نئے پاکستان کا ورد کیوں اور کیسے
نئے پاکستان کا تھوڑے دن چرچا رہا۔ کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ نصف پاکستان غائب ہو گیا۔
یہی کوئی چار پانچ دن پہلے کی بات ہے کہ اپنے اسی ایکسپریس میں ڈاکٹر مبارک علی کا انٹرویو شایع ہوا ہے۔ انٹرویو لینے والے ہیں محمود الحسن۔ ڈاکٹر مبارک علی کا انٹرویو تھا۔ سو ہم اس سے سرسری تو نہیں گزر سکتے تھے۔یہ ہمارے ایسے مورخ ہیں جنہوں نے ہماری اپنی تاریخ کو سکہ بند مورخوں سے ذرا ہٹ کر دیکھا ہے۔ ویسے ہمارے یہاں سمجھا یہ جاتا ہے کہ علمی زبان تو انگریزی ہے۔
سو علمی کام انگریزی ہی میں ہونا چاہیے تو ہم اپنی تاریخ بھی انگریزی میں پڑھتے چلے آئے ہیں مگر اسی انٹرویو میں ڈاکٹر مبارک علی نے انگریزی سے ہٹ کر اردو میں تاریخ لکھنے کے عمل کی توجیہہ یوں کی ہے کہ ''آسان اردو میں تاریخ لکھنے کا جو تجربہ کیا وہ کامیاب رہا''۔ اس کی وضاحت انھوں نے یوں کی ہے کہ ''تاریخ کے مضمون سے انصاف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب آپ اسے عوام کی سطح پر لے کر جائیں''۔
چلیے یہ تو ہوا۔ مگر وہ جس طرح مسلمانوں کی تاریخ کو' خاص طور پر برصغیر پاک و ہند کے حوالے سے دیکھتے ہیں اس میں ایسے مقامات آتے ہیں کہ جن لوگوں نے فاتحین کو اپنے ہیرو مان رکھا ہے وہ ان کے تاریخی بیان کو ہضم نہیں کر سکتے۔
خیر وہ تو بھڑوں کا چھتہ ہے۔ اس میں فی الحال ہاتھ نہیں ڈالتے۔ لیکن پاکستان کی حکومتوں نے پاکستان کی تاریخ کو اپنی سیاست کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کی ہیں اس کا ذکر تھوڑا کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے تخصیص کے ساتھ ایک نئے تصور پاکستان کا ذکر کیا ہے جو پاکستان بننے کے بعد یاروں کی ذہنی اختراع کے طور پر وجود میں آیا۔ استدلال یوں کہا گیا کہ یہ جو انڈس ویلی ہے اس کی تو ہندوستان سے الگ ایک شناخت چلی آ رہی تھی۔ پاکستان اصل میں اسی سے عبارت ہے۔ مگر اس تصور میں کھنڈت ڈالی مشرقی پاکستان نے۔ یعنی اگر پاکستان انڈس ویلی ہی سے عبارت ہے تو مشرقی پاکستان کدھر سے اس بیچ آن ٹپکا۔ سو جب مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا اور بنگلہ دیش بن گیا تو اس نظرئیے کے فروغ پانے کے امکانات پیدا ہوگئے۔
سو ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے ساتھ ہی ایک محکمہ ثقافت وجود میں آیا۔ اس کے زیر نگرانی ایک رسالہ 'ثقافت' کے نام سے شروع ہوا جس میں اس نظریے کا پرچار شروع ہوا کہ جن علاقوں پر اب پاکستان مشتمل ہے ان کی پہلے الگ حیثیت چلی آ رہی تھی۔ ہندوستان کی سرزمین سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور ایک تھے قدرت اللہ فاطمی صاحب جو اس سرکاری لائن کو چلا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ایک شگوفہ چھوڑا گیا کہ نیا پاکستان۔ تو گویا یہ تھا نیا پاکستان۔
اسی ذیل میں ڈاکٹر مبارک علی نے اعتزاز احسن کی کتاب The Indus Saga and Making of Pakistan کا ذکر کیا ہے۔ صورت احوال یوں ہے کہ اعتزاز احسن تو تھے ایک اچھے بھلے سیاسی لیڈر۔ مگر تاریخ نگاری کے اپنے اداب ہیں۔ انھوں نے سیاسی انداز میں سوچا۔ اس حساب سے اس علاقہ کی تاریخ لکھی۔ اور تحریک پاکستان کے ابواب اس انداز سے مرتب کیے کہ ان میں سے بنگالی غائب۔ انھیں الگ طاق میں بٹھا دیا گیا یعنی ان کے ذیل میں الگ باب۔ مطلب یہ کہ بنگالیوں کی اپنی جدوجہد آزادی تھی۔ مگر ادھر بھی مختلف صوبے اس بیان سے نامطمئن نظر آئے۔
نئے پاکستان کا تھوڑے دن چرچا رہا۔ کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ نصف پاکستان غائب ہو گیا۔ تب نئے پاکستان کا گل کھلا۔ خیر نئے پاکستان کی بات جلد ہی آئی گئی ہو گئی۔ پھر اس مردے کو عمران خان نے زندہ کیا۔ مگر کیا زندہ ہوا۔ کسی نے اسے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی والوں تک کو یہ یاد نہ آیا کہ یہ آئیڈیا تو ان کی تخلیق تھی۔ عمران خاں نے اسے کیسے اچک لیا۔
ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ ''یہ سب اس لیے تھا کہ جتا سکیں کہ ہندوستان سے ہمارا کوئی تہذیبی رشتہ نہیں''۔ چلیے ہندوستان سے تو کوئی تہذیبی رشتہ نہیں ہے مگر وہ جو پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ کے نشانات و آثار بکھرے پڑے ہیں ان سے کیسے آنکھیں چراؤ گے۔ انھیں کا تو حوالہ دے دے کر تحریک پاکستان کے علمبردار دعوے کرتے تھے کہ ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی اپنی ایک شناخت ہے۔ اس بنیاد پر وہ اپنے لیے اس سرزمین پر ایک الگ ملک کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مبارک علی نے اس ذیل میں ڈاکٹر دانی کا بھی حوالہ دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ''ضیا دور میں ڈاکٹر حسن دانی نے کہنا شروع کر دیا کہ ہمارا کلچرل رشتہ تو وسط ایشیا سے ہے' ہندوستان سے نہیں۔ اور اگر فارسی زبان کو یہاں رائج کریں تو ہم ان جیسے ہو جائیں گے''۔
یہ بھی خوب کہی۔ ارے فارسی ہی تو اب سے پہلے رائج رہی ہے۔ کم و بیش ایک ہزار سال تک ہم کیا کرتے رہے تھے۔ فارسی ہی میں سارے کاروبار کرتے رہے۔ مسلمان حکمرانوں کے زیر اثر ہندو ریاستوں میں بھی اچھی خاصی حد تک فارسی کا بول بالا رہا۔ آخری دور مغلیہ میں بھی صورت یہ تھی کہ بہادر شاہ ظفر شاعری اردو میں کرتے تھے' شاہی احکامات فارسی میں جاری کرتے تھے۔ مگر رہے ہم وہی موچی کے موچی۔ مسلمانوں کا اقتدار گیا تو اس کے ساتھ فارسی بھی رخصت ہو گئی۔ انگریزوں کے دور میں ہمارے بیچ جتنی بھی فارسی رہ گئی تھی اسے پاکستان نے رخصت کرنے کی ٹھانی۔ بس پھر وہ اورینٹل کالج میں محدود ہو کر رہ گئی۔
ارے کہیں اس طرح سے قومیں بدلا کرتی ہیں۔ فارسی نے دربار سے نکل کر مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں بھی کتنا رسوخ حاصل کر لیا تھا۔ مگر بس یوں سمجھو کہ
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
اور پھر ہم تھے اور ہماری دیسی زبانیں تھیں۔ ادھر ہندوستان والے آتے ہیں تو ان کی زبان تو ہماری خوب سمجھ میں آتی ہے۔ تہران سے ہمارے ایرانی بھائی اپنی فارسی بولتے ہوئے آتے ہیں تو وہ خاک سمجھ میں نہیں آتی۔ شیخ سعدی والی فارسی تو ہم پھر بھی تھوڑا بہت سمجھ لیتے ہیں۔ مگر آج کے ایران کی فارسی تو ہمارے لیے یونانی ہے۔کریما بہ بخشائے برحال ما' کا کتنا ورد کیا۔ سب فراموش ہو گیا۔