ماحولیاتی عجوبہ ہنڈوراس کے جنگل میں گم شدہ شہر کی دریافت
ایک حقیقت ہے کہ وائٹ سٹی جانے والے شوقین کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے
لاہور:
یہ اس وقت کی بات ہے جب وسطی امریکا کے ملک ہنڈوراس کے جنگل میں قدیم تاریخ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی ایک ٹیم لیجینڈری ''وائٹ سٹی'' کی تلاش اور کھوج میں مصروف تھی کہ انہیں ایک بڑی کامیابی مل گئی۔
وائٹ سٹی کے بارے میں قدیم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں چوں کہ بندر کی پوجا ہوتی تھی، اس لیے اسے ''بندر والا شہر'' کا نام بھی دیا گیا، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وائٹ سٹی جانے والے شوقین کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے۔بہرحال ہم ذکر کررہے تھے کہ ہنڈوراس کے جنگل میں مصروف ماہرین اپنی اس مہم کے دوران بڑی سرگرمی سے کسی اہم دریافت کی تلاش میں تھے کہ ان لوگوں کو اس سے بھی زیادہ اہم ترین چیز مل گئی، یہ ایک گم شدہ شہرنہیں بلکہ پوری ایک گم نام تہذیب تھی۔
جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہ وسطی امریکا کی وہ تہذیب ہے جس کے بارے میں غالباً لوگوں کو اور بالخصوص ماہرین کو اب پتا چلا ہے۔اس دریافت کی کہانی 2012 میں اس وقت شروع ہوئی جب ماہرین ہنڈوراس کی ایک دور افتادہ وادی La Mosquitia کا ایک فضائی سروے کررہے تھے کہ انہیں وہاں قدیم کھنڈرات کے کچھ مدھم سے آثار دکھائی دیے۔ یہ آثار ایک pre-Columbian شہر کے تھے۔ اس موقع پر کچھ ماہرین نے یہ خیال پیش کیا کہ یہ کھنڈرات قدیم ترین اور لیجینڈری ''وائٹ سٹی'' کا حصہ ہوسکتے ہیں۔
اس حوالے سے نیشنل گرافک نے یہ رپورٹ پیش کی تھی:''لگ بھگ سو سال تک ارضیاتی اور تاریخی ماہرین وائٹ سٹی کے گم شدہ شہر کی فصیل کی کہانیاں سناتے رہے تھے۔ ماہرین نے یہ فصیل اپنے تحقیقی اور فضائی سروے کے دوران بلندی سے دیکھی تھی، بعض نباتات اور گھنے درختوں، جھاڑیوں میں سے یہ فصیل ابھری ہوئی نظر آتی تھی۔
اس موقع پر ماہرین نے متعدد بار اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ یہ وائٹ سٹی کی فصیل ہے۔ اس کے علاوہ متعدد مقامی لوگ ''وائٹ ہاؤس'' یا ''کوکو کا گھر'' کی کہانیاں بھی بیان کرتے تھے جہاں ریڈ انڈینز نے اس وقت پناہ لی تھی جب اسپین کو فتح کرنے والوں نے اس خطے پر دھاوا بولا تھا۔یہ ایک پراسرار سی جنت نظیر جگہ تھی جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں جانے والا کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا۔''اس کے باوجود ''وائٹ سٹی'' کے بالکل صحیح مقام کی کبھی تصدیق نہیں کی جاسکی۔ جو کچھ بھی کہا گیا، وہ محض اندازوں کی بنیاد پر کہا گیا۔
٭ ایک گم شدہ شہر:
Mosquitia نامی مقام کے درخت بے حد گھنے ہیں جن کے ساتھ ہی جنگل کا ایک وسیع علاقہ بھی ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں ایک قدیم تہذیب کے کھنڈرات موجود ہیں۔ ہنڈوراس کی حکومت کی مدد اور تعاون سے ایک ٹیم نے حال ہی میں ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد اس پورے علاقے کا سروے کرنا اور یہ دریافت کرنا تھا کہ آیا اس مقام پر وہی قدیم وائٹ سٹی ہے یا نہیں ہے۔
اس مہم جوئی کے جو نتائج سامنے آئے، انہوں نے ماہرین کو چونکا دیا۔نیشنل جیوگرافک نے بھی اس مہم میں اس طرح حصہ لیا کہ اپنا ایک رپورٹر اور فوٹوگرافر دیگر ماہرین کے ساتھ بھیجا جس نے یہ رپورٹ بھجوائی کہ واقعی ان لوگوں نے ایک قدیم شہر دریافت کرلیا ہے جسے اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا اور نہ کوئی اس کے بارے میں جانتا تھا۔
ماہرین ارضیات و تاریخ نے اس مقام کا سروے کرنے کے بعد بتایا کہ یہاں کبھی بہت عظیم پلازا بھی تھے، یہاں بہت بڑی پتھر اور مٹی کی فصیلیں بھی بنائی گئی تھیں، مٹی کے ٹیلے بھی تھے اور مٹی سے تیار کیا ہوا ایک اہرام بھی تھا جس کے ساتھ ساتھ ایک بے مثال اور شان دار ذخیرہ گاہ کی طرف جانے والا پوشیدہ راستہ بھی ماہرین کو دکھائی دیا۔ اس ذخیرہ گاہ میں سخت پتھروں سے تیار کردہ پچاس سے زیادہ مجسمے بھی اس مقام پر ماہرین کو ملے۔
اس مہم پر جانے والے ایک تاریخی اور ارضیاتی ماہر کرسٹوفر فشر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا:''یہ پورا مقام ہی بہت زبردست اور بالکل درست حالت میں تھا جو بلاشبہہ ایک نادر و نایاب چیز ہے۔''
ایک اندازے کے مطابق یہ مقام 1,000سے1,400 کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہنڈوراس کے Mosquitiaنامی جنگل میں 50کے قریب نہایت عمدہ قسم کی دست کاریاں بھی ملی ہیں، مگر یہ دست کاریاں کلی طور پر نہیں بلکہ جزوی طور پر ملی ہیں اور انہیں ہنڈوراس کے Mosquitia نامی اس جنگل میں کئی خفیہ مقامات پر بڑے پراسرار انداز سے چھپایا گیا تھا، جیسے یہ کوئی بہت اہم اور رازدارانہ چیزیں ہوں اور مخصوص کاموں میں استعمال ہوتی ہوں۔
ان کی یہ پراسراریت ماہرین کو بہت حیران کررہی تھی۔ زمین میں گڑی ہوئی دست کاریوں میں شان دار انداز سے تراشے ہوئے بادبانی جہاز بھی شامل تھے، جن کے ساتھ اژدہے اور ناگ کے مجسمے بھی تھے۔
اس کے علاوہ ایک بہت بڑے تیندوے (جیگوار) کا سر بھی ملا ہے۔ یہ اس دور میں ایک اساطیری یا خیالی مخلوق تھی۔ اس کا کچھ حصہ انسان سے ملتا جلتا تھا اور کچھ اژدہے سے۔ ہنڈوراس کے جنگل سے ملنے والی یہ نادر اشیا ایسے ہی اسی جگہ چھوڑ دی گئیں، مگر ان کو ریکارڈ کرلیا گیا اور ساتھ ہی ان سب کو دستاویزی شکل دے دی گئی۔
آثار قدیمہ اور قدیم تاریخ کے ماہرین ابھی اس گم شدہ شہر کی دریافت کی خوشیاں منارہے تھے کہ انہوں نے ایک اور ناقابل یقین اور انوکھا انکشاف کرڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ بات صرف اس ایک واحد گم شدہ شہر تک محدود نہیں ہے، بل کہ آثار بتارہے ہیں کہ اس علاقے یعنی Mosquitia کے جنگل میں ایسے مزید کئی گم شدہ شہر موجود ہیں جو ماضی کے گرداب میں فی الحال ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، لیکن جلد ہی ہم انہیں بھی کھوج نکالیں گے اور ساری دنیا کے سامنے پیش کردیں گے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں ان گم شدہ شہروں میں بڑی تعداد میں انسان رہتے تھے اور بڑی اچھی زندگی گزارتے تھے۔ لیکن آج یہ گوشۂ گم نامی میں جاچکے ہیں۔
تاریخی اور ارضیاتی ماہرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ گم شدہ شہر کی تہذیب کم وبیش ایک ہزار سال پرانی ہے۔ کسی زمانے میں یہ تہذیب کرۂ ارض پر جگمگاتی تھی، مگر پھر نامعلوم وجوہ کی بنا پر یکایک صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔ کیسے مٹ گئی؟ یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ لیکن فی الحال ہمارے لیے یہ کلچر اور تہذیب نامعلوم ہے، یہاں تک کہ ہم کوشش کے باجود اس قدیم تہذیب کا نام تک معلوم نہیں کرسکے ہیں۔
تاریخی اور ارضیاتی ماہر کرسٹوفر فشر کا یہ بھی کہنا ہے:''ہمارے لیے اس گم شدہ شہر کی دریافت ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس سے یقینی طور پر ہمیں اس شان دار علاقے کے بارے میں بھی معلوم ہوگا اور ہم اس کی تاریخ بھی جان سکیں گے۔
اس سائٹ کو دریافت کیا جاچکا ہے اور اس کی دستاویزی رپورٹ بھی تیار کی جاچکی ہے اور ہر طرح سے اس کی توثیق ہوچکی ہے کہ واقعی یہ ایک اہم دریافت ہے جس سے وابستہ بہت سے پہلو ہنڈوراس کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے لاطینی امریکا میں کولمبیا سے پہلے گزرے معاشروں pre-Columbian societies کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوسکیں گی۔''
کرسٹوفر فشر نے مزید بتایا کہ ہمیں اس ضمن میں پوری توجہ اور دل جمعی کے ساتھ مزید اور بھرپور ریسرچ کرنی ہوگی، تاکہ اس گم شدہ تہذیب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جاسکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی ٹیم کو پوری امید ہے کہ وہ جلد ہی اس خطے یعنی Mosquitia کے جنگل میں میں آرکیولوجیکل اور ایکولوجیکل ریسرچ کا ایک طویل المدت پروگرام شروع کرے گی اور بہت جلد اس گم شدہ شہر کو منظر عام پر لے آئے گی۔
جب کرسٹوفر فشر سے یہ سوال کیا گیا کہ ''آپ کی نظر میں وہ کیا سبب ہوسکتا ہے جس نے اتنی زبردست تہذیب کو دنیا سے مٹادیا؟'' تو انہوں نے جواب دیا:''میرے خیال میں اس کا ایک ہی ممکنہ سبب ہوسکتا ہے اور وہ ہے یورپ سے آنے والی کوئی وبائی بیماری جس کا اس خطے کے رہنے والے کوئی علاج تلاش نہیں کرسکے اور وہ رفتہ رفتہ اس کا شکار ہوتے چلے گئے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدیم دنیا کی یہ مہلک اور قاتل وبا اس قدر خطرناک تھی کہ اس نے براعظم امریکا کی مقامی آبادیوں کو نیست و نابود کردیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزٹک دارالحکومت Tenochtitlanکے زوال کے بعد اس بیماری نے زور پکڑا تھا اور نہ جانے کتنے لوگوں کی جانیں لے لی تھیں۔
اس کے بعد یہ بیماری چھوت کی بیماری کی طرح پورے براعظم امریکا میں ایک سے دوسرے کو لگتی چلی گئی جس کی وجہ سے وہاں شرح اموات بہت تیزی سے بڑھتی گئی اور موت کا ناچ جاری رہا۔
ہر قدیم تہذیب کی طرح وسطی امریکا میں بھی ان واقعات نے نہایت سنگین نتائج مرتب کیے اور اسی تسلسل میں Mosquitia کے رہنے والے بھی اس مہلک بیماری کی لپیٹ میں آگئے اور اپنی جانوں سے گئے۔''
کرسٹوفر فشر زور دیتے ہیں کہ زیر بحث کلچر کی افسوس ناک موت کے دیگر اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سماجی یا معاشرتی تباہی، ماحولیاتی مسائل اور تنازعات نے بھی یقینی طور پر اس قدیم تہذیب کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا ہوگا۔
اس مہم جوئی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی گم شدہ شہر کی دریافت کو ایک طرف تو کلچرل سنگ میل قرار دیا جارہا ہے، دوسری جانب اسے ماحولیات کے حوالے سے بھی بہت بڑی کام یابی گردانا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ اس ساری مہم جوئی اور ریسرچ کے قائد معروف تاریخ داں کرسٹوفر فشر کا تعلق کولوراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی سے ہے۔ یہ مہم جوئی کس طرح شروع ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب فشر کا آمنا سامنا ہنڈوراس کے جنگل میں موجود ایک اسپائیڈر منکی (بندر کی ایک نسل) سے ہوا تو وہ سمجھ گئے کہ یہ بہت اہم جگہ ہے جہاں سے ان کی ٹیم کو اہم کام یابی مل سکتی ہے۔
دراصل وہ بندر یہ سمجھ رہا تھا کہ فشر اس کے علاقے میں دخل اندازی کرکے اس جگہ کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو مذکورہ بندر نے درخت سے الٹی سیدھی چھلانگیں مارکر اپنے غصے کا اظہار کیا اور فشر کو یہ جتایا کہ وہ اپنے علاقے میں ان کی دخل اندازی برداشت نہیں کرے گا۔
فشر نے بتایا:''وہ بندر مجھ پر چیخ رہا تھا اور میرے اوپر درختوں کی شاخیں اور پتے توڑ توڑ کر پھینک رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں اس کی حکومت سے دور چلا جاؤں۔ دراصل ان بندروں نے کئی صدیوں کے تجربے کے دوران جبلی طور پر یہ سمجھ لیا ہوگا کہ ان کا (بندروں کا) سب سے بڑا دشمن انسان ہے اور اس سے بچنا بہت ضروری ہے، بل کہ اسے اپنے علاقے میں آنے نہیں دینا۔ شاید اسی لیے اس نے مجھے اپنے سامنے دیکھ کر احتجاج کیا ہوگا۔
یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کے بہت سے علاقے اور خاص طور سے جنگلات ایسے ہیں جہاں بندروں نے کبھی کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی ہوگی، اسی لیے جب اس بندر نے مجھے وہاں دیکھا تو مشتعل ہوگیا اور مجھے روکنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ میرے بڑھتے ہوئے قدم اس کے خطے میں مداخلت بے جا ہیں، مجھے اس کا اندازہ ہوگیا تھا، اس لیے میں رک گیا۔''
آثار قدیمہ اور قدیم تاریخ و ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے:''ہم نے ایک کام تو مکمل کرلیا کہ ایک قدیم اور گم شدہ شہر کا پتا نکال لیا، اس کام یابی کے بعد ہمیں بے فکر ہونے یا اپنی کام یابی پر جشن منانے کے بجائے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس نادر خزانے کو ممکنہ لوٹ مار سے بچانے کے لیے سختی سے اس کی پہرے داری اور حفاظت کرنی ہوگی، بصورت دیگر نوادرات کے چور انہیں لے اڑیں گے اور ہم ایک اہم اور تاریخی خزانے سے محروم ہوجائیں گے۔ ''
دوسری طرف اس ریسرچ کے قائد کرسٹوفر فشر کا یہ بھی کہنا ہے:''اس سائٹ کی تاریخی اہمیت تو اپنی جگہ ہے، لیکن اس کی ماحولیاتی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ اب ہمارے پیش نظر یہ بات ہے کہ ہم نے ایک قدیم تاریخی خزانہ دریافت تو کرلیا ہے، مگر اب ہمارا پہلا اور اہم فرض یہ ہے کہ اس کی حفاظت کریں، اسے سنبھال کر رکھیں۔''
بلاشبہہ وسطی امریکا کے ملک ہنڈوراس میں ایک قدیم اور گم شدہ شہر کی دریافت ایک بہت بڑا کارنامہ ہے، بلکہ ماہرین کے مطابق یہ شہر ایک آدھ نہیں بلکہ کئی ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کام کو ترجیحی بنیادوں پر ٹھوس انداز سے کیا جائے اور نتائج جلد از جلد دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ یہ قدیم اور گم شدہ شہر کیسا تھا، اس میں بسنے والے کیسے تھے اور وہ کیا کرتے تھے؟
یہ اس وقت کی بات ہے جب وسطی امریکا کے ملک ہنڈوراس کے جنگل میں قدیم تاریخ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی ایک ٹیم لیجینڈری ''وائٹ سٹی'' کی تلاش اور کھوج میں مصروف تھی کہ انہیں ایک بڑی کامیابی مل گئی۔
وائٹ سٹی کے بارے میں قدیم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں چوں کہ بندر کی پوجا ہوتی تھی، اس لیے اسے ''بندر والا شہر'' کا نام بھی دیا گیا، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وائٹ سٹی جانے والے شوقین کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے۔بہرحال ہم ذکر کررہے تھے کہ ہنڈوراس کے جنگل میں مصروف ماہرین اپنی اس مہم کے دوران بڑی سرگرمی سے کسی اہم دریافت کی تلاش میں تھے کہ ان لوگوں کو اس سے بھی زیادہ اہم ترین چیز مل گئی، یہ ایک گم شدہ شہرنہیں بلکہ پوری ایک گم نام تہذیب تھی۔
جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہ وسطی امریکا کی وہ تہذیب ہے جس کے بارے میں غالباً لوگوں کو اور بالخصوص ماہرین کو اب پتا چلا ہے۔اس دریافت کی کہانی 2012 میں اس وقت شروع ہوئی جب ماہرین ہنڈوراس کی ایک دور افتادہ وادی La Mosquitia کا ایک فضائی سروے کررہے تھے کہ انہیں وہاں قدیم کھنڈرات کے کچھ مدھم سے آثار دکھائی دیے۔ یہ آثار ایک pre-Columbian شہر کے تھے۔ اس موقع پر کچھ ماہرین نے یہ خیال پیش کیا کہ یہ کھنڈرات قدیم ترین اور لیجینڈری ''وائٹ سٹی'' کا حصہ ہوسکتے ہیں۔
اس حوالے سے نیشنل گرافک نے یہ رپورٹ پیش کی تھی:''لگ بھگ سو سال تک ارضیاتی اور تاریخی ماہرین وائٹ سٹی کے گم شدہ شہر کی فصیل کی کہانیاں سناتے رہے تھے۔ ماہرین نے یہ فصیل اپنے تحقیقی اور فضائی سروے کے دوران بلندی سے دیکھی تھی، بعض نباتات اور گھنے درختوں، جھاڑیوں میں سے یہ فصیل ابھری ہوئی نظر آتی تھی۔
اس موقع پر ماہرین نے متعدد بار اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ یہ وائٹ سٹی کی فصیل ہے۔ اس کے علاوہ متعدد مقامی لوگ ''وائٹ ہاؤس'' یا ''کوکو کا گھر'' کی کہانیاں بھی بیان کرتے تھے جہاں ریڈ انڈینز نے اس وقت پناہ لی تھی جب اسپین کو فتح کرنے والوں نے اس خطے پر دھاوا بولا تھا۔یہ ایک پراسرار سی جنت نظیر جگہ تھی جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں جانے والا کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا۔''اس کے باوجود ''وائٹ سٹی'' کے بالکل صحیح مقام کی کبھی تصدیق نہیں کی جاسکی۔ جو کچھ بھی کہا گیا، وہ محض اندازوں کی بنیاد پر کہا گیا۔
٭ ایک گم شدہ شہر:
Mosquitia نامی مقام کے درخت بے حد گھنے ہیں جن کے ساتھ ہی جنگل کا ایک وسیع علاقہ بھی ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں ایک قدیم تہذیب کے کھنڈرات موجود ہیں۔ ہنڈوراس کی حکومت کی مدد اور تعاون سے ایک ٹیم نے حال ہی میں ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد اس پورے علاقے کا سروے کرنا اور یہ دریافت کرنا تھا کہ آیا اس مقام پر وہی قدیم وائٹ سٹی ہے یا نہیں ہے۔
اس مہم جوئی کے جو نتائج سامنے آئے، انہوں نے ماہرین کو چونکا دیا۔نیشنل جیوگرافک نے بھی اس مہم میں اس طرح حصہ لیا کہ اپنا ایک رپورٹر اور فوٹوگرافر دیگر ماہرین کے ساتھ بھیجا جس نے یہ رپورٹ بھجوائی کہ واقعی ان لوگوں نے ایک قدیم شہر دریافت کرلیا ہے جسے اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا اور نہ کوئی اس کے بارے میں جانتا تھا۔
ماہرین ارضیات و تاریخ نے اس مقام کا سروے کرنے کے بعد بتایا کہ یہاں کبھی بہت عظیم پلازا بھی تھے، یہاں بہت بڑی پتھر اور مٹی کی فصیلیں بھی بنائی گئی تھیں، مٹی کے ٹیلے بھی تھے اور مٹی سے تیار کیا ہوا ایک اہرام بھی تھا جس کے ساتھ ساتھ ایک بے مثال اور شان دار ذخیرہ گاہ کی طرف جانے والا پوشیدہ راستہ بھی ماہرین کو دکھائی دیا۔ اس ذخیرہ گاہ میں سخت پتھروں سے تیار کردہ پچاس سے زیادہ مجسمے بھی اس مقام پر ماہرین کو ملے۔
اس مہم پر جانے والے ایک تاریخی اور ارضیاتی ماہر کرسٹوفر فشر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا:''یہ پورا مقام ہی بہت زبردست اور بالکل درست حالت میں تھا جو بلاشبہہ ایک نادر و نایاب چیز ہے۔''
ایک اندازے کے مطابق یہ مقام 1,000سے1,400 کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہنڈوراس کے Mosquitiaنامی جنگل میں 50کے قریب نہایت عمدہ قسم کی دست کاریاں بھی ملی ہیں، مگر یہ دست کاریاں کلی طور پر نہیں بلکہ جزوی طور پر ملی ہیں اور انہیں ہنڈوراس کے Mosquitia نامی اس جنگل میں کئی خفیہ مقامات پر بڑے پراسرار انداز سے چھپایا گیا تھا، جیسے یہ کوئی بہت اہم اور رازدارانہ چیزیں ہوں اور مخصوص کاموں میں استعمال ہوتی ہوں۔
ان کی یہ پراسراریت ماہرین کو بہت حیران کررہی تھی۔ زمین میں گڑی ہوئی دست کاریوں میں شان دار انداز سے تراشے ہوئے بادبانی جہاز بھی شامل تھے، جن کے ساتھ اژدہے اور ناگ کے مجسمے بھی تھے۔
اس کے علاوہ ایک بہت بڑے تیندوے (جیگوار) کا سر بھی ملا ہے۔ یہ اس دور میں ایک اساطیری یا خیالی مخلوق تھی۔ اس کا کچھ حصہ انسان سے ملتا جلتا تھا اور کچھ اژدہے سے۔ ہنڈوراس کے جنگل سے ملنے والی یہ نادر اشیا ایسے ہی اسی جگہ چھوڑ دی گئیں، مگر ان کو ریکارڈ کرلیا گیا اور ساتھ ہی ان سب کو دستاویزی شکل دے دی گئی۔
آثار قدیمہ اور قدیم تاریخ کے ماہرین ابھی اس گم شدہ شہر کی دریافت کی خوشیاں منارہے تھے کہ انہوں نے ایک اور ناقابل یقین اور انوکھا انکشاف کرڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ بات صرف اس ایک واحد گم شدہ شہر تک محدود نہیں ہے، بل کہ آثار بتارہے ہیں کہ اس علاقے یعنی Mosquitia کے جنگل میں ایسے مزید کئی گم شدہ شہر موجود ہیں جو ماضی کے گرداب میں فی الحال ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، لیکن جلد ہی ہم انہیں بھی کھوج نکالیں گے اور ساری دنیا کے سامنے پیش کردیں گے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں ان گم شدہ شہروں میں بڑی تعداد میں انسان رہتے تھے اور بڑی اچھی زندگی گزارتے تھے۔ لیکن آج یہ گوشۂ گم نامی میں جاچکے ہیں۔
تاریخی اور ارضیاتی ماہرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ گم شدہ شہر کی تہذیب کم وبیش ایک ہزار سال پرانی ہے۔ کسی زمانے میں یہ تہذیب کرۂ ارض پر جگمگاتی تھی، مگر پھر نامعلوم وجوہ کی بنا پر یکایک صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔ کیسے مٹ گئی؟ یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ لیکن فی الحال ہمارے لیے یہ کلچر اور تہذیب نامعلوم ہے، یہاں تک کہ ہم کوشش کے باجود اس قدیم تہذیب کا نام تک معلوم نہیں کرسکے ہیں۔
تاریخی اور ارضیاتی ماہر کرسٹوفر فشر کا یہ بھی کہنا ہے:''ہمارے لیے اس گم شدہ شہر کی دریافت ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس سے یقینی طور پر ہمیں اس شان دار علاقے کے بارے میں بھی معلوم ہوگا اور ہم اس کی تاریخ بھی جان سکیں گے۔
اس سائٹ کو دریافت کیا جاچکا ہے اور اس کی دستاویزی رپورٹ بھی تیار کی جاچکی ہے اور ہر طرح سے اس کی توثیق ہوچکی ہے کہ واقعی یہ ایک اہم دریافت ہے جس سے وابستہ بہت سے پہلو ہنڈوراس کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے لاطینی امریکا میں کولمبیا سے پہلے گزرے معاشروں pre-Columbian societies کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوسکیں گی۔''
کرسٹوفر فشر نے مزید بتایا کہ ہمیں اس ضمن میں پوری توجہ اور دل جمعی کے ساتھ مزید اور بھرپور ریسرچ کرنی ہوگی، تاکہ اس گم شدہ تہذیب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جاسکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی ٹیم کو پوری امید ہے کہ وہ جلد ہی اس خطے یعنی Mosquitia کے جنگل میں میں آرکیولوجیکل اور ایکولوجیکل ریسرچ کا ایک طویل المدت پروگرام شروع کرے گی اور بہت جلد اس گم شدہ شہر کو منظر عام پر لے آئے گی۔
جب کرسٹوفر فشر سے یہ سوال کیا گیا کہ ''آپ کی نظر میں وہ کیا سبب ہوسکتا ہے جس نے اتنی زبردست تہذیب کو دنیا سے مٹادیا؟'' تو انہوں نے جواب دیا:''میرے خیال میں اس کا ایک ہی ممکنہ سبب ہوسکتا ہے اور وہ ہے یورپ سے آنے والی کوئی وبائی بیماری جس کا اس خطے کے رہنے والے کوئی علاج تلاش نہیں کرسکے اور وہ رفتہ رفتہ اس کا شکار ہوتے چلے گئے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدیم دنیا کی یہ مہلک اور قاتل وبا اس قدر خطرناک تھی کہ اس نے براعظم امریکا کی مقامی آبادیوں کو نیست و نابود کردیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزٹک دارالحکومت Tenochtitlanکے زوال کے بعد اس بیماری نے زور پکڑا تھا اور نہ جانے کتنے لوگوں کی جانیں لے لی تھیں۔
اس کے بعد یہ بیماری چھوت کی بیماری کی طرح پورے براعظم امریکا میں ایک سے دوسرے کو لگتی چلی گئی جس کی وجہ سے وہاں شرح اموات بہت تیزی سے بڑھتی گئی اور موت کا ناچ جاری رہا۔
ہر قدیم تہذیب کی طرح وسطی امریکا میں بھی ان واقعات نے نہایت سنگین نتائج مرتب کیے اور اسی تسلسل میں Mosquitia کے رہنے والے بھی اس مہلک بیماری کی لپیٹ میں آگئے اور اپنی جانوں سے گئے۔''
کرسٹوفر فشر زور دیتے ہیں کہ زیر بحث کلچر کی افسوس ناک موت کے دیگر اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سماجی یا معاشرتی تباہی، ماحولیاتی مسائل اور تنازعات نے بھی یقینی طور پر اس قدیم تہذیب کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا ہوگا۔
اس مہم جوئی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی گم شدہ شہر کی دریافت کو ایک طرف تو کلچرل سنگ میل قرار دیا جارہا ہے، دوسری جانب اسے ماحولیات کے حوالے سے بھی بہت بڑی کام یابی گردانا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ اس ساری مہم جوئی اور ریسرچ کے قائد معروف تاریخ داں کرسٹوفر فشر کا تعلق کولوراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی سے ہے۔ یہ مہم جوئی کس طرح شروع ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب فشر کا آمنا سامنا ہنڈوراس کے جنگل میں موجود ایک اسپائیڈر منکی (بندر کی ایک نسل) سے ہوا تو وہ سمجھ گئے کہ یہ بہت اہم جگہ ہے جہاں سے ان کی ٹیم کو اہم کام یابی مل سکتی ہے۔
دراصل وہ بندر یہ سمجھ رہا تھا کہ فشر اس کے علاقے میں دخل اندازی کرکے اس جگہ کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو مذکورہ بندر نے درخت سے الٹی سیدھی چھلانگیں مارکر اپنے غصے کا اظہار کیا اور فشر کو یہ جتایا کہ وہ اپنے علاقے میں ان کی دخل اندازی برداشت نہیں کرے گا۔
فشر نے بتایا:''وہ بندر مجھ پر چیخ رہا تھا اور میرے اوپر درختوں کی شاخیں اور پتے توڑ توڑ کر پھینک رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں اس کی حکومت سے دور چلا جاؤں۔ دراصل ان بندروں نے کئی صدیوں کے تجربے کے دوران جبلی طور پر یہ سمجھ لیا ہوگا کہ ان کا (بندروں کا) سب سے بڑا دشمن انسان ہے اور اس سے بچنا بہت ضروری ہے، بل کہ اسے اپنے علاقے میں آنے نہیں دینا۔ شاید اسی لیے اس نے مجھے اپنے سامنے دیکھ کر احتجاج کیا ہوگا۔
یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کے بہت سے علاقے اور خاص طور سے جنگلات ایسے ہیں جہاں بندروں نے کبھی کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی ہوگی، اسی لیے جب اس بندر نے مجھے وہاں دیکھا تو مشتعل ہوگیا اور مجھے روکنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ میرے بڑھتے ہوئے قدم اس کے خطے میں مداخلت بے جا ہیں، مجھے اس کا اندازہ ہوگیا تھا، اس لیے میں رک گیا۔''
آثار قدیمہ اور قدیم تاریخ و ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے:''ہم نے ایک کام تو مکمل کرلیا کہ ایک قدیم اور گم شدہ شہر کا پتا نکال لیا، اس کام یابی کے بعد ہمیں بے فکر ہونے یا اپنی کام یابی پر جشن منانے کے بجائے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس نادر خزانے کو ممکنہ لوٹ مار سے بچانے کے لیے سختی سے اس کی پہرے داری اور حفاظت کرنی ہوگی، بصورت دیگر نوادرات کے چور انہیں لے اڑیں گے اور ہم ایک اہم اور تاریخی خزانے سے محروم ہوجائیں گے۔ ''
دوسری طرف اس ریسرچ کے قائد کرسٹوفر فشر کا یہ بھی کہنا ہے:''اس سائٹ کی تاریخی اہمیت تو اپنی جگہ ہے، لیکن اس کی ماحولیاتی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ اب ہمارے پیش نظر یہ بات ہے کہ ہم نے ایک قدیم تاریخی خزانہ دریافت تو کرلیا ہے، مگر اب ہمارا پہلا اور اہم فرض یہ ہے کہ اس کی حفاظت کریں، اسے سنبھال کر رکھیں۔''
بلاشبہہ وسطی امریکا کے ملک ہنڈوراس میں ایک قدیم اور گم شدہ شہر کی دریافت ایک بہت بڑا کارنامہ ہے، بلکہ ماہرین کے مطابق یہ شہر ایک آدھ نہیں بلکہ کئی ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کام کو ترجیحی بنیادوں پر ٹھوس انداز سے کیا جائے اور نتائج جلد از جلد دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ یہ قدیم اور گم شدہ شہر کیسا تھا، اس میں بسنے والے کیسے تھے اور وہ کیا کرتے تھے؟