ویزا یہ ویزا

انگلینڈ امریکا کو بھی لگتا ہے کہ تیس سال پہلے جو پاکستان بہت کام کا تھا، اب کسی کام کا نہیں رہا


Wajahat Ali Abbasi October 10, 2012
[email protected]

کوئی تیس چالیس سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کا ہر ملک پاکستانیوں کو کھلے ہاتھوں اور دل سے اپنے ملک بلانا چاہتا تھا۔ اگر آپ کراچی میں واقع امریکن ایمبیسی جائیں تو بارش یا سردی میں ایمبیسی کے باہر کھڑا کرنے کے بجائے آپ کو فوراً اندر بلا کر آرام دہ صوفے پر بٹھایا جاتا تھا اور ویزا دینے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈا کوک بھی پلایا جاتا تھا۔

امریکا ہی کیوں ہمارے ساتھ کئی سو سال گزارنے والے انگریز کا بھی یہی برتائو تھا نہ صرف انگلینڈ کا ویزا بلکہ پاکستان میں بیٹھے بیٹھے ہی کوئی نوکری بھی اپنے ملک میں ڈھونڈ کر دیتا تھا بس پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا تھا لیکن انگلینڈ امریکا جیسی جگہوں پر کام ملنا اور ویزا لگنا کوئی بڑی بات نہیں تھی اور جہاں تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی دور دراز جگہوں کا سوال تھا تو پاکستانیوں کی ان جگہوں میں دلچسپی صرف اتنی تھی کہ ان کی کرکٹ کی ٹیم ہر میچ میں ہماری ٹیم سے ہارے اور کچھ نہیں۔ وہاں جانے کے بارے میں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

وقت بدلا، حالات بدلے اور ہماری طرف دنیا کے دیکھنے کا انداز بھی بدل گیا، امریکن ایمبیسی میں نرم صوفوں پر بیٹھ کر ٹھنڈا کوک پینا تو دور کی بات اب تو ایمبیسی کی گلی میں داخل ہونے کے لیے وہاں بیٹھے پولیس آفیسر کے ڈنڈوں سے بچنا پڑتا ہے،لائن میں گھنٹوں کھڑے بے ہوش ہوگئے تو یہ امریکن ایمبیسی کا برا نظام نہیں آپ کی بدقسمتی ہوتی ہے۔

وہ ملک جہاں ہمارا جانا اس جگہ کے لیے بہت اہم تھا۔ اب وہی ملک ہمیں وہاں دیکھنا پسند نہیں کرتے، دور کیوں جائیں اپنے دبئی کو ہی لے لیں۔ نئے قوانین کے مطابق پاکستانی بلیو کالر والے جاب کرنے والے اب دبئی کے لیے ویزا اپلائی نہیں کرسکتے یعنی آپ اگر پلمبر یا ڈرائیور ہیں تو دبئی آپ صرف ٹی وی اور انٹرنیٹ پر دیکھ پائیں گے، ساتھ آپ اگر کالج گریجویٹ نہیں ہیں تو دبئی جانے کا آپ کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ پاکستان میں صرف 3.9 فیصد کالج گریجویٹ ہیں اور اب سے دبئی ٹورازم ویزا کی درخواست صرف ان لوگوں کی پروسیس کی جائے گی جو ''ماں، ماں میں بی اے میں پاس ہوگیا'' والا سین اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرورکرچکے ہوں۔

انگلینڈ امریکا کو بھی لگتا ہے کہ تیس سال پہلے جو پاکستان بہت کام کا تھا، اب کسی کام کا نہیں رہا کیوں کہ اب پاکستانی باہر محنت کرنے نہیں جانا چاہتا بلکہ اپنے برے سسٹم، اپنی بری اکنامی سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے جس کے لیے بس اسے اپنے ملک سے نکلنا ہے اور اِس کا آسان طریقہ اسٹوڈنٹ ویزا حاصل کرنا یا پھر کسی فارن میں رہنے والے پاکستانی سے شادی ہے۔ انگلینڈ امریکا آج سمجھتا ہے کہ پاکستانیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس سے شادی کررہے ہیں۔ وہ چھوٹا ہو لمبا، پتلا موٹا، کالا، گورا، اسمارٹ، تعلیم یافتہ یا جاہل فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے تو اس شخص کے پاسپورٹ سے، اگر اس کے پاس فارن پاسپورٹ ہے تو اس کے ''قبول ہے'' میں پاکستانی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ اِسی لیے انگلینڈ نے اپنے کئی قوانین مشکل کردیے ہیں۔

شادی کی بنیاد پر ویزے کے، جیسے شادی کرنے والے یو کے ریذیڈنٹ کا 18 ہزار پونڈ سالانہ کمانا اور ساتھ اس کو انگریزی کا ٹیسٹ بھی پاس کرنا ہوتا ہے جس کے بعد ہی وہ اپنے اسپاؤس کو بلا پائے گا، آسٹریلیا کئی میچ پاکستان سے ہارا اورکئی جیتا لیکن ہم ان کے بھی امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے سامنے اپنا امیج بنانے سے ہار گئے۔ وہ جگہ جہاں تیس سال پہلے ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے جانے کا، آج ان کے مطابق پچھلے کچھ برسوں میں پاکستانیوں سے متعلق ریکارڈ چیٹنگ ویزا کیسز سامنے آئے ہیں، جس میں بیشتر وقت دِکھائی جانے والی شادی جھوٹ تھی۔ پچھلے چار سال میں 1300 پاکستانیوں کو آسٹریلیا سے واپس پاکستان بھیجا جاچکا ہے، جب امیگریشن ڈپارٹمنٹ کی تفتیش سے پتہ چلا کہ یہ شادی جھوٹی تھی، جس میں سے 406 صرف پچھلے سال یعنی ہر ہفتے 8 پاکستانی شادی Scan میں ڈی پورٹ کیے گئے۔

کئی لوگ آج ویزا حاصل کرنے کے لیے یہ چھپا جاتے ہیں کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ویزا حاصل کرکے پیپر ورک پورا ہونے پر ویزا دِلانے والے شخص کو چھوڑ دیتے ہیں یعنی اپنے اسپاؤنسر کو۔ اکثر پاکستانیوں کی ایسا کرنے کی کہانیاں اخباروں میں چھپتی رہتی ہیں، ساتھ ہی ہمارے پاکستانی بھی موقع سے فائدہ اٹھانے میں کم نہیں ہیں، مجبور اپنے ہی ملک کے لوگوں کو چیٹ کرکے کئی بیرونِ ملک پاکستانیوں کے کیسز بھی سامنے آرہے ہیں۔

یو کے کے جانے پہچانے کنزرویٹو پارٹی کے ممبر پرویز چوہدری نے پاکستان جا کر دوسری شادی کرلی اور یہ نہیں بتایا کہ وہ پہلے سے انگلینڈ میں شادی شدہ ہیں، بات کھل جانے پر یہ بات کئی دن تک یو کے کے اخباروں میں اچھلتی رہی، اپنے بچائو میں پرویز صاحب کا کہنا تھا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ پاکستان میں ہوئی شادی انگلینڈ میں بھی مانی جاتی ہے۔ اولمپک آئے اور چلے گئے، دنیا بھر کے کئی ہزار لوگوں کا اولمپک کے لیے ویزا لگا اور کوئی اسکینڈل نہیں بنا، سوائے پاکستانیوں کے۔ یقیناً آپ نے سنا ہوگا کہ پاکستانی یو کے کے جعلی ویزے لگاتے ہوئے پکڑے گئے۔

اِن خبروں نے ابھی پاکستانی کا پیچھا چھوڑا نہیں تھا کہ اب یہ خبر گرم ہے کہ جعلی ویزا بنانے والے انگلینڈ میں رہنے والے تنویر اعوان جن کے پاس خود بھی پاکستان کا جعلی پاسپورٹ تھا، وہ جعلی پاسپورٹ ری نیو کروانے کے لیے ہائی کمیشن بھیجا تو ہائی کمشنر نے خود اپنے ہاتھوں سے لکھا، ''پلیز ایشو پاسپورٹ ارجنٹلی'' جب کہ جعلی پاسپورٹ ضبط کرکے کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ آج پاکستانی کہیں ویزا لینے جاتا ہے تو ہر جگہ یہی خبریں عام ہیں کہ پاکستانی کا پاسپورٹ جعلی ہوتا ہے یا پھر ویزا اور اگر یہ دونوں جعلی نہیں ہوتے تو ارادہ جعلی ہوتا ہے۔

امریکا نے تو ہم پر پہلے ہی کئی پابندیاں لگائی ہوئی تھیں۔ پھر انگلینڈ نے بھی کمائی اور انگریزی کی بھاری requirement ہم پر تھوپ دیں۔ آسٹریلیا کو لگتا ہے ہم شادی کے نام پر دھوکا کرتے ہیں، ایک بار نہیں ہفتے میں آٹھ آٹھ بار اور دبئی کو لگتا ہے کہ ہم 3.5 فیصد سے زیادہ exist ہی نہیں کرتے۔

سچ سے ڈیل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔اس سے منہ موڑ لینا یا اس کا سامنا کرنا تو کیوں نہ ہم اِس سچ کو مان لیں کہ کوئی بھی ملک ہمارا وہاں آنا پسند نہیں کرتا اور یہ سمجھ کر باہر جانے کی چاہ چھوڑ دیں اور اپنے ملک میں رہ کر محنت سے اسے اتنا مضبوط بنائیں کہ کچھ برسوں میں گورا پھر صوفے پر بٹھا کر پلیٹ میں رکھ کر ویزا دے وہ بھی ٹھنڈی کوک کے ساتھ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں