ناراض بلوچ رہنمائوں سے رابطے کے لئے کمیٹی قائم
بی آر پی کے سربراہ نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے ان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سردار اختر مینگل کے یہ...
صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کے مابین ملاقات میں بلوچستان کے ناراض رہنمائوں سے دوبارہ رابطوں کیلئے وزیراعظم کی زیر نگرانی کمیٹی بنانے کافیصلہ کیاگیا ہے۔
اس کمیٹی میں گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی اورکابینہ کے اہم ارکان شامل ہونگے۔ یہ کمیٹی اپنی سفارشات ایک ماہ میں پیش کرے گی۔ صدر اور وزیراعظم ملاقات میں بلوچ رہنمائوں سے ایک مرتبہ پھر یہ اپیل کی گئی کہ وہ اپنی ناراضگی ختم کریں اور مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی بلوچستان کے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ حال ہی میں وفاقی کابینہ کے ارکان پر مشتمل کمیٹی نے بھی اپنی سفارشات مرتب کرکے وزیراعظم کو پیش کی ہیں تاہم ایک مرتبہ پھر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق صدر اور وزیراعظم ملاقات میں وزیراعظم کی نگرانی میں جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں گورنر بلوچستان اور وفاقی کابینہ کے اہم ارکان کو شامل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی اورانکی کابینہ کے ارکان میں سے کسی کو شامل نہ کرنے کی بات سے یہ اخذ کیا جارہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو اس حوالے سے اب ان کی ضرورت نہیں یا پھر ممکن ہے کہ اس حوالے سے ان کی کارکردگی سے صدر آصف زرداری مایوس ہوں اس لئے انہیں شامل کرنے کاعندیہ بھی نہیں دیاگیا۔صدر آصف علی زرداری نے گورنر بلوچستان کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔
اس سے قبل بھی صدر اور گورنر بلوچستان نواب مگسی کے مابین ملاقات میں اس حوالے سے بات چیت ہوچکی ہے اورصدر نے گورنر بلوچستان کو اس سلسلے میں ٹاسک بھی دیا، اب اس میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے کہ صدر آصف زرداری نے اس حوالے سے براہ راست وزیراعظم کی نگرانی میں کمیٹی تشکیل دی، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا؟سیاسی حلقوں کے مطابق بی این پی مینگل کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اخترجان مینگل کی پاکستان آمد،سپریم کورٹ میں اپنا بیان قلمبند کرانے اورپھر بعض اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں پھر واپس بیرون ملک روانگی کے بعد ان کے6نکات پر صوبے کی بعض بلوچ قوم پرست جماعتوں نے سخت تنقید کی ہے۔
بی آر پی کے سربراہ نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے ان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سردار اختر مینگل کے یہ چھ نکات بلوچوں کے لئے بے معنی ہیں۔ بلوچ اب صرف آزادی اورصرف آزادی کے یک نکاتی ایجنڈے پر کسی سے بھی بات کرنے کو تیار نہیں ادھر جے ڈبلیو پی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی نے مسلم لیگ(ن) کے سربراہ وسابق وزیراعظم میاں نوازشریف، جماعت اسلامی کے امیر منورحسن اورجماعت اہلحدیث کے امیر ساجد میر سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ہیں۔ نوازشریف سے ملاقات میں دونوں رہنمائوں نے اس بات پر اتفاق کیاکہ بلوچستان کے مسائل کا حل شفاف انتخابات ہیں۔
ملاقات میں جے ڈبلیو پی اور مسلم لیگ(ن) کے مابین آئندہ انتخابات کے حوالے سے اتحاد پر بھی بات چیت کی گئی۔ جبکہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن اورجماعت اہلحدیث کے امیر ساجدمیر نے نوابزادہ طلال اکبر بگٹی سے ملاقات میں انہیں یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ بلوچستان کے مسائل کے حل میں ہر ممکن تعاون کریں گے۔ دوسری جانب بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ صوبے کے مخصوص علاقوں میں آپریشن اورمظالم جاری ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ سوراب گدر میں سکیورٹی فورسز نے آپریشن تیز کردیا ہے۔
گن شپ ہیلی کاپٹرزاستعمال ہورہے ہیں اورمعصوم بچوں سمیت خواتین جاں بحق ہوئی ہیں، مسخ شدہ لاشیں تسلسل کے ساتھ پھینکی جارہی ہیں۔ یہ آپریشن سوراب گدر کے علاوہ ڈیرہ بگٹی کوئٹہ سمیت مختلف علاقوں میں کئے جارہے ہیں جوکہ حکومتی عہدیداران کے منہ پر طمانچہ ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے صوبے کی قوم پرست جماعتوں کے اس دعوے کو یکسر مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ میں یہ واضح الفاظ میں کہتاہوں کہ بلوچستان میں کہیں بھی آپریشن نہیں ہورہا۔اس حوالے سے کئے جانے والے پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایف سی کو صوبے میں امن وامان برقرار رکھنے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔بلوچستان کے بگڑتے حالات کے تناظر میں جماعت اسلامی بلوچستان کے زیر اہتمام نمائندہ سیاسی وقبائلی جرگہ کے انعقاد کے لئے اجلاس منعقد کیاگیا جس میں پشتون قومی جرگہ کے کنوینئر نواب ایاز خان جوگیزئی، حافظ حسین احمد، ڈاکٹر اسحاق بلوچ، کمانڈر خدائیداد خان، مولانا عبدالقادر لونی، ملک ذکریا کاسی، عبدالمتین اخوندزادہ، مولانا علی ابوتراب اور دیگر نے شرکت کی۔ نمائندہ جرگہ میں سیاسی جماعتوں اور قبائلی شخصیات کے ساتھ ساتھ مختلف طبقات علماء کرام، تاجروں، زمینداروں، ڈاکٹروں ، وکلاء مائن اونرز، طلباء اور اساتذہ کے اشتراک کے ساتھ بھرپور اورپرامن جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس سلسلے میں صوبے کی دیگر جماعتوں سے مذاکرات اورنمائندہ جرگہ میں شرکت ومعاونت کے لئے ڈاکٹر اسحاق بلوچ کی سربراہی میں رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ رابطہ کمیٹی نے نمائندہ سیاسی وقبائلی جرگے کے انعقاد کے لئے اپنے رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔
اس کمیٹی میں گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی اورکابینہ کے اہم ارکان شامل ہونگے۔ یہ کمیٹی اپنی سفارشات ایک ماہ میں پیش کرے گی۔ صدر اور وزیراعظم ملاقات میں بلوچ رہنمائوں سے ایک مرتبہ پھر یہ اپیل کی گئی کہ وہ اپنی ناراضگی ختم کریں اور مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی بلوچستان کے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ حال ہی میں وفاقی کابینہ کے ارکان پر مشتمل کمیٹی نے بھی اپنی سفارشات مرتب کرکے وزیراعظم کو پیش کی ہیں تاہم ایک مرتبہ پھر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق صدر اور وزیراعظم ملاقات میں وزیراعظم کی نگرانی میں جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں گورنر بلوچستان اور وفاقی کابینہ کے اہم ارکان کو شامل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی اورانکی کابینہ کے ارکان میں سے کسی کو شامل نہ کرنے کی بات سے یہ اخذ کیا جارہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو اس حوالے سے اب ان کی ضرورت نہیں یا پھر ممکن ہے کہ اس حوالے سے ان کی کارکردگی سے صدر آصف زرداری مایوس ہوں اس لئے انہیں شامل کرنے کاعندیہ بھی نہیں دیاگیا۔صدر آصف علی زرداری نے گورنر بلوچستان کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔
اس سے قبل بھی صدر اور گورنر بلوچستان نواب مگسی کے مابین ملاقات میں اس حوالے سے بات چیت ہوچکی ہے اورصدر نے گورنر بلوچستان کو اس سلسلے میں ٹاسک بھی دیا، اب اس میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے کہ صدر آصف زرداری نے اس حوالے سے براہ راست وزیراعظم کی نگرانی میں کمیٹی تشکیل دی، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا؟سیاسی حلقوں کے مطابق بی این پی مینگل کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اخترجان مینگل کی پاکستان آمد،سپریم کورٹ میں اپنا بیان قلمبند کرانے اورپھر بعض اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں پھر واپس بیرون ملک روانگی کے بعد ان کے6نکات پر صوبے کی بعض بلوچ قوم پرست جماعتوں نے سخت تنقید کی ہے۔
بی آر پی کے سربراہ نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے ان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سردار اختر مینگل کے یہ چھ نکات بلوچوں کے لئے بے معنی ہیں۔ بلوچ اب صرف آزادی اورصرف آزادی کے یک نکاتی ایجنڈے پر کسی سے بھی بات کرنے کو تیار نہیں ادھر جے ڈبلیو پی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی نے مسلم لیگ(ن) کے سربراہ وسابق وزیراعظم میاں نوازشریف، جماعت اسلامی کے امیر منورحسن اورجماعت اہلحدیث کے امیر ساجد میر سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ہیں۔ نوازشریف سے ملاقات میں دونوں رہنمائوں نے اس بات پر اتفاق کیاکہ بلوچستان کے مسائل کا حل شفاف انتخابات ہیں۔
ملاقات میں جے ڈبلیو پی اور مسلم لیگ(ن) کے مابین آئندہ انتخابات کے حوالے سے اتحاد پر بھی بات چیت کی گئی۔ جبکہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن اورجماعت اہلحدیث کے امیر ساجدمیر نے نوابزادہ طلال اکبر بگٹی سے ملاقات میں انہیں یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ بلوچستان کے مسائل کے حل میں ہر ممکن تعاون کریں گے۔ دوسری جانب بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ صوبے کے مخصوص علاقوں میں آپریشن اورمظالم جاری ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ سوراب گدر میں سکیورٹی فورسز نے آپریشن تیز کردیا ہے۔
گن شپ ہیلی کاپٹرزاستعمال ہورہے ہیں اورمعصوم بچوں سمیت خواتین جاں بحق ہوئی ہیں، مسخ شدہ لاشیں تسلسل کے ساتھ پھینکی جارہی ہیں۔ یہ آپریشن سوراب گدر کے علاوہ ڈیرہ بگٹی کوئٹہ سمیت مختلف علاقوں میں کئے جارہے ہیں جوکہ حکومتی عہدیداران کے منہ پر طمانچہ ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے صوبے کی قوم پرست جماعتوں کے اس دعوے کو یکسر مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ میں یہ واضح الفاظ میں کہتاہوں کہ بلوچستان میں کہیں بھی آپریشن نہیں ہورہا۔اس حوالے سے کئے جانے والے پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایف سی کو صوبے میں امن وامان برقرار رکھنے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔بلوچستان کے بگڑتے حالات کے تناظر میں جماعت اسلامی بلوچستان کے زیر اہتمام نمائندہ سیاسی وقبائلی جرگہ کے انعقاد کے لئے اجلاس منعقد کیاگیا جس میں پشتون قومی جرگہ کے کنوینئر نواب ایاز خان جوگیزئی، حافظ حسین احمد، ڈاکٹر اسحاق بلوچ، کمانڈر خدائیداد خان، مولانا عبدالقادر لونی، ملک ذکریا کاسی، عبدالمتین اخوندزادہ، مولانا علی ابوتراب اور دیگر نے شرکت کی۔ نمائندہ جرگہ میں سیاسی جماعتوں اور قبائلی شخصیات کے ساتھ ساتھ مختلف طبقات علماء کرام، تاجروں، زمینداروں، ڈاکٹروں ، وکلاء مائن اونرز، طلباء اور اساتذہ کے اشتراک کے ساتھ بھرپور اورپرامن جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس سلسلے میں صوبے کی دیگر جماعتوں سے مذاکرات اورنمائندہ جرگہ میں شرکت ومعاونت کے لئے ڈاکٹر اسحاق بلوچ کی سربراہی میں رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ رابطہ کمیٹی نے نمائندہ سیاسی وقبائلی جرگے کے انعقاد کے لئے اپنے رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔