عمران خان کا کلہ مضبوط ہے

لوگ اس بحث میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں کہ عمران خان کا مارچ کامیاب تھا یا ناکام


Nusrat Javeed October 10, 2012
[email protected]

فیض احمد فیض جیسے شاعر کو پورا احساس تھا کہ عشق کی بازی میں ''ہارے بھی تو مات نہیں'' والا معاملہ ہوتا ہے۔

سیاست مگر بڑی ظالم شے ہے۔ اس میں کسی فریق کو جیت کر دکھانا ہوتا ہے۔ بہت سارے لوگ سوچ رہے ہیں کہ عمران خان شمالی وزیرستان اور پھر جنوبی وزیرستان نہ جا کر ہار گیا۔ میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا۔ سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے پوری طرح سمجھ گیا ہوں کہ وزیرستان کے کسی بھی حصہ میں جانا تو ان کا مقصد ہی نہ تھا۔ ان کا اصل ہدف تو دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ آئی آر آئی کے سروے تحریک انصاف کی ''ریٹنگ'' کے بارے میں کچھ بھی کہتے رہیں، وہ جب چاہیں، اپنے چاہنے والوں کو کہیں بھی اِکٹھا کر سکتے ہیں اور ہفتے کی صبح ایک بلٹ پروف جیپ میں سوار ہو کر پہلے ہتالہ پہنچ کر اور پھر ٹانک میں ٹرک پر کھڑے ہو کر خطاب کر لینے کے بعد انھوں نے اتوار کی شام تک یہ بات ثابت بھی کر دی ۔

لوگ اس لایعنی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں کہ عمران خان کا مارچ کامیاب تھا یا ناکام۔ ان کے ساتھ ٹانک جانے والے لوگوں کی تعداد کیا تھی۔ وہ اپنا یہ دعویٰ ثابت کیوں نہ کر پائے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ کم از کم ایک لاکھ افراد کے ہجوم کے ساتھ جنوبی وزیرستان داخل ہو کر دکھائیں گے۔ وہاں کوٹ کئی میں جلسہ کریں گے اور اپنے ساتھ جانے والے 32 امریکی اور یورپی صحافیوں اور امن کے لیے کام کرنے والے رضا کاروں کو یہ دکھائیں گے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت امن چاہتی ہے۔ ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔

مگر دہشت گردی کے نام پر امریکا نے ان پر ایک جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ ''مردوں'' کی طرح ان ''دہشت گردوں'' سے زمین پر اُتر کر دو بدو ہونے کے بجائے ''بزدل امریکی'' کھلونا نما ڈرون طیاروں سے میزائل پھینکتے ہیں اور بے تحاشا معصوم اور بے گناہ لوگوں کو مار دیتے ہیں اور ان کے خاندان والوں کو ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد۔ عمران خان کے متوالے ان سوالوں کے اپنے اپنے انداز میں جوابات دے رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہمہ وقت ''مصروفِ جہاد'' انقلابی اس دوران نواز شریف سے ''لفافے'' لینے والے صحافیوں کو ''بے نقاب'' کرنے کی جنگ بھی حسب عادت بھر پور طریقے سے رواں رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی جانب سے پیش کی جانے والی ''مہذب لفاظی'' کے شور میں اخبارات کے عام قارئین اور ٹیلی وژن کے ذریعے سیاست کو جاننے کی کوشش کرنے والوں کی اکثریت سمجھ ہی نہ پائے گی کہ عمران خان نے ''امن مارچ'' کے نام پر درحقیقت کیا ثابت کیا ہے۔

میں ہفتے کی صبح تحریک انصاف کے اسلام آباد والے دفتر میں بہت پہلے آنے والوں میں شامل تھا۔ میں اس وقت بھی صحافیوں کے اس ہجوم میں کھڑا تھا جہاں اپنے مارچ پر روانہ ہونے سے پہلے ''میڈیا سے گفتگو'' کے نام پر عمران خان بی بی سی کی خاتون نامہ نگار کو تفصیلی انٹرویو دے رہے تھے۔ میں نے رپورٹروں والی ڈھٹائی سے مداخلت کرتے ہوئے سوال کر دیا اور جاننا چاہا کہ اگر انھیں وزیرستان نہ جانے دیا گیا تو ان کا ردعمل کیا ہو گا؟ عمران خان کے جواب کے بعد کم از کم مجھے یہ شک ایک لمحے کو بھی نہ ہوا کہ وہ زندگی یا موت والے ارادے کے ساتھ ہر قیمت پر وزیرستان جانے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔

اس کے باوجود ہمراہ چل دیا۔ 2010کے سیلاب کے بعد خلقِ خدا کے ساتھ گھلنے ملنے کے بہت کم مواقعے ملے تھے۔ تلہ گنگ، میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے لوگوں کے موجودہ ''موڈ'' کو سمجھنے کا موقعہ مل رہا تھا۔ چل پڑا۔ اپنے سفر کے دوران جو کچھ دیکھا اور جانا، وقتاً فوقتاََ اس کالم میں آپ کی نذر کرتا رہوں گا۔ فی الحال تو آپ کو یہ بتانا ہے کہ عمران خان ''کامیاب'' اس لیے رہے ہیں کہ ان کے وزیرستان جانے کے ارادے کے اظہار کے بعد تحریک انصاف میں شامل شاہ محمود قریشی، خورشید قصوری، اسحقٰ خاکوانی اور جاوید ہاشمی جیسے ''جید'' سیاستدانوں نے اپنے لیڈر سے یہ پوچھنے کی جسارت ہی نہ کی کہ وہ یہ سفر کیوں کر رہے ہیں۔

جہانگیر خان ترین بذات ِخود اسد عمر جیسے ملٹی نیشنل کارپوریشنوں سے آئے ''ٹیکنو کریٹس'' کو اپنی جیپ میں بٹھا کر مسلسل تئیس گھنٹے تک ڈرائیوری کرتے رہے۔ اپنی ''افسرانہ خو'' کو قطعی بھلا کر شفقت محمود پوری تابعداری کے ساتھ اپنے لیڈر کے ساتھ نتھی رہے اور صحافیوں کی مسلسل نگہبانی اور مہمان نوازی کرتے رہے۔

ایک اور بات اس سفر کے دوران، میں پوری طرح سمجھ گیا ہوں، وہ یہ کہ عمران خان جو فیصلے کرتے ہیں ان کے سامنے آنے سے پہلے ان کے بارے میں مندرجہ بالا لوگوں سے کوئی خاص مشورہ سازی نہیں کی جاتی۔ مگر کوئی بہت ہی سیانا شخص یا گروہ ضرور موجود ہے جو عمران خان کے لیے سیاسی چالیں سوچتا ہے۔ خدا کے لیے یہ نہ سمجھیے گا کہ میرا اشارہ اس ''کارخانے'' کی طرف ہے جس کے مدارالمہام کبھی جنرل پاشا ہوا کرتے تھے۔ میں تو عرض صرف یہ کر رہا ہوں کہ کوئی بہت ہی سیانا شخص یا گروہ ہے جو سیاست کی بساط کے لیے بڑی اعلیٰ چالیں سوچ سکتا ہے۔

وہ شخص یا گروہ کون ہے؟ میں نہیں جانتا۔ مگر تلاش شروع کر دی ہے۔ کچھ لوگوں پر اس سفر کے دوران بھی شبہ ہوا۔ مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ایک بات مگر طے ہے، عمران خان کے لیے سیاسی چالیں سوچنے والا شخص یا گروہ اخباروں یا ٹیلی وژن اسکرینوں پر نظر نہیں آتا۔ کسی کونے میں اکیلا بیٹھتا اور سوچتا ہے۔

وزیرستان پہنچ کر ڈرون رکوانے کی کوشش کو بھول کر یاد کیجیے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے ٹی وی اسکرینوں پر آئی آر آئی کے اس سروے کا بڑا ذکر ہو رہا تھا جس نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کی ''ریٹنگ'' کم ہو رہی ہے۔ بجائے اس دعویٰ کا ''بڑھکوں'' سے جواب دینے کے فیصلہ ہوا کہ وزیرستان جایا جائے۔ عمران خان اگر صرف اپنی جماعت کے ساتھ وزیرستان جانے کا اعلان کرتے تو بین الاقوامی میڈیا قطعی دلچسپی نہ لیتا۔ گورے صحافی اور ادارے حیران و پریشان ہوئے تو صرف اس لیے کہ عمران خان کے ہمراہ 32 کے قریب امریکی اور یورپی صحافی اور شہری بھی ''وزیرستان'' جا رہے تھے۔

کیا وہ اس ''خطرناک'' جگہ تک پہنچ پائیں گے؟ اور اگر پہنچ بھی جائیں تو پل پل یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ وہ زندہ و سلامت لوٹ بھی پائیں گے یا نہیں۔ لہذا بغیر کسی خاص تردد کے عمران خان نے ان 32 گوروں کے ذریعے پورے عالمی میڈیا کو اپنے مارچ کی جانب متوجہ کر دیا۔

تلہ گنگ، میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتے ہوئے ٹانک پہنچ کر عمران خان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ جب چاہیں، اپنے چاہنے والوں کو پاکستان میں کسی بھی جگہ ،کسی بھی مقصد کا نام لے کر اکٹھا کر سکتے ہیں۔ ان کی جماعت میں شامل ہونے والے ''عادی انتخاب باز'' اور ان میں سے وہ لوگ جو ابھی تک تحریک انصاف میں شامل تو نہیں ہوئے مگر ارادے بنا رہے تھے، آئی آر آئی کے حالیہ سروے کے بعد گومگو کی کیفیت میں چلے گئے تھے، عمران خان نے انھیں جھٹکا دے کر دوبارہ بندے اکٹھے کر کے بسوں میں لاد کر ''منزلِ مراد'' پر پہنچانے میں مصروف کر دیا ۔ اخباروں، ٹی وی مباحثوں اور فیس بک وغیرہ کے ذریعے جو مرضی کہتے رہیں، اپنے حالیہ مارچ کے ذریعے عمران خان نے اپنے ''کلّے'' کو بدستور مضبوط دکھا دیا ہے، باقی سب فروعی باتیں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں