تاریخ خاموش ہے

زند ہ قومیں اپنی تاریخ کی حفاظت کرتی ہیں تاکہ وہ نسل در نسل اگلے سینوں میں منتقل ہو سکے۔


سالار سلیمان April 12, 2015
یہ ایسی عمارتیں ہیں جو کہ بہت پرانی ہو چکی ہیں اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت ڈھے سکتی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

PESHAWAR: لاہور کے نام سے شاید ہی کوئی نا واقف ہوگا۔ یہ واقعی ایک زندہ دل شہر ہے جہاں پر رات گئے تک زندگی جاگتی رہتی ہے۔ یہاں قوانین سب کے لئے برابر ہیں، یعنی اس شہرکی خاص شخصیات سے لے کر عام آدمی تک سب ہی گرفتار ہوتے ہیں۔ یہاں کی سڑکیں، بازار، عمارتیں اور لوگ سبھی ہمہ وقت لوگوں کو خوش آمدید کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

شہر لاہور اس وقت تین حصوں میں منقسم ہے، اولڈ وال سٹی یعنی اندرون لاہور، جہاں کی ہر گلی میں تاریخ بکھری ہوئی ہے۔ مڈ لاہور، یعنی وہ علاقے جو پچھلے 40 سالوں کے دوران مکمل آباد ہوئے ہیں، جیسا کہ مغلپورہ، ہربنس پورہ، جلو اور پنجاب یونیورسٹی کے قریبی علاقے اقبال ٹاؤن وغیرہ۔ لاہور کی وہ آبادیاں جو پچھلے دس پندرہ سالوں میں آباد ہوئی ہیں وہ نیو لاہور کہلائی جاتی ہیں، جن میں واپڈا ٹاون اور رائیونڈ روڈ پر بننے والی متعدد اسکیمیں وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود پرانے لاہور کی کشش آج بھی برقرا ر ہے اور یہاں کا دورہ کرنے والا اس شہر کے سحر میں گرفتار ہونے سے خود کو روک نہیں سکتا ہے ۔

اندرون لاہور میں آج بھی تاریخی عمارتیں ایستادہ ہیں اور اگر خود ساختہ کمرشل حصے سے آگے کی جانب بڑھا جائے تو وہاں کی تنگ و تاریک گلیوں میں بہت سی داستانیں رقص کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر آپ اندرون شہر کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو علیٰ الصبح فجر کے بعد کے وقت کا انتخاب کریں اور کوشش کریں کہ اتوار کا دن ہو۔ ایسا کیوں ہو؟ اس کی وجہ میں آگے بیان کروں گا۔

https://twitter.com/Natrani/status/576764533462548480



بہرحال ایک رپورٹ کے مطابق اندرون شہر میں اس وقت 1400 عمارتیں بوسیدہ اور خطرناک ہیں۔ یہ ایسی عمارتیں ہیں جو کہ بہت پرانی ہوچکی ہیں اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت ڈھے سکتی ہیں۔ ان میں ایسی عمارتیں بھی شامل ہیں جن میں تجارتی مراکز بن چکے ہیں اور ایسی عمارتیں بھی شامل ہیں جن میں لوگ رہائش پذیر ہیں۔ یہاں پر ایسی کئی عمارتیں موجود ہیں کہ جو بغیر نقشے کے بعد میں تعمیر کی گئی اور جن کے حوالے سے کوئی بھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ آپ دوسرے الفاظ میں کہ سکتے ہیں کہ 14 سو عمارتیں اور ان کے نفوس اور بشمول راہ گیر ہمہ وقت خطرے میں ہیں اور حکومت اس حوالے سے 'ستو پی کر سو رہی ہے'۔



میں نے اس ضمن میں جب والڈ سٹی اتھارٹی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو متعلقہ فرد کو اُس دن احساس ہوا کہ وہ والڈ سٹی کا نمائندہ ہیں اور اُن کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ میرے یہ بتانے پر کہ اولڈ والڈ سٹی میں 1400 عمارتیں بوسیدہ ہیں اور کسی بھی وقت وہاں سانحہ ہو سکتا ہے، اُس با خبر آفیسر نے کمال اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''اچھا '' کہنے پر اکتفا کیا۔ میں نے پھر اپنا سوال دہراتے ہوئے کہا کہ جناب اس ضمن میں اتھارٹی کیا کر رہی ہے تو اس نے کہا کہ اتھارٹی تو اپنا کام کر رہی ہے اور اس کا کام بالکل ٹھیک سمت میں جا رہا ہے ۔

میرا دل تو چاہا کہ فون سے نکل کر اُس کے سامنے جاؤں اور اس کو کہوں کہ آ بھائی، مجھے دکھا کہ اتھارٹی کہاں ہے اور کیا کام کر رہی ہے؟ لیکن میں نے ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس سے دوبارہ پوچھا، جناب اس بارے میں کیا فیصلہ ہوا؟ تو اُس نے کمال بے اعتنائی سے ارشاد کیا کہ ابھی تو کوئی بھی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن جب بھی فیصلہ ہوگا تو آپ کو سب سے پہلے بتاؤں گا۔ بعد میں علم ہوا کہ والڈ سٹی اتھارٹی کی ترجمان ثانیہ قریشی نے کہا کہ اس مسئلے کے بارے میں ایک کمیٹی بنادی گئی ہے، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کمیٹی کب تک اپنی تحقیق کو مکمل کرکے رپورٹ جمع کرائے گی اور نا ہی یہ کہ کمیٹی کی حدود کیا ہیں؟

جب ہمارے اپنے اداروں میں تاریخی مقامات کی حفاظت کرنے والے ایسے نااہل لوگ بھرتی ہونگے تو ہم کسی سے کیا توقع رکھیں؟ جن کو یہ معلوم ہی نہیں کہ شہر میں کتنی عمارتیں بوسیدہ ہیں، وہ کس حق سے اتھارٹی کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں؟ ان بوسیدہ عمارتوں کے حوالے سے توآج تک ایک سروے بھی مکمل نہیں ہوا۔



https://twitter.com/dawarnauman/status/484341157326229504

رپورٹ میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ صرف چالیس عمارتوں کو نوٹس دیا گیا ہے، باقی کی ایک ہزار تین سو ساٹھ عمارتوں کی تاریخ تک ''تاریخ یہاں پر خاموش ہے''۔ اندرون شہر میں بے شمار مسائل ہیں۔ ناجائز تجاوزات نے اس شہر کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے آئے روز لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے، ناجانے وزیراعلیٰ کی نظر سے یہ مسئلہ کیوں اوجھل ہے؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میٹرو کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اندرون لاہور کے مسائل پر توجہ ڈالی جاتی۔ یہاں کے مسائل ایسے نہیں ہیں جن کو حل نہ کیا جا سکے، بس ضرورت صرف بہتر پلاننگ اور جذبے کی ہے۔

میرے دوست عبدالوہاب صدیقی کو اپنے کاروبار کے سلسلے میں آئے روز اندرون لاہور شہر کا چکر لگانا پڑتا ہے۔ اُن کے مطابق اگر چنگ چی رکشوں کے حوالے سے کوئی ضابطہ بنالیا جائے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی پرانے لاہور میں داخلے پر پابندی عائد کردی جائے اور پارکنگ کا موثر نظام بنا دیا جائے تو راتوں رات اندرون شہر کی رونق بحال ہو سکتی ہے ۔

https://twitter.com/moied_mahnoor/status/400946689655455744

https://twitter.com/TheRealAmnaAyub/status/233378291329941504

زندہ قومیں اپنی تاریخ کی حفاظت کرتی ہیں تاکہ وہ نسل در نسل اگلے سینوں میں منتقل ہوسکے۔ اس ضمن میں جہاں شہریوں کی ذمہ داریاں ہیں، وہیں حکومت کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی، حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر سنجیدہ اقدامات کرے، ورنہ ہم اپنے مہمانوں کو لاہور کی سیاحت کے حوالے سے یہی مشورہ دیتے پھریں گے کہ جناب فجر کے بعد چلیں گے۔

اگر ابھی ہم نے اقدامات نہ کئے تو پھر آنے والے دنوں میں شاید ہماری نسلیں کہیں ''ایک تھا اندرون لاہور' ۔

[poll id="350"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں