صاف و شفاف الیکشن…ایک بھاری ذمے داری

شفاف الیکشن ایک ایسا مشکل ٹارگٹ ہے جو مضبوط سے مضبوط انسان کے اعصاب اور ہمت و حوصلے کے لیے بڑا کٹھن امتحان ہے

mnoorani08@hotmail.com

پاکستان الیکشن کمیشن کے موجودہ چیئرمین جناب جسٹس فخرالدین جی ابراہیم بلاشبہ ایک نہایت ایماندار،شریف اورغیرمتنازعہ شخصیت کے مالک ہیں۔

اُن کے انتخاب پر کسی جانب سے کوئی اعتراض یا مخالفت کانہ آنا ہی اُن کی خوبیوںکا ایک ایسا اعتراف ہے جو ہمارے یہاں بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ ورنہ بڑی سے بڑی غیر متنازعہ شخصیات کے بارے میں بھی سب کی رائے کا ایک ہوجانا موجودہ سیاسی حالات میں کسی طور ممکن نہ تھا۔ لیکن یہ فخرالدین جی ابراہیم کی شخصیت ہی ہے جن کی متانت ،سادگی اور غیر جانبداری تمام اہلِ سیاست اور فریقوں کے لیے قابلِ قبول تھی اور اُن کا انتخاب کسی تنا زعے کا باعث نہیں بنا۔یہ بات ہمارے لیے باعثِ اطمینان ہے کہ جناب فخرالدین جی ابراہیم حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہیں۔

بحیثیت سربراہِ الیکشن کمیشن جناب فخرالدین جی ابراہیم کے کاندھوں پر عمر کے اِس حصے میں ایک بھاری ذمے داری لاد دی گئی ہے جس سے بطریق احسن عہدہ برآ ہونا اب اُن کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ہماراملک اِس وقت جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، ان حالات میں شفاف الیکشن ایک ایسا مشکل ٹارگٹ ہے جو مضبوط سے مضبوط انسان کے اعصاب اور ہمت و حوصلے کے لیے بڑا کٹھن امتحان ہے۔وطنِ عزیز کے چار صوبوں میں سے بلوچستان کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے، وہاں امن و امان بالکل ناپید ہو چکا ہے۔ علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کے علاوہ وہاں مختلف قسم کی ٹارگٹ کلنگ بھی مسلسل جاری ہے، کبھی غیر مقامی افراد کی قتل و غارت گری شروع ہوجاتی ہے تو کبھی مذہبی اور لسانی تفریق پر انسانی خون کی ہولی کھیلنے کا نا تھمنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

بلوچستان کے مسئلے سے اہل اقتدار کی عدم دلچسپی اور لا تعلقی نے اُسے آج اِس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اب ایک لا علاج ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ابھی حال ہی میں بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلیٰ جناب سردار اختر مینگل پاکستا ن تشریف لائے اور بلوچستان کے مسئلے سے متعلق اپنے جن تحفظات اور خیالات کا اظہار کیا وہ ہم سب کے لیے لمحہ فکر تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے ایک بار پھر وہی طرزِ عمل اختیار کیا جو وہ گزشتہ چار پانچ سال سے کرتے آئے ہیںیعنی ایک محب ِ وطن درد مند بلوچ رہنما کی باتوں کو درخورِ اعتناء بھی نہ سمجھا اور اُسے ایک عام آدمی کی فضول بھڑکیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ہمارا یہی طرز عمل بلوچ عوام کو علیحدگی پسندی کی جانب دھکیل رہا ہے جس کا خمیازہ صرف ہمارے حکمراں ہی نہیں بھگتیں گے بلکہ پوری قوم کو بھی اپنی اِس بے مہری اور خاموش تماشائی بنے رہنے کا نتیجہ بھگتنا ہوگا۔

یہی حال کراچی کا بھی ہوتا جا رہا ہے یہاں لسانی بنیاد پر گروہ بندی اب اِس خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ایک پاکستانی ہونے کا خوبصورت تصور مسخ ہوکر رہ گیا ہے۔ مہاجر، پٹھان اور بلوچ گروپس ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں اور بعض اوقات چن چن کر علاقائی اور لسانی بنیادوں پر لوگوں کا قتل کیا جانا کراچی کے مستقبل کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ بعض فکر مند افراد کراچی کے مستقبل کو بیروت سے کم نہیں دیکھ رہے ہیں ۔ ہم ایک خوفناک سول وار کی جانب تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں۔


بلوچستان کی طرح امن و امان قائم کرنے کی ذمے داری یہاں بھی اُنہی لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو یہاں اپنی حکمرانی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے حکومت میں شامل تمام کے تمام فریق اِس مسئلے کے حل کے لیے کسی سنجیدہ کوشش کے خواہش مند ہی نہیں ہیں وہ اِس مسئلے کو جوں کا توں ہی رکھنے پر آمادہ اور خفیہ طور پر باہم رضا مند ہی دکھائی دیتے ہیں ورنہ یہ صرف ایک مخلص کوشش سے چند دنوں میں ہی ٹھیک کیا جا سکتا ہے لیکن بات یہاں بھی نیتوں کی ہی ہے ، جب نیت ہی میں فتور شامل ہو تو حالات کو اِسی طرح چلایا جاتا ہے کہ عوام کی ساری توجہ اِنہی مسائل کی جانب لگی رہے اور حکمراں اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرتے رہیں۔

بات ہو رہی تھی جناب فخرالدین جی ابراہیم کی ایمانداری اور غیر جانبداری کی جسے تمام شکوک و شبہات سے بالا تر قرار دیا جا سکتا ہے لیکن بلوچستان اور کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں کی کشیدہ صورتحال کو مدِ نظر رکھ کر کیا یہ ممکن دکھائی دیتا ہے کہ وہ اِ ن حالات میں صاف اور شفاف الیکشن کراکر سرخرو بھی ہو پائیں گے ۔ ایسا نہ ہو کہ جناب شیخ رشید کی پیش گوئی خدا نخواستہ سچ ثابت ہوجائے اور جیسے کہ وہ اگلے الیکشنوں کو خونی ہوتا دیکھ رہے ہیں کہیں درست ثابت ہوجائے تو پھر جناب فخرالدین جی ابراہیم کہاں کھڑے ہونگے ایسا تو نہیں کہ وہ اچانک انتخابات سے تھوڑا عرصہ پہلے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیکر اِس مشکل کام سے خود کو علیحدہ کر کے گھر بیٹھ جائیںاورساری قوم کو بیچ بھنور میں تنہا چھوڑ کر صرف معذرت کے چند الفاظ کہہ کر اللہ حافظ کہہ دیں۔

کیونکہ اِس ملک میں جہاں اب تک صرف ایک بار صاف اور شفاف الیکشن ہی ہوپائے ہیں وہ 1970 کے الیکشن تھے جس کے بعد اِس قوم نے کبھی بھی شفاف الیکشن نہیںدیکھے۔ دیکھا گیا ہے کہ پولنگ اسٹیشن پر سیاسی پارٹی کے کارکنوں یا اُن کے پالے ہوئے اسلحہ بردار غنڈوں کا قبضہ ہوتا ہے اور پولنگ ایجنٹ اور ریٹرننگ آفیسر سب اُن کے ما تحت ہوتے ہیں۔ یہاں شام کو نتیجہ صرف اُسی کے حق میں ہوتا ہے جس کا زور سب پر بھاری ہوتا ہے۔ شہر کراچی آج کل جن حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں پُر امن انتخابات ایک سہانا خواب ہی ہیں۔ جہاں عام حالات میں دس بارہ افراد کا قتل ہونا روز کا معمول بن جائے وہاں الیکشن کے دن کتنا انسانی خون بہے گا یہ سوچ کر دل دہل جاتا ہے۔

کیا ہم نے اِس خونی الیکشن کی روک تھام کی ابھی سے کوئی تیاری کر لی ہے ۔ حکومتی طرز ِعمل سے تو یہ ہر گز دکھائی نہیں دیتا ۔جناب فخرالدین جی ابراہیم اپنی تمام خوبیوں ،خلوصِ نیت اور جانفشانی کے باوجود سارے ملک میں ایک صاف اور شفاف الیکشن کرا پائیں گے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ اور اگر اِس ملک میں صاف اور شفاف الیکشن نہ ہو سکے تو اِس ملک کا مستقبل ایک ایسے خطرناک راستے پر چل پڑے گاجہاں اِس کی وحدت وسالمیت کی کوئی بھی ضمانت نہیں دے سکے گا۔

الیکشن کو صاف اور شفاف بنانا صرف الیکشن کمیشن یا جناب اکیلے فخرالدین جی ابراہیم ہی کی ذمے داری نہیں ہے یہ تمام مقتدر قوتوں اور سیاسی جماعتوں کی بھی قومی ذمے داری ہے کہ وطنِ عزیز کو ایک خوفناک انجام سے بر وقت بچایا جائے اورہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی بن کر صرف قوم کے ڈوبنے کا نظارہ کرنے کی عادت سے اجتناب کیا جائے۔ آگے بڑھ کر الیکشن کمیشن کی مدد کی جائے اور صاف اور شفاف الیکشن کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کی نہ صرف نشاندہی کی جائے بلکہ اُن کا قلع قمع کرنے میں اپنی کسی مصلحت یا مجبوری کا شکار بھی نہ ہوا جائے۔
Load Next Story