جمہوریہ یمن اور ہمارا موقف
آج کل یمن کا چرچا زبان زد عام ہے، یمن تاریخی اعتبار سے پاکستانیوں کے لیے نیا نہیں، یہ بھی ایک مسلم آبادی والا ملک ہے
آج کل یمن کا چرچا زبان زد عام ہے، یمن تاریخی اعتبار سے پاکستانیوں کے لیے نیا نہیں، یہ بھی ایک مسلم آبادی والا ملک ہے، مگر یہ ایک سیکولر جمہوری ملک تقریباً اس میں چھوٹے بڑے 200 جزائر ہیں۔ اس کی طویل تر ساحلی پٹی ہزاروں میل لمبی ہے۔
ہزاروں برس سے یمن ایک تجارتی ملک رہا۔ 1990 میں صدر عبداﷲ صالح کی قیادت میں یہ ایک جمہوری ملک بن گیا، اس ملک کی خصوصیت یہ ہے کہ ملک جمہوری ہونے کے ساتھ یہ امریکی اور سعودی عرب کے سیاسی اثرات کے زیر نگیں رہا ہے۔گزشتہ دس بارہ برسوں سے القاعدہ کے حملوں کے زیر اثر رہا۔
اس لیے یہاں کی حکومت کو بچانے کے لیے اکثر ڈرون حملے ہوتے رہے اور امریکا یمنی حکومت کو مستحکم کرتا رہا، اس ملک میں گزشتہ برس ہا برس سے مختلف تحریکیں چلتی رہیں، یمن تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرا ہے، تجارتی قافلوں اور بحری قافلوں کی گزرگاہ ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ یمن میں دستکاری اور ہینڈ لومز (Hand Looms) کپڑا بننے کا قدیم طریقہ موجود تھا۔
یمن میں مختلف قبائل اور عقائد کے لوگ ہیں، اکثریت مسلمانوں کی ہے، مگر اکثریت زیدیہ فرقے کی ہے جو امان زین العابدینؓ کے صاحبزادے حضرت زید شہید کے نظریات کے پیروکار ہیں۔ یمن میں کبھی بھی مذہبی حکومت قائم نہیں رہی، کثیر العقائد ملک ہے۔ 70 کی دہائی میں یہ ملک تقسیم تھا شمالی اور جنوبی یمن ایک حصہ سعودی اثر کے حکمرانوں اور امریکی اثرات جب کہ دوسرا سوویت یونین کا ہمنوا تھا۔ گزشتہ دس گیارہ برسوں سے القاعدہ اور زیدیہ اس ملک پر قبضے میں مصروف ہیں۔
صدر ہادی کئی مرتبہ ملک چھوڑ چکے ہیں اور بغاوت کی شدت میں کمی کے بعد ملک میں واپس آگئے۔ یہ ملک درحقیقت سعودی عربکا بفرزون ہے اور امریکی حکومت کی ایک قسم کی نو آبادی ہے۔ عرب ممالک میں جب سے فکری اور نظری تصادم شروع ہوا، یمن بھی اسی کا حصہ بن گیا، بعد ازاں وہ جنگ کی شکل اور اقتدار پر قبضے کی شکل اختیار کر گیا۔
اس ملک میں جب خانہ جنگی کی شکل پیدا ہوئی تو امریکی بڑی تعداد میں اسلحہ چھوڑ کر چلے گئے۔ جس پر حوثی قبائل نے قبضہ کرلیا اور القاعدہ کو بھی پیچھے دھکیل دیا، اب اس کشمکش میں کون آتا ہے اور کون جاتا ہے، اس کا علم نہیں مگر حوثی قبائلی کے ایک نمایندہ نے فوکس ٹی وی پر تقریر کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے، بقول اس نمایندے کے لوگ اس کو فرقہ وارانہ جنگ کہہ رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
فلسطینی سنی عقائد کے مالک ہیں۔ مگر اس کولیشن نے کبھی بھی ایک گولی اسرائیلی سرزمین پر نہیں چلائی اور خود اپنے ملک میں بادشاہت قائم کرنے والے کیونکر یمن میں جمہوریت بحال کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے اس جنگ کے رخ کا تعین کیا جاسکتا ہے اور ہماری اسمبلی میں جو آل پارٹیز مباحثہ ہورہاہے اس کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ تقریباً 20 کروڑ والے اس جمہوری ملک میں پاکستان وزارت خارجہ کا قلمدان ناپید ہے، اگر کوئی قلم دان ہے تو اس میں 2 عدد قلمدان ہیں ایک سرتاج عزیز صاحب اور دوسرے طارق فاطمی صاحب، چونکہ یہ خود وزیراعظم کے معاونین ہیں اس لیے یہ انھی کی مرضی اور مزاج کے مطابق ہی فیصلہ دیں گے، بہرصورت وزیراعظم نے اپنی مرضی اور جذبات کے اظہار کے باوجود جذباتی فیصلہ نہ کیا، اس میں مختلف رہنماؤں کے اظہار خیال کا بڑا دخل ہے، خصوصاً اے این پی، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کا واشگاف انکار کہ امریکی جنگ تو ختم ہوئی نہیں کہ دوسری جنگ کا آغاز ہوگیا اور ہم اس میں بھی کودنے جارہے ہیں۔
اب جب کہ سعودی عرب نے بحری اور فضائی مدد مانگی ہے سعودی عرب پر کوئی حملہ تو ہوا نہیں البتہ یمن میں حکومت کی تبدیلی اگر عوام چاہتے ہیں تو ہم کیا اور کب تک مدد کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب نے وقت بے وقت پاکستان کی معاشی مدد ضرور کی ہے، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستان خود ایک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے جو امریکی مفادات کی پاسداری کا ثمر ہے۔ نواز شریف نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ واشگاف الفاظ میں یہ کہاکہ ایران کو اپنی خارجہ حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اگر سعودی عرب ہمارا دوست ملک ہے تو ایران ہمارا سرحدی اور ہمسایہ ملک ہے، وہ افغان جنگ سے دور رہا۔ امریکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر منزل کی جانب بڑھتا رہا، خواہ غلط ہو یا درست مگر ملک محفوظ رہا۔
لیکن پاکستان ایسا نہیں کرسکا۔ ملک کی جمہوری حکومت کو یہ اختیار تو ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی وضع کرے مگر جس نے پاکستان کی داخلہ پالیسی کو وضع کرنے میں اتنی تاخیر کی کہ فوج کو ملک بچانے کے لیے نام نہاد لیڈروں کو بلا کر اصلاح کرنی پڑی، تو ان کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے۔ خارجہ پالیسی کے معاملات اور معاہدات کوئی انڈسٹریل ڈیل نہیں ہوتی کہ کاغذ سائن ہوئے رقم ملی یا فائدہ ہوا یا معاہدہ ہوا، سیاسی اور خارجہ تعلقات کے اثرات نو نسل در نسل ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایران کو ترغیب دینے سے بہتر ہے کہ پاکستان ثالثی کا کردار ادا کرے، مگر پاکستان ایک ایسی جمہوریت کا نمایندہ ہے جہاں شہنشاہیت کی پرورش ہوتی ہے اور اس کے دفاع کی ذمے داری بھی ہمارے ملک پر ہے، خصوصاً ایسے حالات میں جب کہ مسلم دنیا دست و گریباں میں پھنسی ہوئی ہے۔
پاک ایران بارڈر، پاک افغان بارڈر، پاک بھارت بارڈر پرسکون نہیں پھر بھی سفارتکاری کی زبان میں نرمی نہیں۔ یہ تو کہیے اگر فوج نے داخلی معاملات پر نظر نہ رکھی ہوتی تو ملک لخت لخت ہونے کے خطرات موجود تھے۔ میڈیا پر اینکر پرسن بے پر کی گفتگو میں مصروف رہتے ہیں، وہ اپنی خواہشات کو تجزیہ کاری کا نام دیتے ہیں۔ مغربی ممالک یمن کے حالات کو سنی شیعہ اختلافات کا رنگ دے رہے ہیں، اس کے یہ مفاد میں جاتا ہے، غیر مسلم دنیا میں سیاسی اختلافات اور شدت پسندی کی آگ لگائی جارہی ہے تاکہ مسلم افکار کا شیرازہ مزید بکھر جائے اور مسلم دنیا خصوصاً پاکستان میں دانشوروں کا اثر و رسوخ بڑھنے نہ دیاجائے۔
کیوں کہ اگر مسلم دنیا میں امن ہوگا تو پھر اسلحہ کی انڈسٹری کا کیا ہوگا، کون چلائے گا؟ لہٰذا عوام کی غیر پسندیدہ حکومت قائم کی جائے تاکہ بے چینی برقرار رہے اور اسی فلسفہ پر اکثر مسلم ممالک پر نیٹو کی گرفت ہے اور انھی کی مرضی سے حکومتی نتائج کی تشکیل ہوتی ہے۔
مسلم ممالک میں عدم برداشت کی سیاست کو فروغ دیا جاتا ہے، اس کی واضح مثال پاکستان میں پارلیمنٹکے اجلاس میں عمران خان کا جس طریقے سے استقبال کیا گیا، خصوصاً ن لیگ کے رہنماؤں کا انداز بیان ایسا غیر جمہوری تھا کہ گویا وہ دستور ساز اسمبلی نہیں دستور پھاڑ ادارہ ہے۔ ظاہر ہے اسمبلی چھوڑ کر انھوں نے حکومت بدلنے کی کوشش کی جو پوری نہ ہوئی، محض اس لیے کہ انھوں نے پرتشدد راستہ اختیار نہ کیا اور انقلاب پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا سفر ہے، جس میں ہر چیز منقلب ہوجاتی ہے، وہ موجودہ اسمبلی کے ممبران کے بس کی بات نہیں، کیوں کہ نہ انھیں اپنے ملک کا کوئی ادراک ہے تو پھر یمن کا کیوں کر ہوگا۔