کچھووں کا تحفظ سندھ میں قانون نافذ دوسرے صوبے کب جاگیں گے
کچھووں کے پے در پے اسمگلنگ کے واقعات صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے انتظامات کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں
۔پاکستان میں میٹھے پانی کے کچھووں کی 6 انواع پائی جاتی ہیں فوٹو : فائل
KARACHI:
کچھ تقریبات یادگار ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ میں ایک نیا باب بھی رقم کرجاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب کچھووں کے تحفظ کے حوالے سے کراچی میں جاری تھی کہ سندھ ہائی کورٹ کا جنگلی حیات اور کچھووں کی اسمگلنگ کے حوالے سے انتہائی اہم فیصلہ آیا اور معزز عدالت نے واضح طور پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ذمے دار ٹھیرا کر ملزمان کے خلاف قرار واقعی اقدامات کا حکم دیا۔ یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا جس نے واضح کردیا کہ اب جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے صوبوں اور وفاق دونوں کو خواب غفلت سے جاگنا ہو گا۔
اس کے لیے عدالت میں جانے والی ڈبلیو ڈبلیو ایف، شہری اور دیگر تنظیمیں مبارک باد کی مستحق ہیں اور ساتھ ہی اس کیس کے وکیل فیصل صدیقی بھی جنہوں نے بلامعاوضہ اپنی خدمات فراہم کیں۔ ساتھ ہی سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ جس نے کچھووں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے پہلی بار کچھووں کے تحفظ کے قوانین برائے 2014 نہ صرف تیار کیے بل کہ انہیں صوبے میں نافذ کرکے دیگر صوبوں سے سبقت حاصل کرلی۔
یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ اس روز منعقد ہونے والی مذکورہ تقریب بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کے زیراہتمام ایشیائی سطح پر منعقدہ دو روزہ سمپوزیم تھا، جو جنگلی حیات کو لاحق خطرات اور پاکستان میں خصوصا کچھووں کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ کے حوالے سے ہی منعقد کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں ملکی اور غیرملکی ماہرین ماحولیات و جنگلی حیات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ عدالت کے اس فیصلے کو غیرملکی ماہرین ماحولیات نے بھی سراہا اور اسے ایک سنگ میل قرار دیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے اس فیصلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ صاف ستھرے ماحول میں زندگی گزارنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ایک مکمل ماحول انسان، جنگلات اور جنگلی حیات کے بقائے باہم سے وجود میں آتا ہے۔
عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھووں کے پے در پے اسمگلنگ کے واقعات صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے انتظامات کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔
فاضل بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کچھووں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے موثر اقدامات کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کچھووں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کسٹم ایکٹ 1969 کے تحت کارروائی کی جائے۔ ان ملزمان کے خلاف چاہے وہ عام فرد ہوں یا سرکاری اہل کار، افسران کے خلاف تحقیقات کر کے فوجداری مقدمات چلائے جائیں۔
پاکستان کے مختلف شہروں سے گذشتہ برسوں میں کچھووں کی بیرون ملک اسمگلنگ کے کئی کیس سامنے آچکے ہیں۔ یہ کچھوے پاکستان سے نیپال، چین، ہانگ کانگ اور دیگر ایشیائی ممالک میں اسمگل کیے جاتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کچھووں کی غیرقانونی تجارت کا اہم چینل بن چکا ہے۔
چند ماہ قبل تقریباً 200 سے زاید میٹھے پانی کے زندہ کچھوے چین کی سرحد پر اسمگل ہوتے ہوئے پکڑے گئے تھے، جنہیں بعد ازاں چین نے ایک خصوصی تقریب میں پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب اتنی بڑی تعداد میں زندہ کچھوے اسمگل کیے جارہے تھے۔ ورنہ اس سے پہلے کچھووں کے گوشت کی اسمگلنگ ہوتی تھی اور اب صرف چند ماہ بعد ہی انٹرنیشنل کنٹینرٹرمینل پر4,243 مردہ کچھوے پکڑے گئے ۔
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسمگلروں کے پاس میرین فشریز ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکٹ موجود تھا کہ یہ کچھوے نہیں مچھلی ہیں۔ ان پکڑے جانے والے 4 ہزار سے زاید کچھووں کی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں قیمت 61 کروڑ بنتی ہے۔ اس کے بعد کراچی ایئرپورٹ کے کسٹم حکام نے میٹھے پانی کے کالے دھبے والے 220 کچھووں کی غیرقانونی اسمگلنگ ناکام بنائی اور یہ کچھوے سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیے۔ پاکستان سے اسمگل کیے جانے والے ان کچھووں کی بین الاقوامی منڈی میں بہت مانگ ہے۔
ان کا گوشت نایاب تصور کیا جاتا ہے بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کے ترجمان غلام قادر شاہ نے بتایا کہ '' قیمتی آبی حیات سمجھے جانے والے فریش واٹر کچھووں کے غیرقانونی شکار میں اندرون ملک بہت بڑی مافیا سرگرم ہے۔'' ان کے بقول پاکستان سے باہر بھی بہت بڑا غیرقانونی نیٹ ورک موجود ہے جو ان کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔ حکومت پاکستان کے قانون کے مطابق جانوروں کی غیرقانونی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان پر 50 لاکھ روپے تک کا جرمانہ عاید کیا جاسکتا ہے، جب کہ چین میں اس جرم کی سزا قید ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی عظمیٰ نورین کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس کی باقاعدہ سماعت عدالت میں ہوئی ہے۔ عدالت کو یہ بتایا گیا کہ آبی حیات کی غیرقانونی اسمگلنگ ایک بین الاقوامی اہمیت کا معاملہ ہے، جس کے لیے سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سے کچھووں کی اسمگلنگ ان کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے بڑھ گئی ہے اور ایسے کئی کیس سامنے آچکے ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے کنزرویٹرجاوید مہر نے میٹھے پانی کے کچھووں کے حوالے سے بتایا کہ اگرچہ محکمہ جنگلی حیات یا کسی غیرسرکاری ادارے کے پاس پاکستان میں میٹھے پانی کے کچھووں کی درست تعداد کے اعدادوشمار موجود نہیں ہیں، تاہم انڈس ریور سسٹم میں کسی زمانے میں ان کچھووں کی بہتات ہوتی تھی، لیکن ان کے بے دریغ شکار، دریا میں شہروں سے نکاسی آب سے بڑھنے والی آلودگی اور کہیں کہیں پانی کی سطح کم ہوجانے کی وجہ سے ان کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
بے دریغ شکار اور فطری مساکن کی تباہی نے میٹھے پانی کی کچھووں کی انواع کو شدید خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ اس لیے اس کی پوری نوع کو عالمی پیانے پر خطرے میں گھری ہوئی نوع قرار دیا جاچکا ہے۔
پاکستان میں سندھ ایکٹ برائے تحفظ جنگلی حیات کے تحت ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ پاکستان خطرے میں مبتلا انواع کی بین الاقوامی تجارت کے کنونشن Convention on International Trade in Endangered Species of Wild Flora and Fauna ( CITES) پر دستخط کنندگان میں ایک ہے۔
جس کے تحت ان کچھووں یا ان سے متعلق پیداواری اشیا کی تجارت اور برآمد پر پابندی ہے۔اس معاہدے (CITES) کے مطابق ا سمگلنگ کے دوران ضبط کی گئی جنگلی اور آبی حیات کو اپنے ہی علاقوں میں چھوڑنا لازمی ہے (مخدوش انواع کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق اس معاہدے پر پاکستان نے 1975 میں دستخط کیے تھے) اگرچہ اب بھی پاکستان میں اس پر سختی سے عمل نہیں ہورہا۔
تاہم اس پابندی سے خطرے سے دوچار انواع کی برآمد پر تھوڑا بہت اثر ضرور پڑا ہے اور ملک میں حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے مثبت تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ اب کچھووں کے تحفظ کے قوانین برائے 2014 بھی صوبے بھر میں نافذ ہوچکے ہیں۔ اس سے حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔
٭آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں، اس کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جائیں ؟
اس حوالے سے جاوید مہر نے انتہائی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے بتایا کہ جب تک گھر کے بھیدی شامل نہ ہوں گھر میں چوری نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے اپنے محکمے کے نچلی سطح کے ملازمین اس جرم میں ملوث ہیں۔ ہمارے پاس بہت سی معلومات پہلے سے بھی موجود تھیں اور اب اس نیٹ ورک کے سارے سِرے سامنے آچکے ہیں۔
ضلع سانگھڑ، سکھر، لاڑکانہ، ٹھٹھہ، قنبر، شہدادکوٹ اور ڈی آئی جی خان وغیرہ میں یہ نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے۔ سندھ میں رہنے والے بھیل، بھاگڑی اور مچھیرے ان کچھووں کو پکڑ کر جمع کرتے ہیں اور جب مطلوبہ تعداد جمع ہوجاتی ہے تو پھر محکمے کے ان لوگوں کو اطلاع کرتے ہیں جو اس کام میں شریک ہوتے ہیں۔
محکمے کے یہ ملازم وردی میں ملبوس ہوتے ہیں، لہٰذا ان پر کوئی شک نہیں کرتا ہے اور وہ چیکنگ سے بہ آسانی گزر جاتے ہیں۔جاوید مہر نے مزید کہا کہ یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ یہ نیٹ ورک صرف صوبہ سندھ تک محدود نہیں ہے۔ چوںکہ اسمگل کیے جانے والے کچھوے زیادہ تر کراچی ایئرپورٹ یا پورٹ پر پکڑے جاتے ہیں اس لیے ایسا لگتا ہے کہ صرف سندھ میں یہ عمل جاری ہے۔
یہ کچھوے دوسرے صوبوں سے بھی پکڑے جاتے ہیں۔جاوید مہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسمگلنگ اور شکار کے اس غیرقانونی جرم کے باعث ان کچھووں کی 90% نسل ختم ہوچکی ہے۔ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ کارخانۂ قدرت میں ان جان داروں کا کیا مقام ہے۔ یہ فطرت کے خاکروب ہیں۔ پانی میں کوئی بھی جان دار مرجائے یہ اسے کھا کر پانی کو آلودہ ہونے سے بچاتے ہیں۔
پچھلی ایک دہائی سے ان معصوم کچھووں کی نسل کشی میں بہت تیزی آئی ہے اور آپ دیکھ لیں کہ اسی ایک دہائی میں پانی کی آلودگی بہت بڑھ گئی ہے اور ساتھ ہی بیماریاں بھی۔پاکستان میں میٹھے پانی کے کچھووں کی 6 انواع پائی جاتی ہیں، جن میں تین سخت خول والے اور تین نرم خول والی نواع ہیں۔ چوں کہ یہ حلال نہیں ہیں لہٰذا پاکستان میں انہیں نہیں کھایا جاتا، لیکن انہیں برآمد کرنے کے لیے شکار کیا جاتا ہے۔ یہ باہر کے ممالک خصوصاً چین میں فوڈ آئٹمز میں استعمال ہوتے ہیں۔
پاکستان میں کچھووں کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے یہاں ہم وفاقی وزیربرائے موسمیاتی تبدیلی ( Climate Change) مشاہد اﷲ خاں کو ضرور سراہیں گے کہ انہوں نے واضح کیا کہ کچھووں کی اسمگلنگ میں متعلقہ محکموں کے جن اہل کاروں نے یہ جعلی سرٹیفکٹ دیے ہیں ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔
پاکستان میں حیات کی رنگا رنگی
پاکستان کی سرزمین سنہری ساحلوں سے برفانی پہاڑی چوٹیوں تک حیات کی رنگا رنگی اور دل کش مناظر سے آراستہ ہے۔ اپنے انتہائی متنوع جغرافیے اور موسمی حالات کی بنا پر پاکستان11 جغرافیائی، 10زرعی ماحولیاتی اور9 بڑے ماحولیاتی زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پاکستان حیاتیاتی تنوع سے مالا مال ہے۔ اس میں موجود گوناگوں ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام جان داروں کی وسیع انواع کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں ممالیہ کی 174انواع موجودہیں، جن میں دریائے سندھ کی ڈولفن، برفانی چیتا، بلوچستانی ریچھ، مارکو پولو بھیڑ، اڑنے والی اونی گلہری، فن وہیل اور مارخورشامل ہیں، جب کہ 668 اقسام کے مقامی اور نقل مکانی کرنے والے پرندے اس کی فضا میں چہچہاتے ہیں۔
177رینگنے والی (خزندے) اقسام، جن میں 88 چھپکلیاں، 72سانپ، 10کچھوے(2سمندری)، ایک مگر مچھ اور ایک گھڑیال اور جل تھلیوں کی22ایسی اقسام شامل ہیں جو پانی اور خشکی دونوں پر چلتی ہیں۔ پاکستان مختلف النوع مقامی فصلوں کے ساتھ ساتھ ایک اندازے کے مطابق کاشت کیے گئے پودوں کے 3ہزار اقسام سے مالا مال ہے۔
یہاں کاشت کی جانے والی فصلوں کے 5سو متعلقین بھی ہیں، جن میں زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بھینس کی 2نسلیں،گائے کی 8،یاک کی ایک ،بکری کی 25، بھیڑ کی 28، گھوڑے کی ایک، اونٹ کی 4 اور مقامی مرغی کی 3 نسلیں یا اقسام بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں آج حیاتیاتی تنوع کو لاحق خطرات کے حوالے سے سب سے بڑی تشویش حیاتیاتی تنوع کا مسلسل نقصان، خستہ حالی اور حیاتیاتی تنوع کی تنزلی اور اس کے قدرتی ٹھکانوں کی تباہی ہے۔
جنگلات، چراہ گاہیں، میٹھے پانی کے وسائل، دریائی اور سمندری ماحولیاتی نظام ان میں پائی جانے والی انواع غرض یہ کہ ہر شے تنزلی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ایسی ہی تشویش جانوروں اور پودوں کی آبائی اقسام میں مسلسل کمی کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ کچھ اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں،کچھ بین الاقوامی خطرے کا شکار ہیں اور کئی انواع قومی سطح پر خطرات سے دوچار ہیں۔
پاکستان کے لیے حیاتیاتی تنوع کا ایکشن پلان اقسام کے نقصان کی ایک اچھی مثال پیش کرتا ہے۔ گذشتہ چار سو سال میں پاکستان کے علاقے سے کم سے کم 4 ممالیہ اقسام کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ غائب ہوگئی ہیں۔
ان میں ٹائیگر (پنتھرو ٹائیگر) دلدلی ہرن، شیر اور بھارت کا ایک سینگ والا گینڈا شامل ہیں۔ مزید دو اقسام حالیہ عشروں میں ممکنہ طور پر معدوم ہورہی ہیں۔ ایشیاٹک چیتا، کالی بطخ اور مختلف جانوروں کے نرکو مقامی طور پر ختم ہوجانے والی اقسام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جب کہ ایشیا ٹک جنگلی گدھے کے پاکستان میں معدوم ہوجانے کا خطرہ موجود ہے۔