قوم کی بھابھی جلال بابا اور زوجۂ ملت
اگر اہل کراچی کی یہ فیاضی جاری رہی تو القابات اور خطابات کی کمی نہیں۔
HYDERABAD:
وطن عزیز میں چونکہ دوسرے شعبوں کی طرح سیاست کے شعبے میں بھی کوئی معیار نہیں رہا اس لیے جس کا جی چاہتا ہے وہ اور کچھ نہ بن سکے تو سیاست دان بن جاتا ہے اور اگر سیاست چل نکلے تو پھر وہ بہت کچھ بن جاتا ہے۔
جناب عمران خان نے بھی اپنی بھرپور گوناگوں اور پُر لطف زند گی میں بالآخر سیاست کو پسند کیا ہے کہ ایسی بارونق زندگی کا بدل سیاسی زندگی ہی ہو سکتی ہے چنانچہ اور اب وہ بہت ہی مختصر عرصہ میں ایک کامیاب سیاست دان بن چکے ہیں اور اس قدر بااثر، مقبول عام کہ کراچی گئے تو اعلان کیا کہ وہ عوام کے دلوں سے ایک مقامی جماعت کا ڈر خوف نکالنے آئے ہیں اس طرح انھوں نے کراچی کی ایک سیاسی پارٹی کو جو بظاہر ناقابل تسخیر سمجھی جاتی ہے اسے چیلنج کر دیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے کراچی میں ایک جلسہ عام کیا تھا جو غیر معمولی حد تک کامیاب رہا۔
اس سے انھیں حوصلہ ہوا کہ وہ اس شہر میں دندنا کر آئیں اور بڑھکیں ماریں، خان صاحب کی سیاسی پالیسی اور سرگرمی کا تو جو ہو گا وہ ہم دیکھ ہی لیں گے لیکن میں یہاں ابھی سے ایک اور تشویش میں مبتلا ہو گیا ہوں اور وہ ہے محترمہ ریحام کی متوازی سیاست جو کراچی میں عمران خان سے بڑھ کر خبریں بنا رہی ہیں مخالفوں پر ان کے شوہر کی پارٹی کا اتنا رعب پڑا کہ ایم کیو ایم نے ان کے لیے قیمتی تحفوں کا بندوبست کیا اور لندن سے کراچی تک ان تحفوں کا ذکر کیا۔
جناب فاروق ستار نے جو ایم کیو ایم کے ایک مستند لیڈر ہیں بتایا کہ انھوں نے عمران خان کی اہلیہ کے لیے ایک طلائی سیٹ دو لاکھ نوے ہزار روپے میں خریدا ہے اور اب عمران خان جہاں چاہیں گے اسے پہنچا دیں گے۔ اس سیٹ میں نگینے جڑا سونے کا ایک لاکٹ بھی ہے اور دو جھمکے بھی ہیں اسے کراچی کے ایک مقامی جیولر سے خریدا گیا ہے۔
ریحام خان نے کہا ہے کہ جس زیور کا اعلان الطاف صاحب نے کیا تھا وہ تو انھیں ملا ہی نہیں لیکن کراچی کے شہریوں نے انھیں قوم کی بھابھی کا لقب دے ڈالا ہے جو کسی تحفے سے کم نہیں ہے۔ قوم کی بھابھی کے خطاب سے چند یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ ایبٹ آباد کی ایک مشہور مسلم لیگی شخصیت جلال بابا تھے جو یہاں ٹیکسی کاروں کا اڈا چلاتے تھے۔
ایوب خان نے انھیں وزیر بھی بنا دیا تھا اور وہ کراچی میں رکشے پر سفر کرتے تھے اور جھنڈا اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے جسے وہ رکشے سے باہر نکال کر لہرایا کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایوب خان نے انھیں مشرق و مغرب کا بادشاہ بنا دیا ہے یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کا۔ جلال بابا کے سیاسی عروج کے زمانے میں ایک بار لیاقت علی خان ان کے جلسے میں آئے۔
ان کی بیگم صاحبہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ بڑا جلسہ ہوا اور جلال بابا جن کی آواز بہت بھاری اور گرجدار تھی نعرے لگاتے رہے قائد ملت لیاقت علی خان زندہ باد۔ یہ نعرہ لگاتے لگاتے انھیں خیال آیا کہ بیگم صاحبہ بھی موجود ہیں۔ ان کا نعرہ بھی لگانا چاہیے چنانچہ انھیں جو نعرہ فوری طور پر سوجھا قائد ملت کے وزن پر انھوں نے اپنی بلند آواز میں لگا دیا زوجہ ملت زندہ باد۔ جلسے کے بعد لیاقت علی خان نے مزاحیہ انداز میں شکوہ بھی کیا کہ بابا تم نے تو میری بیوی کو زوجہ ملت بنا دیا۔
اس یاد کو بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ریحام خان بھی ان دنوں بہت تیز جا رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ عمران اگر کے ٹو پر بھی جائیں گے تو وہ بھی ساتھ ہوں گی۔ کراچی آمد پر ان کو ملت اور قوم کی بھابھی قرار دے دیا گیا ہے۔
اگر اہل کراچی کی یہ فیاضی جاری رہی تو القابات اور خطابات کی کمی نہیں۔ وہ اہل زبان ہیں اور اندیشہ ہے کہ کہیں جذبات میں آ کر وہ زوجہ ملت کی طرح کا کوئی خطاب نہ دے ڈالیں اور قوم کی بھابھی زندہ باد کا نعرہ نہ لگ جائے لیکن عمران خان کو گھبرانا نہیں چاہیے۔ سیاست میں جب بیگمات بھی شریک کر لی جائیں تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے اور ان کی بیگم تو پہلے ہی بہت مشہور ہیں اور قوم نے انھیں ٹی وی پر بارہا دیکھا ہے اور ہر رنگ میں دیکھا ہے۔ انھوں نے ابھی ابھی اپنی 42 ویں سالگرہ بھی منائی ہے۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ انھیں اس عمر میں بھی ایسا شاندار شوہر مل گیا ہے جس پر ہزار جوانیاں نثار۔
یہاں عمران خان کو بھی مبارکباد دینی چاہیے کہ وہ اپنی برطانوی بیوی سے علیحدگی کے بعد جس تنہائی کا شکار تھے وہ اب ختم ہو گئی ہے اور جو دلہن ملی ہے وہ برطانوی کلچر سے خوب آشنا ہے اور وہیں سے آئی ہے۔
عمران کی زندگی میں پیدا ہونے والی کمی پوری ہو گئی ہے۔ سیاست اب ایک مشکل کام بن گئی ہے اور اس سیاسی ہجوم میں اپنی سیاست کو زندہ رکھنا بہت مشکل ہے کیونکہ اب یہ کلّے بندے کا کام نہیں ہے۔ ان کی بیگم ان کی بھرپور مدد کریں گی اور ہر مشکل میں ان کا ساتھ دیں گی جس کا انھوں نے اعلان بھی کر دیا ہے۔ عمران ایک خوش نصیب سیاست دان ہیں۔ انھوں نے سیاست شروع کی ہے تو انھیں غیر معمولی پذیرائی ملی ہے اس کے باوجود کہ وہ سیاسی دنیا کے لیے ایک اجنبی شخصیت تھے۔
ان سے پہلے کے سیاست دان اپنی اپنی سیاست چمکا رہے تھے اور لگتا تھا کہ اب کسی نئے سیاست دان کی گنجائش بہت کم ہے مگر عمران نے تمام اندازے اور قیاس آرائیاں غلط کر دی ہیں۔ سیاست دان نہ ہونے کے باوجود وہ سیاست دان بن گئے ہیں اور انھوں نے اپنی نئی جاندار سیاست سے سیاست کی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔
یہ سب اتنا اچانک ہوا ہے کہ بڑے بڑے تجربہ کار سیاست دان بھی بوکھلا گئے ہیں اور بعض تو بیگم صاحبہ کی خوشنودی کے لیے تحفے تلاش کر رہے ہیں جب کہ کل تک یہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتے تھے۔ قدرت دنوں کو گھماتی پھراتی رہتی ہے اور سیاست دانوں کو الٹتی پلٹتی رہتی ہے۔ ایک انتہائی ناتجربہ کار سیاست دان کی یہ پذیرائی پاکستان جیسے بڑے نظریاتی اور ایٹمی ملک کے لیے کوئی خوشخبری نہیں ہے۔ ہمارا ملک زیادہ نہیں تو مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔
ایک تو یہ واحد مسلمان ملک ہے جس کی بنیاد اسلام کے نام اور اصولوں پر رکھی گئی ہے، دوسرے یہ مسلم دنیا کی سب سے بہتر فوج رکھتا ہے اور اس میں اتنی صلاحیتیں ہیں کہ وہ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود تن تنہا ایٹم بم بنا لیتا ہے اور ہ بھی نہایت ہی اعلیٰ معیار کا اور بھی بہت کچھ ہے اس لیے اس ملک کا لیڈر بھی بڑا ہونا ضروری ہے۔ عوام پاکستان اور اس کے لیڈروں کا موازنہ کر لیا کریں۔