قابل بھروسہ ذات
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم سب زبانی طور پر تو یہ اقرار کرتے ہیں کہ ’’لڑکی اپنا نصیب لے کر آتی ہے‘‘
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ شہر میں گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک ضعیف آدمی پر پڑی جو پسینے میں شرابور لکڑی کا بڑا گٹھا اٹھائے کہیں جارہا تھا۔ بادشاہ کو یہ دیکھ کر اس پر رحم آیا اور اس نے اس ضعیف آدمی سے پوچھا کہ وہ اس بزرگی میں اس قدر محنت کیوں کررہا ہے۔ اس ضعیف آدمی نے جواب میں اپنا نام بتایا اور کہاکہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے یہ لکڑیاں جنگل سے کاٹ کر لارہا ہے تاکہ بازار میں فروخت کرکے گھر کا چولہا جلاسکے۔ بادشاہ نے جب یہ بات سنی تو رحم کھاکر ایک قیمتی (لعل) اس ضعیف آدمی کو دے دیا۔
ضعیف آدمی بہت خوش ہوا اس نے فوراً ہی اپنی کلہاڑی اور لکڑیاں وہی پھینک دیں اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ راستے میں وہ بار بار اپنے ہاتھ کو کھول کر اس لعل کو دیکھتا اور خوش ہوجاتا اسی اثناء میں آسمان سے ایک چیل آئی اور اس نے جھپٹا مار کر وہ لعل اچک لیا، وہ ضعیف آدمی ہاتھ ملتا رہ گیا۔ پھر وہ واپس اسی جگہ پلٹ کر پہنچا جہاں اس نے اپنی کلہاڑی اور لکڑیاں پھینکی تھیں تاکہ گھر والوں کے لیے آج کی روٹی کا تو بندوبست ہوسکے لیکن وہ ضعیف شخص وہاں پہنچ کر اور پریشان ہوگیا کیوں کہ اب وہاں یہ سامان موجود نہیں تھا۔ رات وہی شہر میں گزارنے کے بعد وہ اگلی صبح جنگل چلا گیا اور لکڑیاں چن چن کر پھر گٹھا بناکر لایا تاکہ فروخت کرسکے۔ اتفاق سے اس بادشاہ کا پھر گزر ہوا اور اس نے اس ضعیف آدمی کو پہچان لیا۔
ضعیف آدمی کی بات سن کر بادشاہ کو پھر رحم آیا اور اس نے ایک اور لعل اس کو دے دیا۔ اس مرتبہ ضعیف شخص نے لعل کو مٹھی میں بند ہی رکھا البتہ جب وہ راستے میں ایک ندی پار کررہاتھا تو اتفاق سے اس کا پاؤں پھسل گیا اور اس نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی لیکن اس کشمکش میں اس کے ہاتھ سے وہ لعل ندی ہی میں کہیں گر گیا، یوں ایک مرتبہ پھر وہ ضعیف آدمی پریشان ہوکر دوبارہ جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ لکڑیاں جمع کی اور دوسرے روز شہر میں فروخت کرنے کے لیے لے گیا۔ اتفاق سے ایسا ہوا کہ اس بادشاہ کا گزر پھر اس شہر سے ہوا اور بادشاہ نے اس کو پہچان لیا۔ ضعیف آدمی نے پھر اس کو سارا ماجرا سنایا۔ یوں بادشاہ نے ایک مرتبہ پھر اس کو تیسرا لعل دے دیا۔
اب تو ضعیف آدمی پھر خوش ہوگیا اور بہت احتیاط سے اس لعل کو اپنی پگڑی میں چھپالیا۔ یہ ابھی شہر سے باہر نکل رہا تھا کہ کسی شخص نے اس کی پگڑی حاصل کرنے کے لیے اس پر اچانک حملہ کیا اور پگڑی لے کر بھاگ گیا۔ اب ضعیف شخص سخت پریشان ہوا اور خود ہی بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر سارا حال بیان کیا۔ بادشاہ نے جو کہانی سنی تو جواب میں ایک اور لعل دینے کے بجائے کہاکہ ''جب اﷲ ہی نہ چاہے تو کوئی کسی کا کیا بھلا کرے؟ جاؤ اپنا کام کرو''
کافی عرصے بعد اس بادشاہ کا آمنا سامنا اس ضعیف شخص سے ہوا تو ضعیف شخص عمدہ پوشاک اور اچھے حلیے میں نظر آیا۔ بادشاہ نے ماجرا پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ وہ جب تیسرا لعل گم ہونے کے بعد بادشاہ کے پاس سے بے یار و مددگار گھر پہنچا تو اس نے خدا سے دعا کی عاجزی کے ساتھ کہ ''اے مالک اب تیرے سوا کسی کا آسرا نہیں بس تو ہی مجھ پر رحم فرما'' اس کے بعد دوسرے دن وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا اور ایک درخت کے اوپر چڑھا تو دیکھا کہ ایک ''کھوہ'' میں تینوں لعل پڑے تھے۔ ضعیف آدمی نے کہاکہ میں نے جب تک بادشاہ پر بھروسہ کیا میں بے نصیب رہا اور جب میں نے سچے دل سے اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اس سے مانگا تو اس نے اس طرح مجھے دیا کہ کوئی مجھ سے چھین نہ سکا''۔
مذکورہ واقعہ میں بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام تھے۔ یہ واقعہ بچوں کی پانچویں جماعت کی کتاب ''ہلال اردو'' میں درج ہے۔ گو کہ یہ واقعہ بچوں کی کتاب میں درج ہے جس سے بچوں کو ایک اچھا درس ملتا ہے مگر آج اس درس کی ہم سب کو ضرورت ہے کیوں کہ زندگی کے تمام معاملات میں آج ہم اﷲ تعالیٰ پر سے بھروسہ اور اعتماد ختم کرکے مادی اشیا پر ایمان لاچکے ہیں جس کے سبب ایک جانب تو ذہنی بے سکونی اور انتشار کا شکار ہیں تو دوسری جانب کسی بھی انسان کی قیمت ہماری نظر میں ایک دس روپے کے نوٹ سے بھی کم ہوکر رہ گئی ہے اور اس کا مظاہرہ عموماً ہمیں اس طرح نظر آتا ہے کہ آپس کے لین دین میں کبھی پانچ دس روپے کا فرق بھی آجائے تو دکاندار گاہک پر اعتبار کرنے کو تیار نظر نہیں آتا، بعض اوقات ایک دوسرے کی بے عزتی تک کردی جاتی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست نے بتایاکہ ان کے رشتے کی بات ایک جگہ پکی ہونے والی تھی کہ لڑکی کے گھر والوں نے یہ کہہ کر رشتہ دینے سے انکار کردیا کہ لڑکا کرائے کے گھر میں رہتا ہے، جب کہ اس سے قبل ایک اور جگہ لڑکی والوں نے رشتہ نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ لڑکے کی سرکاری نوکری نہیں ہے۔ ہمارے ایک اور جاننے والے کی رشتے کی بات پکی ہونے کے باوجود رسم کرنے کے وقت اس بات سے ختم ہوگئی کہ لڑکی والے اپنی مرضی کا مہر مقرر کرنا چاہتے تھے، جب کہ لڑکے والوں کا کہنا تھا کہ لڑکے کی تو تنخواہ ہی 20 ہزار ہے 50 ہزار کا مہر کیسے مقرر کریں۔
ایک وقت تھا کہ جب ہماری قدریں انتہائی بلند ہوا کرتی تھیں۔ رشتے کے وقت امیدوار کے مال و دولت یا ''اسٹیٹس'' کو نہیں بلکہ کردار اور دین داری کو دیکھا جاتا تھا۔ راقم کو یاد ہے جب ہمارے ماموں جان کے رشتے کے لیے لڑکی کی تلاش جاری تھی تو ہمارے نانا کسی کے گھر جانے سے قبل یہ دیکھتے تھے کہ لڑکی اور اس کے گھر والے نمازی بھی ہیں یا نہیں؟ یعنی اس شرط پر ہی کسی کے ہاں رشتہ کرنے اور دیگر معاملات پرکھنے کی باری آتی تھی۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم سب زبانی طور پر تو یہ اقرار کرتے ہیں کہ ''لڑکی اپنا نصیب لے کر آتی ہے'' یا جس کا جتنا رزق لکھا ہو اسے اتنا ہی ملتا ہے، ہمارے تو رکشوں اور منی بسوں پر یہ بھی تحریر ہوتا ہے کہ ''وقت سے پہلے نہیں، نصیب سے زیادہ نہیں'' یا ''نصیب اپنا اپنا'' وغیرہ وغیرہ لیکن عملاً کچھ اور ہے ہمارے آج کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم انسان کو انسان نہیں سمجھتے، رشتے طے کرنے کے لیے بھی انسان اور اس کے کردار کو نہیں بلکہ بینک بیلنس اور معیار زندگی کو دیکھتے ہیں کہ شاید اس سے طلاق نہیں ہوگی اور لڑکی کا مستقبل محفوظ ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اس حقیقت کو ظاہر کررہی ہے کہ ایسا واقعتاً نہیں ہے، حضرت سلیمانؑ کا مذکورہ واقعہ ثابت کررہا ہے کہ کوئی ذات لائق اعتبار اور قابل بھروسہ ہے تو وہ صرف خدا کی ذات ہے۔ آیئے غور کریں؟