قومی احتساب کمشن بل کی شدید مخالفت
اس وقت بھی ملک میں پرویزمشرف کے احتساب بل کا قانون چل رہا ہے، وزیر قانون وانصاف فاروق ایچ نائیک
چار سال سے زائد عرصہ تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے سید یوسف رضاگیلانی بڑے تواتر سے یہ فرمایا کرتے تھے کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے۔ تمام فیصلے یہاں ہوتے ہیں، وہ نئے سوٹ اور ٹائیاں لگا کر قومی اسمبلی کے اجلاس میں تواتر سے خطاب کرتے تھے اور ہربار پارلیمنٹ کو ملک کا سپریم ادارہ گردانتے تھے۔
حیرت ہے اب سید یوسف رضا گیلانی کو ساڑھے چارسالوں کے بعد یہ علم ہوا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں ہے اور فیصلے ایوان صدر میں ہورہے ہیں، یوسف رضاگیلانی کے قول وفعل میں تضاد کوئی نئی بات نہیں ہے، وہ ملک کے غالباً واحد ایسے اکلوتے وزیراعظم رہے ہیں، جو دن میں کئی بار اپنے بیانات تبدیل کرتے تھے اور وہ اکثر یوٹرن لے لیتے تھے جس کی وجہ سے اس حکومت کی کئی بار سبکی ہوئی ۔
یوسف رضاگیلانی ایفی ڈرین کیس میں ملوث اپنے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کی ایوان صدر سے نکلتے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے مرکزی دروازے پر اے این ایف کے اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتاری پر نالاں ہیں، وہ بیٹے کی گرفتاری کی وجہ سے ایوان صدر کے طرزعمل اور پارٹی قیادت کی مسلسل خاموشی پر اس قدر مایوس ہو گئے ہیں کہ اپنے میزبان صدر آصف علی زرداری کو بتائے بغیر ایوان صدر کو خیرباد کہہ کر لاہور چلے گئے۔صدر آصف علی زرداری کو محسن قرار دینے والے سید یوسف رضاگیلانی اب اس قدر نالاں ہوگئے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ذریعے اپنے تحفظات پیپلزپارٹی کی قیادت تک پہنچا رہے ہیں۔
قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان سمیت جب دیگر اپوزیشن قائدین گیلانی کے دورِ اقتدار میں یہ کہتے تھے کہ تمام فیصلے ایوان صدر اسلام آباد میں ہوتے ہیں اورپارلیمنٹ کو ہر معاملے میں بائی پاس کیا جاتا ہے تو یوسف رضاگیلانی اپوزیشن کے ان بیانات کو بے بنیاد قرار دیتے تھے مگر اب وہ خود یہ فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا کردار محض نمائشی ہے جس سے اپوزیشن کے موقف کی تصدیق ہوگئی ہے۔ اسلام آباد کے باخبر حلقے یہ جانتے ہیں کہ اقتدار کے آخری دنوں میں صدر آصف علی زرداری سید یوسف رضا گیلانی سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ انکی جگہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ کسی اور کو دیا جائے۔
سید یوسف رضاگیلانی کے اختلافات صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اب کھل کر سامنے آگئے ہیں، یوسف رضاگیلانی کو یہ یقین دہانی نااہلی کے بعد کرائی گئی تھی کہ ان کے پسندیدہ بیوروکریٹس کو ان کے بعد بھی ا ن کے عہدوں پر برقرار رکھا جائیگا۔
ایوان صدر کے احکامات پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے سابق وزیراعظم کے منظورِنظر تمام بیورو کریٹس کو تبدیل کر دیا ہے اور اکھاڑپچھاڑ کا یہ عمل کچھ زیادہ عجلت میں کیاگیا ہے، سابق وزیراعظم کو ان کے آبائی شہر ملتان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین این ایچ اے محمدعلی گردیزی کو اچانک ان کے عہدے سے ہٹانا سب سے زیادہ گراں گزرا۔ سابق وزیراعظم نے این ایچ اے کے اربوں روپے مالیت کے ملتان پیکج کی نگرانی اور بلاتعطل ملتان میں جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز جاری کرنے کی غرض سے میرٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک پولیس افسر کو اس اہم قومی ادارے کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ بعض حکومتی حلقوں نے سابق وزیراعظم کے تحفظات اور الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کا یہ مکمل استحقاق ہے کہ وہ بیوروکریسی میں تبادلے کریں اور اپنی مرضی کی ٹیم تشکیل دے۔ایوان صدر کے بعد اب ایوان وزیراعظم کے درودیوار بھی گیلانی کیلئے بند ہونیوالے ہیں۔
ایک طویل عرصہ سے اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث قومی احتساب کمیشن بل زیرالتواء پڑا ہوا تھا۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین اس بل پر کئی بار مذاکرات ہوئے جو ہمیشہ بے نتیجہ ختم ہوئے، اپوزیشن نے اس بل پر شروع سے تحفظات کا اظہار کیا۔ سوموار کے روز یہ بل جب وفاقی وزیرقانون وانصاف فاروق ایچ نائیک نے ایوان میں پیش کیا تو اپوزیشن کے ارکان نے ایوان میں شدید نعرے بازی کی اور ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا تھا، مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے اس بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ پہلا بل واپس لئے بغیر یہ بل پیش نہیں کیا جاسکتا۔
وزیر قانون وانصاف فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی ملک میں پرویزمشرف کے احتساب بل کا قانون چل رہا ہے، پیپلزپارٹی کے قائدین کا یہ موقف ہے کہ اس کالے قانون کی وجہ سے انتقامی کارروائیاں کی گئیں ہیں اور انہی احتساب کے نام پر بدترین انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو ملک بدر ہونا پڑا۔ مجوزہ قومی احتساب کمیشن بل کے ذریعے اس کمیشن کا چیئرمین سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج یا گریڈ 22 کا کوئی ریٹائرڈ افسر ہو گا، کمیشن کو سابقہ صدور اور دیگر اہم عہدیداروں کا احتساب کرنے کا اختیار دیا جائیگا، کمیشن کو موجودہ اور سابقہ وزیراعظم، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، وزراء اعلیٰ، وفاقی وزراء، صوبائی وزراء سمیت دیگر سرکاری عہدوں پر فائز شخصیات کا احتساب کرنے کا اختیار دیا جائیگا۔
اپوزیشن نے اس بل پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکمران اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اپنی کرپشن کو تحفظ دینے کیلئے یہ بل منظور کرانا چاہتے ہیں مگر اپوزیشن ایسا نہیں کرنے دے گی۔تحریک انصاف کے امن مارچ پر قومی سیاست میں تجزیے اور تبصرے کئے جارہے ہیں، عمران خان کے مخالفین اس امن مارچ کو گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے ایک ڈھونگ سے تعبیر کررہے ہیں۔ باخبر حلقے یہ جانتے تھے کہ اس امن مارچ کو وزیرستان میں داخل نہیں ہونے دیا جائیگا اور غالباً مقتدر حلقوں نے بھی عمران خان کو اس بار ے میں آگاہ کردیا تھا مگر عمران خان نے اس کے باوجود جانے کا کیوں فیصلہ کیا۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان ایک پہلے سے طے شدہ سکرپٹ کے مطابق آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ یہ امن مارچ کرکے کس قدر سیاسی طور پر کامیاب ہوئے ہیں، یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ این آر او عملدرآمد اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہیں، سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ حل ہونے کے قریب ہے، آج دوبارہ اس اہم کیس کی سماعت ہے۔عدالت نے حکومت کو ایک موقع دیا ہے، عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اب یہ معاملہ ہونے کے قریب تر ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت ایک بار پھر حکومت کو موقع دیتی ہے یا نہیں؟
حیرت ہے اب سید یوسف رضا گیلانی کو ساڑھے چارسالوں کے بعد یہ علم ہوا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں ہے اور فیصلے ایوان صدر میں ہورہے ہیں، یوسف رضاگیلانی کے قول وفعل میں تضاد کوئی نئی بات نہیں ہے، وہ ملک کے غالباً واحد ایسے اکلوتے وزیراعظم رہے ہیں، جو دن میں کئی بار اپنے بیانات تبدیل کرتے تھے اور وہ اکثر یوٹرن لے لیتے تھے جس کی وجہ سے اس حکومت کی کئی بار سبکی ہوئی ۔
یوسف رضاگیلانی ایفی ڈرین کیس میں ملوث اپنے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کی ایوان صدر سے نکلتے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے مرکزی دروازے پر اے این ایف کے اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتاری پر نالاں ہیں، وہ بیٹے کی گرفتاری کی وجہ سے ایوان صدر کے طرزعمل اور پارٹی قیادت کی مسلسل خاموشی پر اس قدر مایوس ہو گئے ہیں کہ اپنے میزبان صدر آصف علی زرداری کو بتائے بغیر ایوان صدر کو خیرباد کہہ کر لاہور چلے گئے۔صدر آصف علی زرداری کو محسن قرار دینے والے سید یوسف رضاگیلانی اب اس قدر نالاں ہوگئے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ذریعے اپنے تحفظات پیپلزپارٹی کی قیادت تک پہنچا رہے ہیں۔
قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان سمیت جب دیگر اپوزیشن قائدین گیلانی کے دورِ اقتدار میں یہ کہتے تھے کہ تمام فیصلے ایوان صدر اسلام آباد میں ہوتے ہیں اورپارلیمنٹ کو ہر معاملے میں بائی پاس کیا جاتا ہے تو یوسف رضاگیلانی اپوزیشن کے ان بیانات کو بے بنیاد قرار دیتے تھے مگر اب وہ خود یہ فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا کردار محض نمائشی ہے جس سے اپوزیشن کے موقف کی تصدیق ہوگئی ہے۔ اسلام آباد کے باخبر حلقے یہ جانتے ہیں کہ اقتدار کے آخری دنوں میں صدر آصف علی زرداری سید یوسف رضا گیلانی سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ انکی جگہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ کسی اور کو دیا جائے۔
سید یوسف رضاگیلانی کے اختلافات صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اب کھل کر سامنے آگئے ہیں، یوسف رضاگیلانی کو یہ یقین دہانی نااہلی کے بعد کرائی گئی تھی کہ ان کے پسندیدہ بیوروکریٹس کو ان کے بعد بھی ا ن کے عہدوں پر برقرار رکھا جائیگا۔
ایوان صدر کے احکامات پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے سابق وزیراعظم کے منظورِنظر تمام بیورو کریٹس کو تبدیل کر دیا ہے اور اکھاڑپچھاڑ کا یہ عمل کچھ زیادہ عجلت میں کیاگیا ہے، سابق وزیراعظم کو ان کے آبائی شہر ملتان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین این ایچ اے محمدعلی گردیزی کو اچانک ان کے عہدے سے ہٹانا سب سے زیادہ گراں گزرا۔ سابق وزیراعظم نے این ایچ اے کے اربوں روپے مالیت کے ملتان پیکج کی نگرانی اور بلاتعطل ملتان میں جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز جاری کرنے کی غرض سے میرٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک پولیس افسر کو اس اہم قومی ادارے کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ بعض حکومتی حلقوں نے سابق وزیراعظم کے تحفظات اور الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کا یہ مکمل استحقاق ہے کہ وہ بیوروکریسی میں تبادلے کریں اور اپنی مرضی کی ٹیم تشکیل دے۔ایوان صدر کے بعد اب ایوان وزیراعظم کے درودیوار بھی گیلانی کیلئے بند ہونیوالے ہیں۔
ایک طویل عرصہ سے اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث قومی احتساب کمیشن بل زیرالتواء پڑا ہوا تھا۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین اس بل پر کئی بار مذاکرات ہوئے جو ہمیشہ بے نتیجہ ختم ہوئے، اپوزیشن نے اس بل پر شروع سے تحفظات کا اظہار کیا۔ سوموار کے روز یہ بل جب وفاقی وزیرقانون وانصاف فاروق ایچ نائیک نے ایوان میں پیش کیا تو اپوزیشن کے ارکان نے ایوان میں شدید نعرے بازی کی اور ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا تھا، مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے اس بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ پہلا بل واپس لئے بغیر یہ بل پیش نہیں کیا جاسکتا۔
وزیر قانون وانصاف فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی ملک میں پرویزمشرف کے احتساب بل کا قانون چل رہا ہے، پیپلزپارٹی کے قائدین کا یہ موقف ہے کہ اس کالے قانون کی وجہ سے انتقامی کارروائیاں کی گئیں ہیں اور انہی احتساب کے نام پر بدترین انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو ملک بدر ہونا پڑا۔ مجوزہ قومی احتساب کمیشن بل کے ذریعے اس کمیشن کا چیئرمین سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج یا گریڈ 22 کا کوئی ریٹائرڈ افسر ہو گا، کمیشن کو سابقہ صدور اور دیگر اہم عہدیداروں کا احتساب کرنے کا اختیار دیا جائیگا، کمیشن کو موجودہ اور سابقہ وزیراعظم، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، وزراء اعلیٰ، وفاقی وزراء، صوبائی وزراء سمیت دیگر سرکاری عہدوں پر فائز شخصیات کا احتساب کرنے کا اختیار دیا جائیگا۔
اپوزیشن نے اس بل پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکمران اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اپنی کرپشن کو تحفظ دینے کیلئے یہ بل منظور کرانا چاہتے ہیں مگر اپوزیشن ایسا نہیں کرنے دے گی۔تحریک انصاف کے امن مارچ پر قومی سیاست میں تجزیے اور تبصرے کئے جارہے ہیں، عمران خان کے مخالفین اس امن مارچ کو گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے ایک ڈھونگ سے تعبیر کررہے ہیں۔ باخبر حلقے یہ جانتے تھے کہ اس امن مارچ کو وزیرستان میں داخل نہیں ہونے دیا جائیگا اور غالباً مقتدر حلقوں نے بھی عمران خان کو اس بار ے میں آگاہ کردیا تھا مگر عمران خان نے اس کے باوجود جانے کا کیوں فیصلہ کیا۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان ایک پہلے سے طے شدہ سکرپٹ کے مطابق آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ یہ امن مارچ کرکے کس قدر سیاسی طور پر کامیاب ہوئے ہیں، یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ این آر او عملدرآمد اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہیں، سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ حل ہونے کے قریب ہے، آج دوبارہ اس اہم کیس کی سماعت ہے۔عدالت نے حکومت کو ایک موقع دیا ہے، عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اب یہ معاملہ ہونے کے قریب تر ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت ایک بار پھر حکومت کو موقع دیتی ہے یا نہیں؟