یوسف رضا گیلانی کی قربانی اور قیادت کا طرز عمل
گیلانی کو پس منظر میں دھکیلنے کا سب سے زیادہ نقصان جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی اورسرائیکی صوبے کے نعرے کو ہوگا۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی کے لئے بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ پارٹی سے وفاداری نبھاتے ہوئے سیاسی شہید ہوئے۔
صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی بے نظیر بھٹو شہید کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دے گی۔ اس مقصد کے لئے یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارت اعظمیٰ کی قربانی دی، ان کے لئے یہ بڑا آسان تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مل کر خط لکھ دیتے مگر انہوں نے پارٹی سے اپنی کمٹمنٹ نبھائی اور سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر اپنے ضمیر ، پارٹی اور حکومتی موقف کے مطابق عمل کیا۔ وہ مشکل وقت میں پارٹی لیڈرشپ کے ساتھ کھڑے رہے ۔وہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے، 4سال سے زائد عرصہ تک وزارت عظمی پر فائز رہے ۔
پیپلزپارٹی آج جب بھی سیاسی ، آئینی اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اپنی جس حکومتی کارکردگی اور کارناموں کا ذکر کرتی ہے، وہ سب یوسف رضاگیلانی کی وزارت عظمیٰ میں سرانجام دئیے گئے۔اب وہ نظر انداز کئے جانے پر پارٹی قیادت سے ناراض ہوگئے ہیں اور ایوان صدر بھی چھوڑ دیا ہے ۔وہ کھل کر گلے شکوے کر رہے ہیں اور آج کل پارٹی میں ان کی ناراضگی کا معاملہ بھی زیر بحث ہے ۔ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے، اس سے اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے مخالف بہت خوش ہیں۔ سابق وزیراعظم کے قریبی حلقے سمجھتے ہیں کہ ان کی قربانی کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔
انہوں نے پارٹی قیادت سے وفاداری نبھاتے ہوئے وزارت عظمی قربان کی، اس صلے میں انہیں صرف ایوان صدر میں ٹھہرانا ہی کافی نہیں تھا، قربانی کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان کی عزت و تکریم بھی ہوتی اور اعلیٰ سطحی فیصلہ سازی میں ان کا اہم کردار بھی ہوتا تاکہ مستقبل میں پارٹی پر قربان ہونے والوں کا حشر گیلانی جیسا نہ ہوتا۔
گیلانی کو پس منظر میں دھکیلنے کا سب سے زیادہ نقصان جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی اورسرائیکی صوبے کے نعرے کو ہوگا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ جو کچھ ہوا، مخدوم شہاب الدین اور علی موسیٰ گیلانی بھی اسی بے حسی اور موقع پرستی کا شکار ہوئے، اس کے بعد سرائیکی علاقے میں پیپلز پارٹی کاکوئی بڑا لیڈر خوش نہیں ہے ۔ صدر زرداری یوسف رضا گیلانی کو آئندہ الیکشن مہم کیلئے بچانا چاہتے تھے، جب وہ قربان ہوگئے اور انہیں جس طوطا چشمی سے نظرانداز کردیا گیا، اس منظر کو دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے کہ وہ شاید پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت نہ کرسکیں ۔
یہ عندیہ وہ اپنے انٹرویو میں دے بھی چکے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وہ خود کو سیاسی طور پر غیر فعال کرلیں گے کیونکہ وہ پانچ سال کیلئے نااہل ہوچکے ہیں اور اگلا الیکشن نہیں لڑسکتے۔ اگر یوسف رضا گیلانی کو منایا نہ گیا اور ان کی عزت بحال نہ ہوئی اور ان کی قربانی کا پاس نہ رکھا گیا تو اس کا امکان بھی ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں اپنے بچوں کو آزاد الیکشن لڑا دیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر کے چند قریبی ساتھی اپنے وار میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔
گیلانی پر ایک بڑا الزام یہ تھا کہ وہ اپنی من مانی کرتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ صدر زرداری کو عدلیہ اور فوج کے ساتھ لڑائی کے دوران اس تاثر کا فائدہ ہوا ہے۔ دوسری طرف راجہ پرویز اشرف صدر زرداری کے یس مین بن کر ایک ''برخودار وزیراعظم ''کا رول بڑی بخوبی سے انجام دے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی اور حکومت دونوں جگہ راجہ صاحب صحیح معنوں میں مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، شاید وہ اس حیثیت سے آگے بڑھنا بھی نہیں چاہتے لیکن اس کا نقصان پیپلزپارٹی کو 2013 کے الیکشن میں اٹھانا پڑے گا۔
صدر زرداری اور بلاول بھٹو سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر انتخابی مہم میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوں گے۔ راجہ صاحب کو پارٹی کارکنان اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان کی قیادت میں ایک ایسی بھرپور انتخابی مہم چلا سکیں جو پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لے آئے ۔ پیپلز پارٹی کا اگلا المیہ یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں قربانی کون دے گا؟ ایک پارٹی لیڈر جس نے زرداری کی صدارت بچائی ، وہ عہدے سے فارغ ہواتو اسے باعزت طور پر ایوان صدر میں بھی نہیں رکھا جاسکا ۔ سیاسی بصیرت کاتقاضہ تو یہ ہے کہ جس پارٹی شخصیت نے الیکشن مہم لیڈ کرنی اور موت کا کھیل کھیلنا ہے، اس کے سیاسی قد کاٹھ کو قائم رکھا جائے ۔
یہ تاثر بھی ہے کہ خط لکھنے کا فیصلہ اختلاف کا باعث بنا ہے اور اگر خط لکھنا تھا تو گیلانی کی قربانی کیوں دی گئی؟ یہ افواہیںبھی ہیں کہ صدر زرداری گیلانی کے بڑھتے ہوئے قد کاٹھ سے خائف تھے تاہم اندر کی خبر رکھنے والے کہتے ہیں کہ صدر زرداری اب بھی گیلانی پر اتنا ہی اعتماد کرتے ہیں جتنا ماضی میں کیا کرتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ خط لکھنا بہر صورت صدر زرداری کے لیے نقصان دہ ہے۔ دراصل فاروق نائیک اور دیگر مشیروں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ نگران حکومت سے سے پہلے مرضی کا خط لکھ دیا جائے۔ یہ خط نہ لکھا گیا تو نگران حکومت خط لکھ دے گی۔
اندر کی کہانی کچھ بھی ہو، کسی کو گیلانی کی قربانی اور وفاداری کا احساس ہو یا نہ ہو صدر زرداری کو اس کا احساس ہونا چاہیے تھا۔اگر وہ اگلے الیکشن میں پارٹی کو نقصان سے بچانا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ پارٹی اچھی کارکردگی دکھائے تو پھرگیلانی کو پارٹی میں فعال رول دینا ہوگا۔
صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی بے نظیر بھٹو شہید کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دے گی۔ اس مقصد کے لئے یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارت اعظمیٰ کی قربانی دی، ان کے لئے یہ بڑا آسان تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مل کر خط لکھ دیتے مگر انہوں نے پارٹی سے اپنی کمٹمنٹ نبھائی اور سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر اپنے ضمیر ، پارٹی اور حکومتی موقف کے مطابق عمل کیا۔ وہ مشکل وقت میں پارٹی لیڈرشپ کے ساتھ کھڑے رہے ۔وہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے، 4سال سے زائد عرصہ تک وزارت عظمی پر فائز رہے ۔
پیپلزپارٹی آج جب بھی سیاسی ، آئینی اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اپنی جس حکومتی کارکردگی اور کارناموں کا ذکر کرتی ہے، وہ سب یوسف رضاگیلانی کی وزارت عظمیٰ میں سرانجام دئیے گئے۔اب وہ نظر انداز کئے جانے پر پارٹی قیادت سے ناراض ہوگئے ہیں اور ایوان صدر بھی چھوڑ دیا ہے ۔وہ کھل کر گلے شکوے کر رہے ہیں اور آج کل پارٹی میں ان کی ناراضگی کا معاملہ بھی زیر بحث ہے ۔ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے، اس سے اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے مخالف بہت خوش ہیں۔ سابق وزیراعظم کے قریبی حلقے سمجھتے ہیں کہ ان کی قربانی کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔
انہوں نے پارٹی قیادت سے وفاداری نبھاتے ہوئے وزارت عظمی قربان کی، اس صلے میں انہیں صرف ایوان صدر میں ٹھہرانا ہی کافی نہیں تھا، قربانی کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان کی عزت و تکریم بھی ہوتی اور اعلیٰ سطحی فیصلہ سازی میں ان کا اہم کردار بھی ہوتا تاکہ مستقبل میں پارٹی پر قربان ہونے والوں کا حشر گیلانی جیسا نہ ہوتا۔
گیلانی کو پس منظر میں دھکیلنے کا سب سے زیادہ نقصان جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی اورسرائیکی صوبے کے نعرے کو ہوگا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ جو کچھ ہوا، مخدوم شہاب الدین اور علی موسیٰ گیلانی بھی اسی بے حسی اور موقع پرستی کا شکار ہوئے، اس کے بعد سرائیکی علاقے میں پیپلز پارٹی کاکوئی بڑا لیڈر خوش نہیں ہے ۔ صدر زرداری یوسف رضا گیلانی کو آئندہ الیکشن مہم کیلئے بچانا چاہتے تھے، جب وہ قربان ہوگئے اور انہیں جس طوطا چشمی سے نظرانداز کردیا گیا، اس منظر کو دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے کہ وہ شاید پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت نہ کرسکیں ۔
یہ عندیہ وہ اپنے انٹرویو میں دے بھی چکے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وہ خود کو سیاسی طور پر غیر فعال کرلیں گے کیونکہ وہ پانچ سال کیلئے نااہل ہوچکے ہیں اور اگلا الیکشن نہیں لڑسکتے۔ اگر یوسف رضا گیلانی کو منایا نہ گیا اور ان کی عزت بحال نہ ہوئی اور ان کی قربانی کا پاس نہ رکھا گیا تو اس کا امکان بھی ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں اپنے بچوں کو آزاد الیکشن لڑا دیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر کے چند قریبی ساتھی اپنے وار میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔
گیلانی پر ایک بڑا الزام یہ تھا کہ وہ اپنی من مانی کرتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ صدر زرداری کو عدلیہ اور فوج کے ساتھ لڑائی کے دوران اس تاثر کا فائدہ ہوا ہے۔ دوسری طرف راجہ پرویز اشرف صدر زرداری کے یس مین بن کر ایک ''برخودار وزیراعظم ''کا رول بڑی بخوبی سے انجام دے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی اور حکومت دونوں جگہ راجہ صاحب صحیح معنوں میں مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، شاید وہ اس حیثیت سے آگے بڑھنا بھی نہیں چاہتے لیکن اس کا نقصان پیپلزپارٹی کو 2013 کے الیکشن میں اٹھانا پڑے گا۔
صدر زرداری اور بلاول بھٹو سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر انتخابی مہم میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوں گے۔ راجہ صاحب کو پارٹی کارکنان اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان کی قیادت میں ایک ایسی بھرپور انتخابی مہم چلا سکیں جو پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لے آئے ۔ پیپلز پارٹی کا اگلا المیہ یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں قربانی کون دے گا؟ ایک پارٹی لیڈر جس نے زرداری کی صدارت بچائی ، وہ عہدے سے فارغ ہواتو اسے باعزت طور پر ایوان صدر میں بھی نہیں رکھا جاسکا ۔ سیاسی بصیرت کاتقاضہ تو یہ ہے کہ جس پارٹی شخصیت نے الیکشن مہم لیڈ کرنی اور موت کا کھیل کھیلنا ہے، اس کے سیاسی قد کاٹھ کو قائم رکھا جائے ۔
یہ تاثر بھی ہے کہ خط لکھنے کا فیصلہ اختلاف کا باعث بنا ہے اور اگر خط لکھنا تھا تو گیلانی کی قربانی کیوں دی گئی؟ یہ افواہیںبھی ہیں کہ صدر زرداری گیلانی کے بڑھتے ہوئے قد کاٹھ سے خائف تھے تاہم اندر کی خبر رکھنے والے کہتے ہیں کہ صدر زرداری اب بھی گیلانی پر اتنا ہی اعتماد کرتے ہیں جتنا ماضی میں کیا کرتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ خط لکھنا بہر صورت صدر زرداری کے لیے نقصان دہ ہے۔ دراصل فاروق نائیک اور دیگر مشیروں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ نگران حکومت سے سے پہلے مرضی کا خط لکھ دیا جائے۔ یہ خط نہ لکھا گیا تو نگران حکومت خط لکھ دے گی۔
اندر کی کہانی کچھ بھی ہو، کسی کو گیلانی کی قربانی اور وفاداری کا احساس ہو یا نہ ہو صدر زرداری کو اس کا احساس ہونا چاہیے تھا۔اگر وہ اگلے الیکشن میں پارٹی کو نقصان سے بچانا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ پارٹی اچھی کارکردگی دکھائے تو پھرگیلانی کو پارٹی میں فعال رول دینا ہوگا۔