قیامت آنے والی ہے

سوال یہ ہے کہ ہمیں قیامت کا اتنی شدت سے انتظار کیوں ہے؟


عثمان فاروق April 12, 2015
چودہ سوسال گزر چکے ہیں اور ناجانے کتنے چودہ سوسال مزید گزر جائیں گے۔

آپ میں سے اکثر دوستوں کو یاد ہوگا کہ سال 2012 کے شروع میں ایک خبر کا کافی چرچا تھا کہ اس سال کے آخر میں قیامت آجائے گی، صرف یہی نہیں بلکہ ان دنوں اس موضوغ پر ''2012'' کے نام سے ایک ہیوی بجٹ ہالی ووڈ فلم بھی ریلیز ہوئی تھی جس میں خوفناک انداز میں دنیا کو تباہ ہوتے دکھایا گیا تھا۔

ان دنوں یہ بھی سننے میں آیا کہ روس میں کچھ لوگوں نے ایک بڑے غار میں جاکر پناہ لے لی تھی تاکہ متوقع قیامت سے بچا جاسکے۔ اس ساری ہیجانی کیفیت کا سبب ایک مایا تہذیب کا کیلنڈر بتایا جارہا تھا جس کے مطابق 2012 کے آخر میں قیامت کنفرم ہوچکی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں ہمارے میڈیا چینلز پر بھی عجیب و غریب قسم کے نجومیوں کو بلا کر ان سے تبصرے لیے جارہے تھے۔ ان تبصروں کی نوعیت کچھ اسطرح تھی کہ جب ایک نجومی سے پوچھا گیا کیا واقعی 2012 کے آخر میں قیامت آئے گی تو انہوں نے فرمایا
''دیکھئے میرے علم کے مطابق اتنا تو کنفرم ہے کہ 2012 کے بعد سورج اپنی جگہ سے پونے ایک انچ ہٹ جائے گا اس بنا پر ہو بھی سکتا ہے قیامت آجائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہ آئے''

ان نجومی کے تبصرے سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ موصوف نے فیتا لے کر بذات خود سورج کی جگہ کو نہایت باریک بینی سے ناپا ہے کیونکہ وہ ایک انچ بھی کہہ سکتے تھے مگر انہوں نے ''علم'' پر آنچ نہیں آنے دی اور بالکل کنفرم بتایا کہ سورج 2012 کے بعد ''پونے ایک انچ'' اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔ گویا اس طرح کی اوٹ پٹانگ باتوں کا ان دنوں کافی چرچا تھا مگر کیا ہوا؟





2012 گزرا مگر قیامت نہ آئی۔ جس طرح اس موضوع پر فلم بنی اور عالمی میڈیا پر اس خبر کو اچھالا گیا اس سے یہ تو صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ اس دنیا میں ایک کثیر عوام الناس موجود ہے جس کو قیامت کا شدت سے انتظار ہے کیونکہ ظاہر ہے فلم میکر نے اگر اربوں ڈالر لگا کر''قیامت'' کے موضوع پر فلم بنائی تھی تو وہ جانتا تھا کہ لوگ اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ فلم دیکھنے آئیں گے۔ ہمارے ملک میں بھی بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ نیوز چینل پر ایک صاحب قیامت کی نشانیاں بتا کر کافی مشہور ہوئے تھے جن کے پروگرام دیکھ کر لگتا تھا کہ قیامت صرف چند سالوں کی بات رہ گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمیں قیامت کا اتنی شدت سے انتظار کیوں ہے؟ بحثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کا علم صرف اللہ پاک کو ہے مزید یہ ہے ہم کو روز آخر کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔ ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ نے قیامت کی نشانیاں بتائیں ہیں اور ان نشانیوں کا ظہور پچھلے چودہ سوسال سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے جن میں سے کچھ مبہم سے انداز میں ظاہر ہوچکیں اور آگے جو نشانیاں رہ گئیں ہیں۔ ناجانے ان کو ظاہر ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟ چودہ سوسال گزر چکے ہیں اور ناجانے کتنے چودہ سوسال مزید گزر جائیں گے۔



https://twitter.com/KendraMaeJones/status/276355241044226049

تو قیامت کب آئے گی ان تمام باتوں کا علم صرف اور صرف اللہ پاک کو ہے۔ لیکن اسکے باوجود کچھ لوگ دھڑا دھڑ کتابیں لکھ رہے ہیں، ٹی وی پروگرامز کررہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ قیامت کا آنا جیسے چند سالوں کی بات رہ گئی ہے۔ کیا یہ لوگ مسلم قوم کا بھی مایا تہذیب کے لوگوں کی طرح مذاق بنانا چاہتے ہیں؟ جیسے انکو یقین تھا کہ 2012 میں قیامت آجائے گی ویسے مسلم قوم کا بھی ذہن بنایا جارہا ہے جیسے قیامت بس چند سالوں کی بات رہ گئی ہے۔

قیامت کا علم صرف اللہ پاک کو ہے۔ لیکن ہاں اُس دن کی تیاری کرنی چاہیئے کہ نبی پاک ﷺ کے دور میں بھی جب لوگ پوچھتے تھے قیامت کب آئے گی تو انکو جواب ملتا تھا تم نے اسکی تیاری کیا کرلی ہے؟ نبی پا ک ﷺ کا اعلان نبوت کرنا بھی قیامت کی نشانیوں میں آتا ہے تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہزار سال سے اوپر وقت گزر گیا اور نجانے کتنے ہزار سال اور گزریں گے تو قیامت آئے گی۔

یہ زمان و مکان یہ وقت کا گزرنا صرف ہمارے لیے ہے اور اب تو سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکا ہے کہ اگر زمین پر ایک دن گزرتا ہے تو ہوسکتا ہے زمین سے کئی سو نوری سال کے فاصلے پر واقع سیارے پر وہ وقت ایک سکینڈ کے برابر ہو۔ تو اسی لیے الہامی کتابوں میں قیامت کے نزدیک آنے کے بارے میں روایات یا آیات ملتی بھی ہیں تو اس سے کوئی بھی شخص یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ''نزدیک'' سے مراد کتنا نزدیک ہے؟ اور صدیوں پہلے جب یہ الہامی کتابیں انبیاء پر نازل ہوئیں تو اسوقت کہا گیا کہ قیامت نزدیک ہے اور صدیاں گزر چکی ہیں اور آگے مزید نجانے کتنی صدیاں گزریں گی۔

تو اسی لیے قیامت کے انتظار کے بجائے اس کی تیاری پر دھیان دینا چاہے اور یہ قیامت کی نزدیک آنے کے نام پر اپنی دکانداری چمکانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے۔

[poll id="352"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں