فیصلہ کن طوفان مسلمان اور پاکستان
دہشت گردی کے خلاف جنگ آسان نہیں ہوتی، اس جنگ کی کامیابی کے لیے انسانی جانوں کی بے انتہا قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
ISLAMABAD:
دہشت گردی کے خلاف جنگ آسان نہیں ہوتی، اس جنگ کی کامیابی کے لیے انسانی جانوں کی بے انتہا قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ہم ان قربانیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ نوبل پرائز وننگ انٹرنیشنل فزیشن فار دی پریوینشن آف نیوکلئیر وار ( آئی پی پی این ڈبلیو) نے فزیشن فار سوشل رسپانسبلیٹی اور فزیشن فار گلوبل سروائیول کے ساتھ مل کر باڈی کاوئنٹ کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں افغانستان، پاکستان اور عراق میں دس سال سے زیادہ عرصے کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ سے براہ راست اور بالواسطہ ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے، اس رپورٹ میں دوسرے ممالک یمن، صومالیہ، لیبیا اور شام میں امریکا اور اتحادیوں کے حملے میں ہلاکتوں کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق دس سال میں 13 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔ آئی پی پی این ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق دس لاکھ عراق، دو لاکھ بیس ہزار افغانستان اور 80 ہزار پاکستان میں ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ اصل ہلاکتیں اس سے دس گنا زیادہ ہوسکتی ہیں، جس کے بارے میں اس وقت عوام، ماہرین اور فیصلہ ساز جانتے ہیں، ان کے اندازے کے مطابق اصل تعداد بیس لاکھ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتوں کی بنیادی وجہ امریکا کی جانب سے مہم جوئی ہے جس نے مسلمانوں کے ممالک پر چڑھائی کی۔
عراق پر جب حملہ کیا گیا تو جواز یہ بتایا گیا کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیار ہیں، لیکن امریکا اور اس کے اتحادی ایک ایٹم کا بچہ بھی دکھانے میں ناکام رہے اور عراق کو تخت و تاراج کرکے اس ملک کو خانہ جنگی میں پھنسا کر نکل گیا۔ نائن الیون کے جواز میں افغانستان پر حملہ کیا گیا تو طالبان کی حکومت ان کے نشانے پر آئی، اب امریکا یہ بیان دے رہا ہے کہ ہم طالبان کو دشمن نہیں سمجھتے اور افغان حکومت کے صدر کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔
پاکستان کی حالت ان دونوں سے مختلف ہے، 'بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ' بن کر پرائی جنگوں میں کودنے پر پاکستان کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ملک بنادیا گیا۔ پہلے سویت یونین کے خلاف امریکا کے اتحادی بن کر جہادیوں کی عظیم فوج تیار کی اور پرائے گھر میں پتھر پھینکتے ہوئے بھول گئے کہ پتھر پھینکنے کے جواب میں پھول نہیں پتھر ہی آئیں گے۔ امریکا نے جب افغانستان میں چڑھائی کی تو پھر ماضی کی غلطی کا اعادہ کیا اور شیشے کے گھر میں بیٹھ کر خود کو بلاوجہ مصبیت میں پھنسا لیا کہ آج پاکستان کی فوج ملک کی تینوں سرحدوں پر مصروف ہے اور اندروں ملک پاکستان حالت جنگ میں ہے، بلوچستان ہو یا سندھ میں کراچی یا خیبرپختونخوا، شدت پسندی کے اس عذاب میں ہزاروں بے گناہ کے خون سے سرزمین پاکستان سرخ ہوچکی ہے۔
پاکستان کے ایسے شہری لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اپنے ان گھروں کی جانب لوٹ رہے ہیں جن کا ایک حصہ بھی اس قابل نہیں کہ اسے گھر کہا جاسکے، انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہوچکا ہے اور روزگار کے ذرایع مکمل مفقود ہوچکے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے رویے کے سبب پاکستان کے دوسرے علاقوں میں انھیں شدت پسند، دہشت گرد کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اب پاکستان ایک نئی جنگ کی جانب قدم رکھ چکا ہے اور یہ جنگ فرقہ واریت کے نام پر ان ممالک کی جانب سے مسلط کی جارہی ہے جو کئی سال سے کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی شروع ہوجائے۔
عراق میں دیکھیں تو ہمارے سامنے اے بی سی نیوز کی رپورٹ ہے کہ امریکی تربیت یافتہ عراقی فوجی اور ان کے ہمراہ موجود عراقی ملیشیا کے ارکان تکریت میں داعش کے خلاف کارروائی کے نام پر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کررہے ہیں، اس میں انھوں نے داعش کو بھی مات دے دی ہے۔ داعش کے عمل بھی ان سے کم تر نہیں بلکہ ان کی طرح بھیانک ہیں، انھوں نے بھی اسی طرح سفاکیت کا مظاہرہ کیا اور مقدس مقامات کے علاوہ تاریخی مقامات کو تہہ و بالا کیا۔ لیکن کیا یہ عمل اور ردعمل ہمیشہ دہرایا جاتا رہے گا۔ کبھی داعش تو کبھی عراقی ملیشیا، سفاکیت کا یہ جنونی کھیل کھیلتے رہیں گے اور المیہ یہ ہے کہ دونوں اپنی کارروائیوں کو اسلام کا نام دیتے ہیں۔
شام میں بھی یہ صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے، موجودہ صدر نے اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے فرقہ وارانہ جنگ کو روس اور ایران کے ساتھ مل کر ملک کے بے گناہ عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ دی سیریئن آبزرویٹی فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہلاک ہونے والے پچیس فیصد عام شہری ہیں۔ شام میں80 فیصد ہتھیار روس کے استعمال ہورہے ہیں اور اب تک شامی حکومت کی جانب سے مخالفین پر کلورین گیس کے استعمال پر کسی قسم کی تحقیقات کا آغاز نہیں کیا گیا۔ یمن میں فرقہ واریت کا عفریت پوری مسلم امہ کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے اور اب واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ عرب بلاک اپنے ملک میں کسی بھی انقلاب کے نام پر ہونے والی بغاوت کو کچلنے کے لیے پہلے ہی سانپ کا سر کچلنا چاہتے ہیں، فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلم ممالک کی صف بندیاں ہوچکی ہیں، فرقوں کے درمیان مسلکی اختلاف اب تشدد کے بام عروج پر پہنچ چکا ہے۔ یمن کے غریب عوام عرب طاقت کے مقابلے کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔
حوثی ملیشیا کی مدد کے لیے ایران کے اہم عسکری لیڈر کی شام اور یمن میں موجودگی اور براہ راست خانہ جنگی کی نگرانی خود ایک سوالیہ نشان ہے ۔ مسلم امہ واضح طور پر دو بلاکوں میں منقسم ہوتی جارہی ہے اور مغربی طاقتوں کا یہ کھیل کامیابی کی جانب گامزن ہے کہ اسلام میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگیوں کو اس قدر ہوا دی جائے کہ مسلم امہ کی تباہی خود ان کے اپنے ہاتھوں ہی ممکن ہوجائے اور انھیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہ پڑے۔ سعودی عرب کے نئے فرمانروا کی جانب سے یمن کو الٹی میٹم دینے کے ساتھ فیصلہ کن طوفان کے نام سے آپریشن کا آغاز اور پھر دیگر عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کو اپنا اتحادی بناکر حملہ آور ہونا مشرق وسطیٰ پر کیا اثرات رونما کرے گا، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
خطے میں تبدیل ہوتی صورتحال میں ایران اور امریکا و مغرب کے ساتھ نئے تعلقات پاکستان کے لیے ایک سوچ و فکر کا مقام ہے کہ کہیں افغانستان کی طرح ہم پرائے گھر میں آگ تو نہیں لگا رہے، افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے جنگ کے نتیجے میں طالبان پسندی کا طوفان امڈ آیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ یمن کی خانہ جنگی کے باعث فرقہ وارانہ طوفان سب کچھ بہا لے جائے۔ ویسے بھی پاکستان میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کے لیے راہ کئی سال سے ہموار کی جارہی ہے بلکہ کی جاچکی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ آسان نہیں ہوتی، اس جنگ کی کامیابی کے لیے انسانی جانوں کی بے انتہا قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ہم ان قربانیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ نوبل پرائز وننگ انٹرنیشنل فزیشن فار دی پریوینشن آف نیوکلئیر وار ( آئی پی پی این ڈبلیو) نے فزیشن فار سوشل رسپانسبلیٹی اور فزیشن فار گلوبل سروائیول کے ساتھ مل کر باڈی کاوئنٹ کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں افغانستان، پاکستان اور عراق میں دس سال سے زیادہ عرصے کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ سے براہ راست اور بالواسطہ ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے، اس رپورٹ میں دوسرے ممالک یمن، صومالیہ، لیبیا اور شام میں امریکا اور اتحادیوں کے حملے میں ہلاکتوں کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق دس سال میں 13 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔ آئی پی پی این ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق دس لاکھ عراق، دو لاکھ بیس ہزار افغانستان اور 80 ہزار پاکستان میں ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ اصل ہلاکتیں اس سے دس گنا زیادہ ہوسکتی ہیں، جس کے بارے میں اس وقت عوام، ماہرین اور فیصلہ ساز جانتے ہیں، ان کے اندازے کے مطابق اصل تعداد بیس لاکھ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتوں کی بنیادی وجہ امریکا کی جانب سے مہم جوئی ہے جس نے مسلمانوں کے ممالک پر چڑھائی کی۔
عراق پر جب حملہ کیا گیا تو جواز یہ بتایا گیا کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیار ہیں، لیکن امریکا اور اس کے اتحادی ایک ایٹم کا بچہ بھی دکھانے میں ناکام رہے اور عراق کو تخت و تاراج کرکے اس ملک کو خانہ جنگی میں پھنسا کر نکل گیا۔ نائن الیون کے جواز میں افغانستان پر حملہ کیا گیا تو طالبان کی حکومت ان کے نشانے پر آئی، اب امریکا یہ بیان دے رہا ہے کہ ہم طالبان کو دشمن نہیں سمجھتے اور افغان حکومت کے صدر کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔
پاکستان کی حالت ان دونوں سے مختلف ہے، 'بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ' بن کر پرائی جنگوں میں کودنے پر پاکستان کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ملک بنادیا گیا۔ پہلے سویت یونین کے خلاف امریکا کے اتحادی بن کر جہادیوں کی عظیم فوج تیار کی اور پرائے گھر میں پتھر پھینکتے ہوئے بھول گئے کہ پتھر پھینکنے کے جواب میں پھول نہیں پتھر ہی آئیں گے۔ امریکا نے جب افغانستان میں چڑھائی کی تو پھر ماضی کی غلطی کا اعادہ کیا اور شیشے کے گھر میں بیٹھ کر خود کو بلاوجہ مصبیت میں پھنسا لیا کہ آج پاکستان کی فوج ملک کی تینوں سرحدوں پر مصروف ہے اور اندروں ملک پاکستان حالت جنگ میں ہے، بلوچستان ہو یا سندھ میں کراچی یا خیبرپختونخوا، شدت پسندی کے اس عذاب میں ہزاروں بے گناہ کے خون سے سرزمین پاکستان سرخ ہوچکی ہے۔
پاکستان کے ایسے شہری لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اپنے ان گھروں کی جانب لوٹ رہے ہیں جن کا ایک حصہ بھی اس قابل نہیں کہ اسے گھر کہا جاسکے، انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہوچکا ہے اور روزگار کے ذرایع مکمل مفقود ہوچکے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے رویے کے سبب پاکستان کے دوسرے علاقوں میں انھیں شدت پسند، دہشت گرد کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اب پاکستان ایک نئی جنگ کی جانب قدم رکھ چکا ہے اور یہ جنگ فرقہ واریت کے نام پر ان ممالک کی جانب سے مسلط کی جارہی ہے جو کئی سال سے کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی شروع ہوجائے۔
عراق میں دیکھیں تو ہمارے سامنے اے بی سی نیوز کی رپورٹ ہے کہ امریکی تربیت یافتہ عراقی فوجی اور ان کے ہمراہ موجود عراقی ملیشیا کے ارکان تکریت میں داعش کے خلاف کارروائی کے نام پر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کررہے ہیں، اس میں انھوں نے داعش کو بھی مات دے دی ہے۔ داعش کے عمل بھی ان سے کم تر نہیں بلکہ ان کی طرح بھیانک ہیں، انھوں نے بھی اسی طرح سفاکیت کا مظاہرہ کیا اور مقدس مقامات کے علاوہ تاریخی مقامات کو تہہ و بالا کیا۔ لیکن کیا یہ عمل اور ردعمل ہمیشہ دہرایا جاتا رہے گا۔ کبھی داعش تو کبھی عراقی ملیشیا، سفاکیت کا یہ جنونی کھیل کھیلتے رہیں گے اور المیہ یہ ہے کہ دونوں اپنی کارروائیوں کو اسلام کا نام دیتے ہیں۔
شام میں بھی یہ صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے، موجودہ صدر نے اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے فرقہ وارانہ جنگ کو روس اور ایران کے ساتھ مل کر ملک کے بے گناہ عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ دی سیریئن آبزرویٹی فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہلاک ہونے والے پچیس فیصد عام شہری ہیں۔ شام میں80 فیصد ہتھیار روس کے استعمال ہورہے ہیں اور اب تک شامی حکومت کی جانب سے مخالفین پر کلورین گیس کے استعمال پر کسی قسم کی تحقیقات کا آغاز نہیں کیا گیا۔ یمن میں فرقہ واریت کا عفریت پوری مسلم امہ کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے اور اب واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ عرب بلاک اپنے ملک میں کسی بھی انقلاب کے نام پر ہونے والی بغاوت کو کچلنے کے لیے پہلے ہی سانپ کا سر کچلنا چاہتے ہیں، فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلم ممالک کی صف بندیاں ہوچکی ہیں، فرقوں کے درمیان مسلکی اختلاف اب تشدد کے بام عروج پر پہنچ چکا ہے۔ یمن کے غریب عوام عرب طاقت کے مقابلے کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔
حوثی ملیشیا کی مدد کے لیے ایران کے اہم عسکری لیڈر کی شام اور یمن میں موجودگی اور براہ راست خانہ جنگی کی نگرانی خود ایک سوالیہ نشان ہے ۔ مسلم امہ واضح طور پر دو بلاکوں میں منقسم ہوتی جارہی ہے اور مغربی طاقتوں کا یہ کھیل کامیابی کی جانب گامزن ہے کہ اسلام میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگیوں کو اس قدر ہوا دی جائے کہ مسلم امہ کی تباہی خود ان کے اپنے ہاتھوں ہی ممکن ہوجائے اور انھیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہ پڑے۔ سعودی عرب کے نئے فرمانروا کی جانب سے یمن کو الٹی میٹم دینے کے ساتھ فیصلہ کن طوفان کے نام سے آپریشن کا آغاز اور پھر دیگر عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کو اپنا اتحادی بناکر حملہ آور ہونا مشرق وسطیٰ پر کیا اثرات رونما کرے گا، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
خطے میں تبدیل ہوتی صورتحال میں ایران اور امریکا و مغرب کے ساتھ نئے تعلقات پاکستان کے لیے ایک سوچ و فکر کا مقام ہے کہ کہیں افغانستان کی طرح ہم پرائے گھر میں آگ تو نہیں لگا رہے، افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے جنگ کے نتیجے میں طالبان پسندی کا طوفان امڈ آیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ یمن کی خانہ جنگی کے باعث فرقہ وارانہ طوفان سب کچھ بہا لے جائے۔ ویسے بھی پاکستان میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کے لیے راہ کئی سال سے ہموار کی جارہی ہے بلکہ کی جاچکی ہے۔