جنوبی پنجاب کی بدلتی ہوئی سیاست
سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی آنکھوں کے سامنے پیپلز پارٹی کے کئی بت صدر آصف علی زرداری کے ہاتھوں گرتے ہوئے دیکھے ہیں
کچھ حیران ہیں تو کچھ پریشان' جبکہ کئی اسے وہ سچ قرار دیتے ہیں جو عرصہ سے دیوار پر لکھا تھا۔
سب پڑھ رہے تھے لیکن خود سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نہیں۔ اب بھی انہیں وزارت عظمیٰ کے خوابناک دور سے نکل کر پرانی پوزیشن پر واپس آنے میں وقت لگے گا لیکن آج بھی وہ وزیراعظم کی طرح ہی اپنے احکامات جاری کرنا چاہتے ہیں اور ویسے ہی منوانا چاہتے ہیں، خود کو پارٹی کے اندر وزارت عظمٰی والے دور کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں اور پارٹی عہدیداروں سے بھی پرانی پذیرائی کے خواہاں ہیں، لیکن انہیں تین مزید کڑوے سچ بھی مدنظر رکھ لینا چاہئیں۔
پہلا سچ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے اندر ایک بہت بڑا گروپ ان کا مخالف ہے جو ان کی وزارت عظمٰی کے دور میں تو چپ سادھے رہا لیکن ان کے منصب کے ہٹنے والے دن ہی اس گروپ نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی تھیں کچھ نے تو اس کا کریڈٹ لینے کی بھی کوشش کی اور شاید کچھ رہنمائوں کا اس میں حصہ موجود بھی تھا، لیکن ایوان صدر میں منتقلی اور صدر آصف علی زرداری کے سیاسی فقروں کو خود سید یوسف رضا گیلانی بھی سمجھ نہ پائے کیونکہ وہ ساڑھے چار برس ایسے ہی فقروں پر سر دھنتے رہے تھے پھر بتدریج سب کچھ آشکار ہوتا گیا اور جس دن انہوں نے ایوان صدر سے کوچ کیا تو سب کچھ نہ سہی بہت کچھ سمجھ آگیا تھا باقی بھی سمجھ آجائے گا۔
دوسرا کڑوا سچ یہ ہے کہ اب سید یوسف رضا گیلانی فوج کے لئے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں اس لئے ان کے فوج سے تعلقات اچھے نہیں رہے، وزارت عظمیٰ کے دور میں ہی یہ تعلقات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے اور فوجی قیادت کے بارے میں سید یوسف رضا گیلانی کے تندوتیز فقرے ورکنگ ریلیشن شپ کو بھی متاثر کرنے لگے تھے۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے ابتدائی دور میں سید یوسف رضا گیلانی کے فوجی قیادت سے اچھے تعلقات استوار ہوئے جو کافی عرصہ بہترین رہے لیکن پھر ان میں دراڑ آنا شروع ہوگئی اور تیسرا کڑوا سچ یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی سزا یافتہ سیاستدان ہیں اور 5 برسوں کے لئے نااہل ہوچکے ہیں ۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے ، ان کے صاحبزادے بھی مختلف سنگین الزامات اور مقدمات کا سامنا کررہے ہیں جبکہ اطلاعات ہیں کہ ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف کچھ مزید الزامات اور ان کے مرتب ہونے والے اثرات پائپ لائن میں ہیں، بطور وزیراعظم انہوں نے پارٹی کے جن ساتھیوں اور دوستوں پر مہربانیاں کیں وہ بھی ان سے خوش نہیں اور جو ان کی نوازشوں سے محروم رہے وہ تو ویسے ہی ان سے نالاں ہیں، اس طرح پارٹی کے اندر صورتحال مکمل طور پر ان کے حق میں نہیں۔
ان حالات میں اگر سید یوسف رضا گیلانی یہ توقع رکھیں کہ ان کے حامیوں کا گروپ پارٹی کے اندر ان کے لئے آواز بلند کرے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہے اور اگر وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے حامی صدر آصف علی زرداری کے سامنے بھی ان کی حمایت کرتے ہوئے ان کو یاد دلائیں گے کہ سید یوسف رضا گیلانی کی پارٹی موجودہ حکومت اور خود صدر آصف علی زرداری کے لئے بہت قربانیاں ہیں تو یہ حالات کے سامنے آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہوگا۔
خود سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی آنکھوں کے سامنے پیپلز پارٹی کے کئی بت صدر آصف علی زرداری کے ہاتھوں گرتے ہوئے دیکھے ہیں اور کچھ کو گرانے میں تو خود سید یوسف رضا گیلانی کا بھی ہاتھ ہے ، بھلا دنیا میں مکافات عمل نام کی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کے کچھ سنجیدہ طبقے سید یوسف رضا گیلانی کی پارٹی سے ناراضگی کو مختلف انداز سے دیکھ رہے ہیں، ان کے مطابق یہ گیلانی صاحب کے اندر کی سیاست ہے جو حالات خراب کررہی ہے اور خود ان کے لئے مسائل کا سبب بن رہی ہے ورنہ سید یوسف رضا گیلانی کی پارٹی قیادت سے ناراضگی یا قیادت کی ان سے ناراضگی دراصل کوئی بڑی بات نہیں اور اگر سید یوسف رضا گیلانی اپنے اندر کا وزیراعظم نکال کر پارٹی عہدیدار کی سطح پر واپس آجائیں تو حالات فوراً سدھر جائیں گے۔
سیاسی پنڈتوں کی نظریں اب سید یوسف رضا گیلانی کے اگلے قدم پر ہیں اور اس کے اندازے بھی لگائے جارہے ہیں ایک اطلاع ہے کہ شاید وہ مسلم لیگ (ن) کا رخ کریں گے لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر کی اطلاعات ہیں کہ اب سید یوسف رضا گیلانی ان کے لئے کسی کام کے نہیں اور کچھ مسلم لیگی اس بات پر بھی غور کررہے ہیں کہ اگر سید یوسف رضا گیلانی نے ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا تو وہ پارٹی کے اندر مخالفت کریں گے، بہرحال حالات ابھی اس نہج پر نہیں کہ سید یوسف رضا گیلانی مسلم لیگ (ن) کا رخ کریں۔
خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے اندر پیدا ہونے والے اختلافات دور ہوجائیں گے ، وہ پارٹی کے وائس چیئرمین ہیں ، پرانے سیاستدان ہیں اور ان کا خاندان سیاست کی اونچ نیچ سمجھنے کا ایک صدی کا تجربہ رکھتا ہے اور سب سے بڑھ کر ان جیسا خوش قسمت سیاستدان دور دور تک ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ جہاں سید یوسف رضا گیلانی کی ضرورت ایک بڑی سیاسی جماعت ہے وہاں پیپلز پارٹی کی ضرورت بھی نامور اور اہم سیاستدان ہیں اور سید یوسف رضا گیلانی جنوبی پنجاب کی سیاست میں ایک اہم مقام اور مقامی سیاستدانوں میں بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اس لئے یوں لگتا ہے کہ وہ جہاندیدگی کا ثبوت دیتے ہوئے خود ہی حالات سنبھال لیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پارٹی اور خود ان کے لئے بھی یہ صورتحال نقصان دہ ہوگی۔
سب پڑھ رہے تھے لیکن خود سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نہیں۔ اب بھی انہیں وزارت عظمیٰ کے خوابناک دور سے نکل کر پرانی پوزیشن پر واپس آنے میں وقت لگے گا لیکن آج بھی وہ وزیراعظم کی طرح ہی اپنے احکامات جاری کرنا چاہتے ہیں اور ویسے ہی منوانا چاہتے ہیں، خود کو پارٹی کے اندر وزارت عظمٰی والے دور کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں اور پارٹی عہدیداروں سے بھی پرانی پذیرائی کے خواہاں ہیں، لیکن انہیں تین مزید کڑوے سچ بھی مدنظر رکھ لینا چاہئیں۔
پہلا سچ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے اندر ایک بہت بڑا گروپ ان کا مخالف ہے جو ان کی وزارت عظمٰی کے دور میں تو چپ سادھے رہا لیکن ان کے منصب کے ہٹنے والے دن ہی اس گروپ نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی تھیں کچھ نے تو اس کا کریڈٹ لینے کی بھی کوشش کی اور شاید کچھ رہنمائوں کا اس میں حصہ موجود بھی تھا، لیکن ایوان صدر میں منتقلی اور صدر آصف علی زرداری کے سیاسی فقروں کو خود سید یوسف رضا گیلانی بھی سمجھ نہ پائے کیونکہ وہ ساڑھے چار برس ایسے ہی فقروں پر سر دھنتے رہے تھے پھر بتدریج سب کچھ آشکار ہوتا گیا اور جس دن انہوں نے ایوان صدر سے کوچ کیا تو سب کچھ نہ سہی بہت کچھ سمجھ آگیا تھا باقی بھی سمجھ آجائے گا۔
دوسرا کڑوا سچ یہ ہے کہ اب سید یوسف رضا گیلانی فوج کے لئے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں اس لئے ان کے فوج سے تعلقات اچھے نہیں رہے، وزارت عظمیٰ کے دور میں ہی یہ تعلقات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے اور فوجی قیادت کے بارے میں سید یوسف رضا گیلانی کے تندوتیز فقرے ورکنگ ریلیشن شپ کو بھی متاثر کرنے لگے تھے۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے ابتدائی دور میں سید یوسف رضا گیلانی کے فوجی قیادت سے اچھے تعلقات استوار ہوئے جو کافی عرصہ بہترین رہے لیکن پھر ان میں دراڑ آنا شروع ہوگئی اور تیسرا کڑوا سچ یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی سزا یافتہ سیاستدان ہیں اور 5 برسوں کے لئے نااہل ہوچکے ہیں ۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے ، ان کے صاحبزادے بھی مختلف سنگین الزامات اور مقدمات کا سامنا کررہے ہیں جبکہ اطلاعات ہیں کہ ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف کچھ مزید الزامات اور ان کے مرتب ہونے والے اثرات پائپ لائن میں ہیں، بطور وزیراعظم انہوں نے پارٹی کے جن ساتھیوں اور دوستوں پر مہربانیاں کیں وہ بھی ان سے خوش نہیں اور جو ان کی نوازشوں سے محروم رہے وہ تو ویسے ہی ان سے نالاں ہیں، اس طرح پارٹی کے اندر صورتحال مکمل طور پر ان کے حق میں نہیں۔
ان حالات میں اگر سید یوسف رضا گیلانی یہ توقع رکھیں کہ ان کے حامیوں کا گروپ پارٹی کے اندر ان کے لئے آواز بلند کرے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہے اور اگر وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے حامی صدر آصف علی زرداری کے سامنے بھی ان کی حمایت کرتے ہوئے ان کو یاد دلائیں گے کہ سید یوسف رضا گیلانی کی پارٹی موجودہ حکومت اور خود صدر آصف علی زرداری کے لئے بہت قربانیاں ہیں تو یہ حالات کے سامنے آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہوگا۔
خود سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی آنکھوں کے سامنے پیپلز پارٹی کے کئی بت صدر آصف علی زرداری کے ہاتھوں گرتے ہوئے دیکھے ہیں اور کچھ کو گرانے میں تو خود سید یوسف رضا گیلانی کا بھی ہاتھ ہے ، بھلا دنیا میں مکافات عمل نام کی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کے کچھ سنجیدہ طبقے سید یوسف رضا گیلانی کی پارٹی سے ناراضگی کو مختلف انداز سے دیکھ رہے ہیں، ان کے مطابق یہ گیلانی صاحب کے اندر کی سیاست ہے جو حالات خراب کررہی ہے اور خود ان کے لئے مسائل کا سبب بن رہی ہے ورنہ سید یوسف رضا گیلانی کی پارٹی قیادت سے ناراضگی یا قیادت کی ان سے ناراضگی دراصل کوئی بڑی بات نہیں اور اگر سید یوسف رضا گیلانی اپنے اندر کا وزیراعظم نکال کر پارٹی عہدیدار کی سطح پر واپس آجائیں تو حالات فوراً سدھر جائیں گے۔
سیاسی پنڈتوں کی نظریں اب سید یوسف رضا گیلانی کے اگلے قدم پر ہیں اور اس کے اندازے بھی لگائے جارہے ہیں ایک اطلاع ہے کہ شاید وہ مسلم لیگ (ن) کا رخ کریں گے لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر کی اطلاعات ہیں کہ اب سید یوسف رضا گیلانی ان کے لئے کسی کام کے نہیں اور کچھ مسلم لیگی اس بات پر بھی غور کررہے ہیں کہ اگر سید یوسف رضا گیلانی نے ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا تو وہ پارٹی کے اندر مخالفت کریں گے، بہرحال حالات ابھی اس نہج پر نہیں کہ سید یوسف رضا گیلانی مسلم لیگ (ن) کا رخ کریں۔
خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے اندر پیدا ہونے والے اختلافات دور ہوجائیں گے ، وہ پارٹی کے وائس چیئرمین ہیں ، پرانے سیاستدان ہیں اور ان کا خاندان سیاست کی اونچ نیچ سمجھنے کا ایک صدی کا تجربہ رکھتا ہے اور سب سے بڑھ کر ان جیسا خوش قسمت سیاستدان دور دور تک ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ جہاں سید یوسف رضا گیلانی کی ضرورت ایک بڑی سیاسی جماعت ہے وہاں پیپلز پارٹی کی ضرورت بھی نامور اور اہم سیاستدان ہیں اور سید یوسف رضا گیلانی جنوبی پنجاب کی سیاست میں ایک اہم مقام اور مقامی سیاستدانوں میں بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اس لئے یوں لگتا ہے کہ وہ جہاندیدگی کا ثبوت دیتے ہوئے خود ہی حالات سنبھال لیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پارٹی اور خود ان کے لئے بھی یہ صورتحال نقصان دہ ہوگی۔