس شہر کراچی میں وہ کام جو ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر نے کیے اس جیسے ایک بھی پروجیکٹ موجودہ حکومت میںنہیں یہی وجہ ہے پی، پی، پی سیاسی طورپرکمزور ہورہی ہے۔پی پی پی کو ہرحال میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ کراچی اور سندھ میں عوامی مفاد کے فیصلے کرنے ہوں گے جس میں سب سے پہلے کم سے کم 5000 بسیں چلائی جائیں، چاہیں تو غیرممالک سے لیز پر حاصل کی جائیں اورکسی بھی پرائیوٹ کمپنی کے ذریعے ان کو چلوایا جائے۔
آصف زرداری ایک اچھے سیاستدان ضرور ہیں مگر نہ جانے وہ کون سی مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ کراچی کے ترقیاتی معاملات پر بالکل توجہ نہیں دے پاتے ۔ پی پی پی اس ذوالفقارعلی بھٹوکی پارٹی ہے جس کی پہچان غریب عوام کو سہولتیں دینا ہے۔ انھوں نے اسی شہر میں راشننگ ختم کی۔ انھوں نے اسٹیل ملز لگائی پورے شہر میں سڑکوں کا جال بچایا گھرگھر پانی فراہم کیا۔ ہرجگہ گیس پہنچائی ان کے دور میں امن وامان کی صورتحال بہت اچھی تھی۔ نہ بجلی، گیس نہ پانی کی قلت تھی انھوں نے اسکول NATIONALIZE کر کے غریب کو مفت پڑھائی کا موقع دیا، انھوں نے شناختی کارڈ کا اجراء کیا۔
بیرون ملک ملازمت کے مواقعے پیدا کیے اور پاسپورٹ کے حصول کو آسان بنادیا۔ اربن ٹرانسپورٹ بنائی 90ہزار قیدی ہندوستان سے رہا کر ائے۔ مقبوضہ علا قے خالی کرائے شملہ معاہدہ کیا اور سب سے عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اسلامی ممالک میں پاکستان کو پہلی مسلم جوہری قوت والا ملک بنوایا ۔ہمیں ایک ایسی فعال قیادت کی ضرورت ہے جو کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا سکے۔