سانپ اور سیڑھی کا کھیل

سیاست سانپ اور سیڑھی کا ایسا کھیل ہے کہ کھلاڑی کو پلک جھپکتے آسمان پر بھی پہنچادیتا ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

سیاست سانپ اور سیڑھی کا ایسا کھیل ہے کہ کھلاڑی کو پلک جھپکتے آسمان پر بھی پہنچادیتا ہے اور پلک جھپکتے پاتال میں بھی لاکھڑا کردیتا ہے۔ تحریک انصاف کے اس کھیل میں ایک وقت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ وکٹری اسٹینڈ کے قریب پہنچ گئی ہے اور پھر پتہ چلا کہ وہ پاتال میں کھڑی ہے، فرق یہ ہے کہ سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں ہار جیت کا اختیار کھلاڑی کی کوششوں پر منحصر نہیں ہوتا، سیاست کا کھیل کھلاڑی کی مہارت اور صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔

اس کھیل میں عمران خان کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا اس میں اتفاق یا قسمت کا کوئی دخل نہ تھا بلکہ اس شکست کی اصل وجہ کھلاڑی کا ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا۔ عمران خان جس اسمبلی کو جعلی کہتے رہے اور کسی قیمت پر دوبارہ اس اسمبلی میں جانے سے انکار کرتے رہے' آخرکار اس جعلی اسمبلی میں جانے پر مجبور ہوئے اور جہاں ان کا استقبال گو عمران گو کے نعروں سے کیا گیا اور اراکین اسمبلی ان کا مضحکہ اڑاتے رہے اور تحریک انصاف کی 7،8 ماہ کے بعد واپسی کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس دلچسپ اور اہم ترین کھیل کا آغاز ہی غلط چال سے کیا گیا، یعنی جارہے تھے نیا پاکستان بنانے اور اسٹیٹس کو، کو توڑنے اور بسم اﷲ کی نواز شریف استعفیٰ دو اور گو نواز شریف گو سے۔ گو نواز گو کا نعرہ اگرچہ اس قدر مقبول ہوا کہ ملک کے بچے بچے کی زبان پر یہ نعرہ تھا، بلکہ اس نعرے کی مقبولیت کا حال یہ تھا کہ خود (ن) لیگ کے رہنما اور کارکن بے خیالی میں گو نواز گو کے نعرے لگاتے تھے اور شرمندہ ہوتے تھے۔

اصل میں تبدیلی انقلاب اور نئے پاکستان کا تعلق پرانے پاکستان کا خاتمہ تھا اور پرانے پاکستان کو ختم کرنے کی کوئی کامیاب حکمت عملی بنانے کے بجائے گو نواز گو اور نواز شریف استعفیٰ دو کے ایسے نعرے لگائے گئے کہ جن کا تعلق نہ پرانے پاکستان کے خاتمے سے تھا نہ نئے پاکستان کی تشکیل سے اور بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ ان کی پارٹی میں کوئی ایک بھی بندہ ایسا نہ تھا جو اس غلطی کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا اور انھیں اسٹیٹس کو، کو توڑنے کے اقدامات سے آگاہ کرتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ نواز شریف نے استعفیٰ دیا نہ گو نواز گو کی آرزو پوری ہوئی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف شرمندگی کا چولا اوڑھے اس اسمبلی میں بیٹھی ہے جسے وہ کل تک جعلی کہا کرتی تھی اور دعویٰ کرتی تھی کہ اب تحریک انصاف کا کوئی ممبر اس اسمبلی میں قدم نہیں رکھے گا، جو رکھے گا اس کا تعلق تحریک انصاف سے ختم ہوجائے گا۔

200 دن سے زیادہ طویل اس کھیل میں دانستہ یا نادانستہ ایسی غلطیاں کی جاتی رہیں جو نہ صرف انھیں منزل سے دور لے جاتی رہیں بلکہ عوام کے دلوں میں شکوک بھی پیدا کردیے، عمران خان بار بار یہ کہتے رہے کہ اب ''امپائر'' کی انگلی اٹھنے والی ہے، لیکن آخر تک نہ امپائر کی انگلی اٹھی نہ امپائر نظر آیا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ عمران خان کی سیاسی اور نظریاتی غلطی تھی۔ یہ ایسی غلطی تھی ۔


ہم نے بار بار اس حقیقت اور عمران کی خوش قسمتی کی طرف اشارہ کیا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی تحریک کو یہ اعزاز حاصل نہ ہوسکا کہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لاکھوں عوام کے ہجوم جن میں بوڑھے جوان مرد عورتیں بچے شامل ہوں اس طرح کسی کے جلسوں دھرنوں میں شامل ہوئے ہوں، اس حوالے سے ایک بڑی غلطی یہ تھی کہ عمران کو یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی تھی کہ وہ اکیلے ہی سولو فلائٹ کے ذریعے یہ انقلاب برپا کردیںگے۔ انھیں غالباً اس بات کا احساس ہی نہیں تھا کہ انھوں نے چہرے نہیں نظام بدلو کا نعرہ لگاکر ان تمام سیاستدانوں کو ایک پیج پر کھڑا کردیا تھا جو 67 سال سے نظام نہیں چہرے بدلو کی سیاست کررہے تھے۔ اسمبلی میں 11 جماعتوں کا دھرنا ان ہی لوگوں نے دیا تھا جو چہروں کی تبدیلی کی روایت سے بھرپور فائدہ اٹھارہے تھے اور نظام کی تبدیلی سے جن کا بیڑہ غرق ہوجاتا تھا۔

اہل فکر کا کہنا ہے کہ اس تحریک کا آغاز نظام کی تبدیلی کے لیے کیا ہی نہیں گیا تھا بلکہ اس تحریک کی قیادت کرنے والوں کی نظریں اقتدار کی کرسی پر جمی ہوئی تھیں اور ساری حکمت عملی اس نکتے کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی، اگر یہ شک درست ہو بھی تو المیہ یہ رہا کہ اس مبینہ ہدف تک پہنچنے کے لیے بھی وہ راستہ اختیار نہیں کیا گیا جو انھیں کامیابی کی منزل کی طرف لے جاتا، ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ عوام کی اجتماعی طاقت ان لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز رہی جو دانستہ یا نادانستہ طور پر عوام کی اس بے پناہ اجتماعی طاقت کا مثبت استعمال نہ کرسکے۔

14اگست کے بعد کئی بار ایسے مرحلے آئے کہ اگر عوام کی اس غیر متوقع حمایت کا درست استعمال کیا جاتا تو بعض اہم کامیابیاں حاصل کی جاسکتی تھیں مثلاً اگر تحریک کی قیادت کرنے والے انقلاب کی شرط اول یعنی زرعی اصلاحات کے مطالبے پر ڈٹ جاتے تو حکومت اس مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی لیکن ایسا نہیں کیاگیا جس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک کی قیادت یا تو نئے پاکستان کی ضرورت شرائط سے واقف نہیں تھی یا واقف تھی تو اس نے جان بوجھ کر اس آسانی سے حاصل ہونے والی کامیابی کو پس پشت ڈال دیا۔

اسٹیٹس کو، کو توڑنے کے لیے ان اتحادیوں کا اتحاد توڑنا یا اس اتحاد کو بے اثر بنانا ضروری تھا جو 67 سال سے اقتدار مافیا میں بدل گیا تھا لیکن اس اتحاد کو توڑنے کے بجائے مرکزی اتحادیوں کی طرف پر امید نظروں سے دیکھا جاتا رہا کہ وہ اس ''انقلاب'' میں ان کی مدد کریں، اس حوالے سے دوسری ضرورت یہ تھی کہ ایسی انتخابی اصلاحات منوالیں جو انتخابات کو ایلیٹ کی گرفت سے نکال سکیں، لیکن اس کامیابی سے ہمکنار ہونے والے مطالبے کو بھی بارہویں کھلاڑی کی حیثیت دے دی گئی۔

اقتدار مافیا کو یہ احساس ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات کردیے گئے تو ان کے ہاتھوں سے اقتدار پھسل جائے گا یہ مطالبہ بھی منوایا جاسکتا تھا لیکن بوجوہ اسے بھی پس پشت ڈال دیا گیا، اس پورے سیٹ اپ کو توڑنے کے الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے لیکن اس مطالبے کو بھی پیچھے دھکیل دیاگیا۔ یہ ساری نادانستہ غلطیاں تھیں یا دانستہ چشم پوشیاں، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔
Load Next Story