سورج غروب ہوا رات کے ساڑھے گیارہ بجے

اوسلو میں زیادہ تر ٹیکسیاں پاکستانی چلاتے ہیں،ناروے کے دارالحکومت کے سفر کا احوال

اوسلو میں زیادہ تر ٹیکسیاں پاکستانی چلاتے ہیں،ناروے کے دارالحکومت کے سفر کا احوال ۔ فوٹو : فائل

میں نے ناروے کے بارے میں بہت سنا تھا کہ یہاں گرمیوں میں دن بہت لمبے ہوتے ہیں اور سردیوں میں راتیں، لیکن اس کا مشاہدہ میں نے اس وقت کیا جب میں پہلی دفعہ جون کے مہینے میں اور دوسری مر تبہ دسمبر کے مہینے میں ناروے کے شہر اُوسلو گیا۔ پہلے گرمیوں کے مو سم کا ذکر کرنا ضروری سمجھو ں گا۔

ناروے میں 14 اگست کمیٹی کے نام سے سرگرم تنظیم نے مجھے دعوت دی تھی۔ جب میں دوپہر کے وقت قطر ایرویز کے ذریعے اُوسلوایرپورٹ پہنچا تو وہاں پر 14 اگست کمیٹی کے روح رواں عامرجاوید شیخ ایرپورٹ پر میرا انتظار کررہے تھے، گاڑی میں بٹھاکر مجھے اوسلو شہر میں گرینڈ ہوٹل لے جایا گیا، جہاں پر وہ میرے لیے پہلے ہی کمرہ ریزرو کروا چکے تھے۔ ہوٹل پہنچ کر منہ ہاتھ دھویا، کھانا بھی تیار تھا اور بھوک بھی لگی تھی، اس لیے خوب بسیار خوری کی۔ کچھ آرام کے بعد سکون ہوا۔ گرینڈ ہوٹل اوسلو کا سب سے منہگا اور تاریخی 5 اسٹار ہوٹل ہے۔



ہوٹل کے بالکل سامنے ناروے کی پارلیمنٹ کی عمارت اور ایک خوب صورت باغ ہے، جس میں ہر وقت رش لگا رہتا ہے۔ سب لوگو ں کے چہروں پر مسکراہٹ۔ یہ ایک دوسرے کی عزت اور قانون کا احترام کرنے والے لو گ ہیں۔ اوسلو شہر سمندر کے کنارے واقع ہے۔ واک کرکے بہ آسا نی سمندر کنار ے پہنچا جاسکتا ہے۔ وہاں کا موسم گرمیوں میں بہت ہی سہانا ہوتا ہے۔

مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں سوات کے کسی پُرفضا مقام پر آیا ہوا ہوں۔میں نے اپنی صحافی دوست کرسٹینو کو فون کیا کہ اور اسے بتایا کہ میں اوسلو میں ہوں، تو وہ خوش بھی ہوئی اور حیران بھی۔ رات کا کھانا ہم نے آٹھ بجے ایک ساتھ کھایا۔ دن تھا کہ ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ میں نے کرسٹینو سے کہا کہ اوسلو کے ایک خوب صورت پارک جس میں بہت سارے مجسمے بنے ہو ئے ہیں، دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے گو گل پر سرچ کیا تھا تو اس پارک کی بہت ساری تصویریں ملی تھیں۔

ہم ٹیکسی میں بیٹھ کر وہاں پہنچے۔ وہ پارک میرے لیے کسی عجوبے سے کم نہیں تھا، کیوںکہ ایسے مجسمے میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ رات کے گیا رہ بج رہے تھے لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی اوسلو میں دن ہی ہے۔ پارک میں خوب فوٹوگرافی کی گئی جس ٹیکسی میں ہم آئے تھے، اسی پر واپس ہوٹل لوٹ گئے۔



تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سورج غروب ہوا اور شام ہونے لگی، لیکن شام بھی ایسی عجیب کہ عصر کا سا سماں باندھا ہوا تھا۔ رات کے دو بج گئے تو گہری شام کا سا منظر ہونے لگا اور بس یہی ناروے کی رات تھی۔ ایک طرف سورج کی کرنیں دمک رہی تھیں تو دوسری طرف چاند کا مدھم نور بھی دکھائی دے رہاتھا۔ رات ڈھائی بجے صبح ہوئی اور یہ سب کچھ میں کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرتا رہا۔ رات دو بجے کے قریب میں نے عشاء کی نماز پرھی اور تین بجے فجر کی نماز پڑھ کر سونے کی کوشش کرتا رہا۔ دن اور رات کے اس چکر نے مجھے کافی مضطرب کردیا تھا اور میری نیند کہیں دور بھاگ گئی تھی۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو سنا تھا کہ گرمیوں میں ناروے میں رات بہت چھوٹی ہوتی ہے، یہ بات حقیقت ثابت ہوئی، لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہاں رات تو ہوتی ہی نہیں۔ البتہ شام ضرور ہوتی ہے، میں نے اُوسلو شہر میں گرمیوں میں تین دن اور تین راتیں گزاریں، میں نے وہاں شہریوں کو اپنے وقت کے مطابق اپنے معمول کے مطابق کھانا کھاتے اور سوتے دیکھا۔ شام کے سات بجے ہوٹلوں پر ایسا رش دیکھا جیسا ہمارے ہاں شام کے اوقات میں ہوتا ہے۔ اوسلو میں سب لوگ روڈ کے کنارے ریسٹورنٹس میں بیٹھ کر کھانے میں مصروف ہوجاتے ہیں، لیکن وہاں سات بجے سورج اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا ہوتا ہے۔



سردیوں میں بھی میری بڑی خواہش تھی کہ اوسلو کی طویل راتوں کا نظارہ کروں۔ اوسلو کی ٹھٹھرتی سردی کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا، لیکن اب کی بار مجھے نوبیل پیس پرائز کی کو ریج کے سلسلے میں آنا پڑا، اس لیے میں سردیوں کی رات میں دن پانچ بجے کے قریب اوسلو ایرپورٹ سے باہر نکلا تو ایک بھارتی خاتون نے میر ے نام کا کارڈ ہا تھ میں اٹھائے انتظار کر رہی تھیں۔ میں سیدھا ان کے پا س پہنچا۔ وہ کہنے لگیں، مجھے عامر جاوید شیخ نے بھیجا ہے۔

انھیں ایک اور مہمان کو بھی ریسیو کرنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ کچھ ہی دیر میں وہ مہمان باہر آنے والا ہے۔ وہ آجاتا ہے تو پھر اکٹھے ہو ٹل چلتے ہیں۔ میں نے جب کارڈ پر نام دیکھا تو وہ پشتو کے نام ور گلوکار سردارعلی ٹکر کا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں پشتو کے یہ لیجنڈ گلوکار ایرپورٹ سے با ہر آئے اور مجھ سے گلے مل کر کہنے لگے کہ شیرین زادہ! آپ سے مل کر بہت خو شی ہوئی۔ اس انڈین خاتون کے ساتھ ہم دونوں ریل میں بیٹھ کر اوسلو شہر میں واقع ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔

اوسلو میں ریل کا انتظا م بہت ہی اعلیٰ قسم کا ہے۔20 منٹ میں ہم اوسلو کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ وہاں سے ٹیکسی میں ہو ٹل کے لیے روانہ ہوئے۔



راستے میں مجھ پر انکشاف ہوا کہ اوسلو کی سڑکوں پر چلنی والی زیادہ تر ٹیکسیاں پاکستانی چلاتے ہیں۔ ٹیکسی کا کاروبار یہاں پر بہت کام یاب ہے۔ ریل اور بس کے مقا بلے میں ٹیکسی کافی منہگی بھی پڑ تی ہے۔


اوسلو میں کڑاکے کی سردی تھی اور درجۂ حرارت منفی 11چل رہا تھا۔ شام چھے بجے کا وقت تھا، لیکن ایسا محسوس ہورہا تھا کہ رات کے با رہ ایک بج رہے ہوں۔ شاید شدید خنکی کی وجہ سے شہر خالی خالی لگ رہا تھا، لیکن گاڑیوں کی تھوڑی بہت آمدورفت جاری تھی۔ مجھے ناروے کے اس خوب صورت شہر کو دوسری مرتبہ دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلی دفعہ کا ذکر چکا ہوں۔ دونوں دفعہ میرے پیارے دوست عامرجاوید شیخ نے مجھے دعوت دی۔

اس دفعہ نوبیل پیس پرائز کی تقریب کی کو ریج کرنا تھی۔ عامر جاوید شیخ نا روے میں14اگست کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ 14اگست کمیٹی ناروے میں پاکستانیوں کی ایک سرگرم تنظیم ہے۔ یہ تنظیم ناروے میں ہر قسم کے فلاحی کاموں کے علاوہ پاکستانیوں کی ثقافتی سرگرمیوں اور دیگر عوامی کاموں میں بھی پیش پیش ہوتی ہے اور ایسے کام کرتی ہے جو شاید پاکستانی سفارت خانہ بھی نہ کرپاسکے۔



اسی وجہ سے نوبیل پیس پرائز کی تقریب میں بھی یہ تنظیم پیش پیش رہی، کیوں کہ اس دفعہ ملالہ یوسف زئی کو نوبیل پیس پرائز دیا جا رہا تھا تو عامرجاوید شیخ اور ان کی تنظیم اس سلسلے میں کافی سرگرم تھی۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ ایوارڈ پاکستان کی ملالہ یوسفزئی اور انڈیا کے کیلاش ستیارتھی کو مشترکہ طور پر دیا جارہا تھا، اس لیے پذیرائی کے حوالے سے روایتی حریف انڈیا کا مقابلہ کرنا تھا، لہٰذا عامرجاوید شیخ اس سلسلے میں بہ بہت مصروف تھے۔

میں یہاں مختصراً نوبیل پیس پرائز کی کو ریج کا قصہ سنا دوں۔

عامرجاوید شیخ نے مجھے دعوت نامہ بھیجا، لیکن شرط یہ تھی کہ کہ نوبیل پیس پرائز کی تقریب کی کوریج کے لیے نوبیل پیس پرائز کی کمیٹی کی آن لائن ایپلیکیشن بھرنا ضروری ہے اور نوبیل کمیٹی اس کی مجاز تھی کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے ایونٹ کی کوریج کی اجازت دے یا نہ دے۔ عامر جاوید شیخ نے کہا کہ یہ میرے بس میں نہیں ہے، نوبیل پیس پرائز کی تقریب کی کو ریج کے لیے پو ری دنیا سے صحافی آن لائن ایپلائی کرتے ہیں اور نوبیل کمیٹی کی طرف سے باقاعدہ کارڈ جاری کیا جاتا ہے اس کے بعد آپ آفیشلی ہال میں جاکر دیگر صحافیوں کے ساتھ کوریج کر سکتے ہیں۔

نا روے جانے سے پہلے میںنے آن لائن ایپلیکیشن نوبیل پیس پرائزکمیٹی کو بھیجی اور انہوں نے مجھے باقاعدہ طور پر کارڈ دے کر ایکسپریس نیوز کے لیے کوریج کی اجازت دی۔

ہال میں داخل ہونے کے لیے لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ صحافی اپنے لیے مخصوص لائن میں کھڑے ہوکر اندر داخل ہوئے۔ میرے قریبی دوست اور ملاکنڈ یونیورسٹی کے پی آر او اور ماضی کے منجھے ہوئے صحافی محمد خان کو بھی خصوصی طور پر اس تقریب کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

سوات کے ایک اور صحافی نیاز احمد خان صحافیوں کی قطار کے بجائے خصوصی مہمانوں کی فہرست میں شامل تھے۔ سو وہ مہمانوں کی نشستوں پر براجمان ہوئے اور ہم پریس گیلری میں چلے گئے۔ یہاں میری ملاقات نام ور صحافی عبدالحئی کاکڑ سے ہوئی، جن سے سوات پر گزرنے والے بُرے وقت میں اچھے مراسم رہے تھے۔

یہاں میں ملالہ یوسفزئی اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے کیلاش صاحب کے درمیان ''مقابلے'' کا ذکر کرتا چلوں، جیسے ہی نوبیل پیس پرائز کا اعلان ہوا کہ نوبیل پیس پرائز ملالہ یوسفزئی اور کیلاش صاحب کو دیا جارہا ہے، تو پیس پرائز دیتے وقت مجھ سمیت وہاں پر موجود پاکستانی اور انڈین کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ یہ انڈیا اور پاکستان کا کرکٹ میچ ہے۔

وہاں جتنی بھی تقریبات ہوئیںان سب میں پذیرائی کے اعتبار سے ملالہ کا پلڑا بھاری رہا اور پاکستانیوں کے ساتھ گوروں نے بھی دل کھول کر ملالہ یوسفزئی کو داد دی۔ ایک تقریب میں جب ملالہ یوسفزئی کا نام لیا گیا اور کہا گیا کہ ملالہ یوسفزئی پہلی سب سے کم عمر لڑکی ہے جس نے یہ انعام جیتا، تو ہال میں موجود بیس ہزار کے قریب لوگوں نے پانچ منٹ تک کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔

اوسلو میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ ہو۔ خیبرپختون خواہ کے نام ور اور سنیئرصحافی بیروزلالہ سے بھی ملاقات ہوئی، جو اس تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ اوسلو میں ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا۔ ہم اکٹھے ہی پروگرواموں کو کور کر تے رہے۔



پشتو کا گانا ''تہ بی بی شرینہ یے'' کے خالق بھی بیروز لا لہ ہی ہیں، جسے گلوکار سردارعلی ٹکر نے نوبیل پیس پرائز کی تقریب میں گاکر بے پناہ داد وصول کی۔ یہ نوبیل پیس پرائز کی پہلی تقریب تھی جس میں کوئی پشتو گانا گایا گیا۔

چار دن اوسلو میں کوریج مکمل کرنے کے بعد جس میں ایکسپریس نیوز کے لیے ملالہ یوسفزئی، سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی، کیلاش ستیارتھی، میاں افتخار حسین، ضیاء الدین یوسف زئی، شہزادرائے، سردارعلی ٹکر اور دیگر پاکستانی اور انڈین نام ور شخصیات شامل تھیں، کا انٹرویو کرنے کے بعد میں اوسلو سے ڈنمارک کے لیے روانگی کی تیاریاں کر نے مصروف تھا کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے حاطف مختار سے گرینڈ ہوٹل میں ملاقات ہوگئی۔

حاطف مختار اوسلو ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کے ساتھ اچھی گپ شپ رہی۔ میں، دوست محمد خان اور ہما رے ایک اور دوست جو کہ سوات سے تعلق رکھتے ہیں، ملک ریاض احمد، ہم تینوں حاطف مختار کے دفتر گئے۔ انہوں ڈنمارک جانے کے لیے ہماری بہت مدد کی۔ رات دس بجے میں اور دوست محمد خان بس کے ذریعے اوسلو سے ڈنمارک راوانہ ہوگئے۔
Load Next Story