یمن کا بحران سیاسی ہے

یہ نہ تو کوئی مذہبی مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی غیر ملک کو اس میں الجھنے کی کوئی گنجائش ہے


عثمان دموہی April 12, 2015

موجودہ یمن کا بحران خالصتاً اس کا داخلی معاملہ ہے۔ یہ نہ تو کوئی مذہبی مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی غیر ملک کو اس میں الجھنے کی کوئی گنجائش ہے۔یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامیوں نے حوثی قبائل کے ساتھ مل کر موجودہ صدر منصور الہادی کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا ہے۔ صدر منصور الہادی جو سعودی حکومت کے دوست خیال کیے جاتے ہیں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد ریاض میں مقیم ہوگئے ہیں۔

سعودی عرب ان کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے علی عبداللہ صالح کے حامی اور حوثی قبائل کے گٹھ جوڑ کے خلاف فضائی حملے کر رہا ہے۔ منصور الہادی کی وفادار فوج جو تعداد میں کم ہے باغیوں کے خلاف جنگ میں کمزور پڑ گئی ہے چنانچہ سعودی حکومت کی درخواست پر مصر، ترکی، اردن اور متحدہ عرب امارات وغیرہ اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ بھی سعودی حکومت کی تقلید میں باغیوں کے ٹھکانوں پر شدید بمباری کر رہے ہیں۔ امریکا جو ایسے مواقعے کی تلاش میں رہتا ہے اس نیک کام میں سب سے آگے نظر آرہا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان سے بھی رابطہ کیا ہے اور پاک فوج کو بھیجنے کی درخواست کی ہے۔

سعودی حکومت نے یمن کی صورتحال کا ایران کو ذمے دار قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ اس نے حوثی قبائل کو جدید ہتھیار پہنچائے ہیں اور وہ انھیں عسکری تربیت دے رہا ہے جب کہ ایران نے اس کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ یمن کی صورتحال میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس وقت سعودی عرب کے اتحادی یمن پر تابڑ توڑ فضائی حملے کر رہے ہیں۔

جس سے اب تک پانچ سو سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں جن میں ستر بچے بھی شامل ہیں۔یمن کی اس خانہ جنگی کی ابتدا کچھ اس طرح ہوئی کہ علی عبداللہ صالح تقریباً چالیس سال سے یمن کے صدر چلے آرہے تھے۔ ان کے دور اقتدار میں سب سے خوش کن واقعہ یہ رونما ہوا کہ ان کی کوششوں سے جنوبی یمن اپنی تمام تر مخاصمت کو بالائے طاق رکھ کر شمالی یمن سے آ ملا تھا۔ اس طرح یمن جزیرہ نما عرب کا ایک متحد اور مضبوط ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ یہاں جمہوری اقدار کو بھی پروان چڑھایا جا رہا تھا اور عوام کی خوشحالی کے لیے بھی اقدامات اٹھائے جا رہے تھے۔

اس دور میں یمن میں صنعتی ترقی بھی ہوئی اور ملک معاشی طور پر بھی مضبوط ہوا۔ یمن کی خوشحالی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک کے لوگ وہاں پہنچے اور روزگار حاصل کرکے وہیں رہائش پذیر ہوگئے۔

ایسے میں منصور الہادی نے علی عبداللہ صالح سے ناراض حوثی قبائل سے شرکت اقتدار کا ایک معاہدہ کرکے ان کی مدد سے عبداللہ صالح کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور بالآخر ان کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا مگر اقتدار حاصل کرنے کے بعد منصورالہادی نے حوثیوں سے معاہدے کی پاسداری نہیں کی تاہم منصور الہادی کے مطابق حوثی قبائل نے بھی معاہدے کے تحت اپنی بعض ذمے داریاں پوری نہیں کیں جس پر سرکاری فوج اور حوثی قبائل میں ٹھن گئی۔

علی عبداللہ صالح جنھیں حکومت سے بے دخل کردیا گیا تھا نے موقع غنیمت جان کر حوثی قبائل سے راہ و رسم بڑھا کر ان کے ذریعے منصورالہادی کے خلاف مسلح بغاوت شروع کردی جس سے پورے یمن میں جنگ چھڑ گئی چونکہ منصورالہادی کو سعودی حکومت کا آشیر باد حاصل ہے چنانچہ وہ بھاگ کر ریاض پہنچ گئے اور سعودی حکومت نے ان کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے حوثی قبائل اور علی عبداللہ صالح کے عسکریت پسندوں پر فضائی حملے شروع کردیے۔

سعودی حکومت کی درخواست پر ترکی، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات نے بھی یمن پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ چوں کہ یمن میں منصورالہادی کی حامی افواج کی تعداد کم ہے چنانچہ وہ حوثی قبائل اور عبداللہ صالح کے جنگجوؤں کے مقابلے میں کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ چونکہ سعودی عرب یمن میں منصورالہادی کی حامی فوج کی زمینی طور پر مدد نہیں کرسکتا چنانچہ وہ اپنی اور اتحادیوں کی فضائی طاقت کے ذریعے حوثیوں اور عبداللہ صالح کے عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے مگر اب تک حوثیوں نے کئی شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یمن کی اہم بندر گاہ عدن کو بھی محاصرے میں لے لیا ہے۔

یمن کے دارالخلافہ صنعا پر بھی وہ جزوی طور پر قابض ہوچکے ہیں۔حوثیوں کی جانب سے منصورالہادی کے خلاف بغاوت کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ منصورالہادی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے تھے ان کے دور میں بدعنوانی میں بے حد اضافہ ہوا، ملک کی معاشی اور صنعتی ترقی رک گئی، بیروزگاری کا طوفان امڈ آیا اور جمہوری اقدار کو بھی پامال کیا جانے لگا۔ جب کہ سابق صدر عبداللہ صالح کے دور میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ملک کے تمام طبقے یکساں طور پر خوشحال تھے۔

ملک میں جمہوری اقدار کو بھی کوئی خطرہ نہیں تھا۔ حوثیوں کے موقف اور یمن کے موجودہ حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ یمن کا بحران خالصتاً سیاسی ہے اور یہ یمن کا داخلی معاملہ ہے چنانچہ اس میں کسی دوسرے ملک کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر لگتا ہے یمن کا محاذ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک انا کا مسئلہ بن گیا ہے اور بے چارہ یمن دونوں ممالک کی پراکسی وار کا نشانہ بن گیا ہے۔

تاہم دونوں اسلامی ممالک کی مخاصمت دنیائے اسلام کو دو حصوں میں منقسم کرسکتی ہے اور اگر جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو پھر مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ ایران بھی تباہی سے نہیں بچ سکے گا۔

لیبیا، عراق اور شام کی تباہی ابھی رکی نہیں ہے مغربی ممالک اپنے منصوبے کے تحت انھیں اسرائیل کے قدموں میں ڈال چکے ہیں۔ ایران بھی مغربی ممالک کیمطابق اسرائیل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے انھوں نے ایران سے تازہ معاہدہ کرکے اس کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرادیا ہے لیکن ابھی بھی ان کی تسلی نہیں ہوئی ہے وہ ایران کو بھی عراق اور شام کی طرح اسرائیل کے لیے بے ضرر بنانا چاہتے ہیں ادھر سعودی عرب بھی کسی بھول میں نہ رہے مگر بدقسمتی سے عراق اور شام کے معاملے میں سعودی عرب کا کردار مغربی ممالک جیسا ہی رہا ہے اور اب یمن کے اندرونی معاملے میں وہ کود کر مغربی ممالک کے مذموم عزائم کو پھر تقویت بخش رہا ہے۔

یمن تو پہلے سے ہی امریکا کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا۔ اس نے یمن کو القاعدہ کا گڑھ قرار دے رکھا ہے وہ القاعدہ کی سرکوبی کے لیے وہاں پہلے سے ہی حملے کر رہا ہے مگر اب حیرت ہے کہ وہ القاعدہ کو یکسر بھول کر حوثیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ شاید اس لیے کہ یمن میں شیعہ سنی اتحاد کو پارہ پارہ کرکے وہ وہاں فرقہ وارانہ مسئلہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔

واضح ہو کہ نہ تو حوثی شیعہ ہیں اور نہ ہی یمن میں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ ہے مگر افسوس کہ اس کے باوجود مغربی میڈیا زبردستی یمن کے مسئلے کو شیعہ سنی تنازعہ قرار دے رہا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ شروع سے ہی سعودی مقدس سرزمین کی حفاظت کو اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔

اس نے سعودی عرب کی سالمیت کے خلاف کسی بھی بیرونی جارحیت پر اس کے دفاع کے لیے اپنی فوجوں کو بھیجنے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ پارلیمنٹ میں تین روز تک چلنے والی بحث میں ملک کی تمام ہی سیاسی جماعتوں نے فوج اور فوجی سازوسامان سعودی عرب بھیجنے کی مخالفت کی ہے۔ حکومت پاکستان کو پارلیمنٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہیے مگر ساتھ ہی اس جنگ کو ختم کرانے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کردینا چاہئیں اور یمن کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہاں کے عوام اپنی مرضی کی حکومت قائم کرسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں