وقت وقت کی بات ہے
’’وقت بدل رہا ہے‘‘ یہ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں لیکن اب وقت کے ساتھ وقت دیکھنے کا انداز بھی بدل رہا ہے،
''وقت بدل رہا ہے'' یہ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں لیکن اب وقت کے ساتھ وقت دیکھنے کا انداز بھی بدل رہا ہے، انسان کی سب سے بڑی تخلیق پہیے کو کہا جاتا ہے، وہ پہیہ جس سے تہذیب کا آغاز ہوا، لیکن پہیے کے علاوہ انسان کو آگے بڑھنے کے لیے سب سے اہم ایجاد تھی ''وقت''۔
سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک اور موسم کے بار بار بدلنے کو انسان نے سیکنڈوں، منٹوں، دنوں، مہینوں اور برسوں میں قید کردیا، وہ ''قید'' جس میں وقت کبھی بندھا نہیں ہمیشہ چلتا رہا۔ لفظ ''واچ'' انگریزی کے ''واچ مین'' سے نکلا ہے جو کئی سو سال پہلے انگلش چوکیدار اپنی نوکری کی شفٹ شروع اور ختم ہونے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
1485 میں پیٹر ہیلی نامی شخص کو گھڑی کا موجد مانا جاتا ہے، یہ وہ جرمن کرافٹ مین تھا جس نے کلاک واچ ایجاد کی تھی اور اس گھڑی کو جو پینڈنٹ کی شکل کی ہوتی تھی، دھاگے سے باندھ کر کوٹ کی جیب میں رکھا جاتا تھا، پیٹر کی گھڑی کی خاص بات یہ تھی کہ وہ چھوٹی تھی اور باآسانی جیب میں آجاتی تھی۔
پیٹر کی گھڑیاں چابی سے چلتیں اور ایک بار چابی دینے سے چالیس گھنٹے تک چلتیں، اگلے پانچ سو سال گھڑی کی تاریخ میں صرف اس کی ریفائنمنٹ میں نکلے۔ یہ بات سن کر شاید آپ کو حیرانی ہوگی کہ رسٹ واچ پہلے صرف خواتین پہنتی تھیں کیوں کہ وہ کوٹ نہیں پہنتی تھیں، اس لیے جیب میں گھڑی رکھنا ناممکن تھا، اسی لیے ان کے لیے واچ بنائی گی، جسے ARM WATCH کہا جاتا تھا۔
تاریخ کے مطابق 1571 میں پہلی بار کوئن ایلزبتھ اول کو ایک واچ میکر نے آرم واچ بناکر تحفتاً پیش کی تھی، انیسویں صدی کے آخر تک رسٹ واچ آرمی کے لوگوں نے پہننا شروع کردی تھی، جن کے لیے وقت کی یکسانیت ضروری تھی اور جنگ کے دوران بار بار جیب سے گھڑی نکال کر دیکھنا ناممکن تھا۔
1885 میں باقاعدہ مردوں کے لیے رسٹ واچ کی پروڈکشن شروع ہوگئی۔ شروع میں یہ پاکٹ واچ ہی تھی جس پر اسٹریپ باندھ دیا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ گھڑی باقاعدہ رسٹ کے لیے ڈیزائن کی جانے لگی۔
1960 میں Quartz گھڑیاں آگئیں جو بیٹری سے چلتیں اور انھیں چابی دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ 1980 تک بیٹری سے چلنے والی گھڑیاں تیزی سے دنیا میں مقبول ہوگئیں اور چابی سے چلنے والی گھڑیاں اب صرف لگژری آئٹم کے طور پر مارکیٹ میں دستیاب ہوتیں۔
1990 میں پہلی ریڈیو کنٹرولڈ واچ آئی جس کا نام تھا ''میگاون'' یہ گھڑی ریڈیو ریسیور سے اپنا ٹائم بالکل صحیح سیٹ کرسکتی ہے۔ اسی لیے یہ ہمیشہ درست وقت دکھاتی، جب کہ یہ گھڑی آج بھی موجود ہے مگر عام خریداروں میں یہ کوئی خاص مقبول نہیں ہے۔
دنیا بھر کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نظر رسٹ واچ پر تھی کہ کیسے اسے مزید بہتر بنایاجائے، پچھلے کئی برسوں سے ویڈیو گیمز، کیلکولیٹرز والی گھڑیاں ہم نے ضرور دیکھی ہیں لیکن کوئی بھی کمپنی گھڑی میں ایسا بدلاؤ نہیں لاسکی جیسا کچھ سال پہلے موبائل فون میں آیا تھا۔ اب موبائل فون صرف فون ملانے کے کام نہیں آتے بلکہ فیس بک، گوگل، ایس ایم ایس کی وجہ سے ہماری پوری زندگی موبائل فون کے اطراف گھومتی ہے، ایسا انقلاب ابھی تک گھڑی سازی میں نہیں آیا تھا، لیکن اب لگتا ہے کہ بہت جلد گھڑی کا بھی ''وقت'' بدلنے والا ہے، کچھ ہفتے پہلے آئی فون بنانے والی دنیا کی سب سے مشہور کمپنی ایپل نے اپنی نئی پروڈکٹ کا اعلان کیا جو ابھی ابھی ریلیز ہوگئی ہے وہ پروڈکٹ ہے ''آئی واچ'' یعنی کہ وہ گھڑی جو سب کچھ کرسکتی ہے، جو آپ کا اسمارٹ فون کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
آئی واچ مارکیٹ میں تین مختلف طرح کے ماڈلز میں آرہی ہے، ایک عام گھڑی جیسی دکھائی دینے والی آئی واچ جو پانچ سو ڈالر کی قیمت سے شروع ہوتی ہے، دوسری آئی واچ اسپورٹس ہے جو ساڑھے تین سو ڈالرز سے شروع ہوتی ہے اور تیسری آئی واچ اسپیشل ایڈیشن ہے جو دس ہزار ڈالر سے شروع ہوگی، ان تینوں میں سائز کا فرق ہے اور تھوڑا بہت اسٹریپ کی کوالٹی میں، اسپورٹس واچ کا اسٹریپ پلاسٹک کا ہے، آئی واچ کا اسٹین لیس اسٹیل کا اور اسپیشل ایڈیشن کی باڈی اٹھارہ کیرٹ گولڈ کی ہے۔
آئی واچ کو چلانے کے لیے آپ کے پاس آئی فون ہونا ضروری ہے کیوں کہ اسی کے ذریعے واچ انٹرنیٹ سے جڑی رہتی ہے، اس گھڑی میں بالکل ویسا ہی ٹچ اسکرین ہے جیسا اسمارٹ فون میں ہوتا ہے، آپ اسکرین کو ٹچ کرکے کئی فنکشنز انجام دے سکتے ہیں، ایک طرف عام گھڑیوں کی طرح ایک چھوٹا سا وہیل ہے جس سے آپ مزید کئی فنکشنز کرسکتے ہیں، اس گھڑی سے آپ بات کرسکتے ہیں۔
ایپل کا مشہور ''Siri Preg'' ایک ایسی آواز ہے جو آپ کے بولے الفاظ سمجھتی ہے، اگر آپ اپنی گھڑی سے کوئی بھی سوال کریں جیسے ''اس وقت موسم کیا ہے؟'' یا ''کل بارش ہوگی؟'' یا ''میری اگلی میٹنگ کب ہے؟'' تو یہ گھڑی بول کر جواب دے گی۔ اگر آپ کو کسی کو ٹیکسٹ میسج کرنا ہے، خصوصاً گاڑی چلاتے وقت جب آپ ٹائپ نہیں کرسکتے تو صرف گھڑی کو منہ کے قریب لاکر پیغام بول دینے سے گھڑی خود یہ ٹائپ کرکے SEND کردے گی۔
گھڑی کے پیچھے خصوصی سینسر لگائے گئے ہیں، وہ سینسر جو آپ کی اسکن کو محسوس کرکے آپ کی صحت کو مانیٹر کرسکتے ہیں۔ آپ کے دل کی دھڑکن مستقل جانچ سکتے ہیں اور یہ بھی دکھا سکتا ہے کہ آپ کے دل کی دھڑکن کیسے تیز ہوتی ہے۔ جب آپ جاگنگ کرتے ہیں یا سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔
آئی واچ میں جی پی ایس بھی لگا ہوا ہے یعنی آپ اگر چاہیں تو آپ کے گھر والے یا دوست دیکھ سکتے ہیں کہ آپ اس وقت کہاں ہیں، اس گھڑی کو آپ Navigation کے لیے بھی استعمال کرسکتے جو آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی ڈائریکشن بتاسکتی ہے۔
یہ گھڑی واٹر پروف ہے اور اس وقت روزانہ درجنوں APPS اس کے لیے ٹیسٹ کی جارہی ہیں۔
2010 جب ایپل نے آئی پیڈ ریلیز کیا تھا تو سب نے کہا تھا کہ آئی فون ہے تو آئی پیڈ کی کیا ضرورت ہے؟ یہ پروڈکٹ فلاپ ہوجائے گی، آج پچھلے پانچ سال میں 170 ملین آئی پیڈ بک چکے ہیں، بیشتر امریکن اسکول بغیر آئی پیڈ کے کلاس روم کا تصور نہیں کرسکتے۔ لوگ اس وقت آئی واچ کی کیا ضرورت ہے، کی بات کررہے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ گھڑی کا وقت بدل رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کی زندگی میں اسمارٹ واچ بھی اتنی ہی اہم ہوجائے گی جتنا اسمارٹ فون۔
سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک اور موسم کے بار بار بدلنے کو انسان نے سیکنڈوں، منٹوں، دنوں، مہینوں اور برسوں میں قید کردیا، وہ ''قید'' جس میں وقت کبھی بندھا نہیں ہمیشہ چلتا رہا۔ لفظ ''واچ'' انگریزی کے ''واچ مین'' سے نکلا ہے جو کئی سو سال پہلے انگلش چوکیدار اپنی نوکری کی شفٹ شروع اور ختم ہونے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
1485 میں پیٹر ہیلی نامی شخص کو گھڑی کا موجد مانا جاتا ہے، یہ وہ جرمن کرافٹ مین تھا جس نے کلاک واچ ایجاد کی تھی اور اس گھڑی کو جو پینڈنٹ کی شکل کی ہوتی تھی، دھاگے سے باندھ کر کوٹ کی جیب میں رکھا جاتا تھا، پیٹر کی گھڑی کی خاص بات یہ تھی کہ وہ چھوٹی تھی اور باآسانی جیب میں آجاتی تھی۔
پیٹر کی گھڑیاں چابی سے چلتیں اور ایک بار چابی دینے سے چالیس گھنٹے تک چلتیں، اگلے پانچ سو سال گھڑی کی تاریخ میں صرف اس کی ریفائنمنٹ میں نکلے۔ یہ بات سن کر شاید آپ کو حیرانی ہوگی کہ رسٹ واچ پہلے صرف خواتین پہنتی تھیں کیوں کہ وہ کوٹ نہیں پہنتی تھیں، اس لیے جیب میں گھڑی رکھنا ناممکن تھا، اسی لیے ان کے لیے واچ بنائی گی، جسے ARM WATCH کہا جاتا تھا۔
تاریخ کے مطابق 1571 میں پہلی بار کوئن ایلزبتھ اول کو ایک واچ میکر نے آرم واچ بناکر تحفتاً پیش کی تھی، انیسویں صدی کے آخر تک رسٹ واچ آرمی کے لوگوں نے پہننا شروع کردی تھی، جن کے لیے وقت کی یکسانیت ضروری تھی اور جنگ کے دوران بار بار جیب سے گھڑی نکال کر دیکھنا ناممکن تھا۔
1885 میں باقاعدہ مردوں کے لیے رسٹ واچ کی پروڈکشن شروع ہوگئی۔ شروع میں یہ پاکٹ واچ ہی تھی جس پر اسٹریپ باندھ دیا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ گھڑی باقاعدہ رسٹ کے لیے ڈیزائن کی جانے لگی۔
1960 میں Quartz گھڑیاں آگئیں جو بیٹری سے چلتیں اور انھیں چابی دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ 1980 تک بیٹری سے چلنے والی گھڑیاں تیزی سے دنیا میں مقبول ہوگئیں اور چابی سے چلنے والی گھڑیاں اب صرف لگژری آئٹم کے طور پر مارکیٹ میں دستیاب ہوتیں۔
1990 میں پہلی ریڈیو کنٹرولڈ واچ آئی جس کا نام تھا ''میگاون'' یہ گھڑی ریڈیو ریسیور سے اپنا ٹائم بالکل صحیح سیٹ کرسکتی ہے۔ اسی لیے یہ ہمیشہ درست وقت دکھاتی، جب کہ یہ گھڑی آج بھی موجود ہے مگر عام خریداروں میں یہ کوئی خاص مقبول نہیں ہے۔
دنیا بھر کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نظر رسٹ واچ پر تھی کہ کیسے اسے مزید بہتر بنایاجائے، پچھلے کئی برسوں سے ویڈیو گیمز، کیلکولیٹرز والی گھڑیاں ہم نے ضرور دیکھی ہیں لیکن کوئی بھی کمپنی گھڑی میں ایسا بدلاؤ نہیں لاسکی جیسا کچھ سال پہلے موبائل فون میں آیا تھا۔ اب موبائل فون صرف فون ملانے کے کام نہیں آتے بلکہ فیس بک، گوگل، ایس ایم ایس کی وجہ سے ہماری پوری زندگی موبائل فون کے اطراف گھومتی ہے، ایسا انقلاب ابھی تک گھڑی سازی میں نہیں آیا تھا، لیکن اب لگتا ہے کہ بہت جلد گھڑی کا بھی ''وقت'' بدلنے والا ہے، کچھ ہفتے پہلے آئی فون بنانے والی دنیا کی سب سے مشہور کمپنی ایپل نے اپنی نئی پروڈکٹ کا اعلان کیا جو ابھی ابھی ریلیز ہوگئی ہے وہ پروڈکٹ ہے ''آئی واچ'' یعنی کہ وہ گھڑی جو سب کچھ کرسکتی ہے، جو آپ کا اسمارٹ فون کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
آئی واچ مارکیٹ میں تین مختلف طرح کے ماڈلز میں آرہی ہے، ایک عام گھڑی جیسی دکھائی دینے والی آئی واچ جو پانچ سو ڈالر کی قیمت سے شروع ہوتی ہے، دوسری آئی واچ اسپورٹس ہے جو ساڑھے تین سو ڈالرز سے شروع ہوتی ہے اور تیسری آئی واچ اسپیشل ایڈیشن ہے جو دس ہزار ڈالر سے شروع ہوگی، ان تینوں میں سائز کا فرق ہے اور تھوڑا بہت اسٹریپ کی کوالٹی میں، اسپورٹس واچ کا اسٹریپ پلاسٹک کا ہے، آئی واچ کا اسٹین لیس اسٹیل کا اور اسپیشل ایڈیشن کی باڈی اٹھارہ کیرٹ گولڈ کی ہے۔
آئی واچ کو چلانے کے لیے آپ کے پاس آئی فون ہونا ضروری ہے کیوں کہ اسی کے ذریعے واچ انٹرنیٹ سے جڑی رہتی ہے، اس گھڑی میں بالکل ویسا ہی ٹچ اسکرین ہے جیسا اسمارٹ فون میں ہوتا ہے، آپ اسکرین کو ٹچ کرکے کئی فنکشنز انجام دے سکتے ہیں، ایک طرف عام گھڑیوں کی طرح ایک چھوٹا سا وہیل ہے جس سے آپ مزید کئی فنکشنز کرسکتے ہیں، اس گھڑی سے آپ بات کرسکتے ہیں۔
ایپل کا مشہور ''Siri Preg'' ایک ایسی آواز ہے جو آپ کے بولے الفاظ سمجھتی ہے، اگر آپ اپنی گھڑی سے کوئی بھی سوال کریں جیسے ''اس وقت موسم کیا ہے؟'' یا ''کل بارش ہوگی؟'' یا ''میری اگلی میٹنگ کب ہے؟'' تو یہ گھڑی بول کر جواب دے گی۔ اگر آپ کو کسی کو ٹیکسٹ میسج کرنا ہے، خصوصاً گاڑی چلاتے وقت جب آپ ٹائپ نہیں کرسکتے تو صرف گھڑی کو منہ کے قریب لاکر پیغام بول دینے سے گھڑی خود یہ ٹائپ کرکے SEND کردے گی۔
گھڑی کے پیچھے خصوصی سینسر لگائے گئے ہیں، وہ سینسر جو آپ کی اسکن کو محسوس کرکے آپ کی صحت کو مانیٹر کرسکتے ہیں۔ آپ کے دل کی دھڑکن مستقل جانچ سکتے ہیں اور یہ بھی دکھا سکتا ہے کہ آپ کے دل کی دھڑکن کیسے تیز ہوتی ہے۔ جب آپ جاگنگ کرتے ہیں یا سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔
آئی واچ میں جی پی ایس بھی لگا ہوا ہے یعنی آپ اگر چاہیں تو آپ کے گھر والے یا دوست دیکھ سکتے ہیں کہ آپ اس وقت کہاں ہیں، اس گھڑی کو آپ Navigation کے لیے بھی استعمال کرسکتے جو آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی ڈائریکشن بتاسکتی ہے۔
یہ گھڑی واٹر پروف ہے اور اس وقت روزانہ درجنوں APPS اس کے لیے ٹیسٹ کی جارہی ہیں۔
2010 جب ایپل نے آئی پیڈ ریلیز کیا تھا تو سب نے کہا تھا کہ آئی فون ہے تو آئی پیڈ کی کیا ضرورت ہے؟ یہ پروڈکٹ فلاپ ہوجائے گی، آج پچھلے پانچ سال میں 170 ملین آئی پیڈ بک چکے ہیں، بیشتر امریکن اسکول بغیر آئی پیڈ کے کلاس روم کا تصور نہیں کرسکتے۔ لوگ اس وقت آئی واچ کی کیا ضرورت ہے، کی بات کررہے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ گھڑی کا وقت بدل رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کی زندگی میں اسمارٹ واچ بھی اتنی ہی اہم ہوجائے گی جتنا اسمارٹ فون۔