خریداری خواتین کا من پسندمشغلہ

خریداری کے دوران کفایت شعاری کا کلیہ بالکل نہ بھولیے


Sadaf Asif April 13, 2015
بعض خواتین تو شاپنگ کی اتنی شوقین ہوتی ہیں کہ معمولی سی چیز کی خریداری پر اپنا خاصا وقت صرف کرنے کے باوجود بد مزہ نہیں ہوتیں۔۔ فوٹو: فائل

خریدا ری کرنے کو ایک فن سے تعبیر کیا جاتا ہے، غور کیا جائے، تو یہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کا ''فن'' ہے، کیوں کہ جو عورت بھی گفتار میں ماہر ہوگی، وہ اتنی ہی کارآمد خریداری کرسکے گی۔ یعنی اچھے معیار کی ضروری اشیا، مناسب قیمت میں خریدنے کا ''فن'' اسے آتا ہوگا۔ دوسری طرف بازار جا کر شاپنگ کرنا لڑکیوں اورخواتین کے لیے ایک تفریخی مشغلہ بھی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خریداری کرنا خواتین کی کمزوری کہلاتا ہے۔ خاص طور پر جب یہ اپنی ذات کے لیے کی جا رہی ہو۔ ہمارے ہاں صنف نازک کا من پسند مشغلہ ''شاپنگ'' کہلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ شہر بھر میں نت نئے اور جدید سہولتوں سے آراستہ شاپنگ پلازہ، سینٹرزاور مالز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔

بعض خواتین تو شاپنگ کی اتنی شوقین ہوتی ہیں کہ معمولی سی چیز کی خریداری پر اپنا خاصا وقت صرف کرنے کے باوجود بد مزہ نہیں ہوتیں۔ لڑکیاں سہیلیوں کے ساتھ ونڈو شاپنگ سے، لطف اندوز ہوتی ہیں۔ اکثر خاتون خانہ کے پاس شاپنگ پر جانے کا ایک آزمودہ حربہ یہ ہوتا ہے کہ مردوں کو سستی اور معیاری خریداری کرنی نہیں آتی اور مرد بھاؤ تاؤ کیے بنا ناقص اشیا خرید لاتے ہیں۔''

کچھ لڑکیوں کو دوسروں کا خریدا ہوا کپڑا جیولری وغیرہ پسند نہیں آتا۔ اسی لیے وہ اپنے لیے خود چیزوںکے انتخاب کو اولیت دیتی ہیں۔ بہت سی خواتین کی نگاہ میں خریداری ایسی چیز ہے جس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ چاہے نند بھاوج، ساس بہو اور دیورانی جٹھانی کا میل ملاپ اتنا اچھا نہ ہو، لیکن خریداری کے لیے ان میں اکٹھ ہو جاتا ہے۔ بالخصوص جب کہیں سستی اشیا ملنے کا امکان ہو۔

ایک جائزے میں بتایا گیا ''خواتین اپنی پوری زندگی کا آٹھ سال سے بھی زیادہ حصہ خریداری کرنے میں صرف کرتی ہیں۔ اگر ایک عورت کی عمر 63 ہے، تو اس نے دوسرے کاموں کے علاوہ اپنا وقت کے ساڑھے آٹھ سال خریداری کرنے میں گزارے ہیں۔

تنہائی کا شکار خواتین بھی شاپنگ سے لطف اٹھاتی ہیں۔ مُٹاپے کا شکار خواتین اپنا وزن کم کرنے کے لیے خریداری مہم پر نکل جاتی ہیں، اس طرح وہ شاپنگ پلازہ یا بازار ایسی جگہ ہے کہ وہ بغیر تھکے مسلسل چہل قدمی کر لیتی ہیں۔ ورنہ گھر میں تو 10منٹ تک چلنا بھی محال ہوتا ہے۔ کچھ عورتیں دکان داروں سے بھاؤ تاؤ کی ماہر ہوتی ہیں اور جب وہ من چاہے پیسوں پر خریداری کر لیتی ہیں، تو انہیں ایک خاص قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے یا وہ فتح کے جذبے سے سرشار ہو جاتی ہے، ان کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، مگر بعض دفعہ ایسے تجربے میں نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے اور جس چیز کو بہت سستا سمجھ کر یا اپنے تئیں دکان دار کو بے وقوف بنا کر خریدا جا رہا ہوتا ہے۔ وہ اس سے بھی کہیں کم قیمت کی ہوتی ہے، جتنے میں لی جاتی ہے، اس لیے اشیا کے معیار کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

https://img.express.pk/media/images/obesity/obesity.webp

امیر طبقے کی کچھ خواتین غیر ممالک میں جا کر خریداری کرنے کے جنون میں مبتلا ہوتی ہیں۔ وہ سا ل چھے مہینے میں شاپنگ کے لیے پیرس، دبئی یا سنگاپور وغیرہ کا رخ کرتی ہیں، اور پھر سہیلیوں کے سامنے اپنی خریدی ہوئی اشیا کی قیمتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہیں۔

ان سب باتوں سے قطع نظر خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے اس مشغلے کو ایک ٹھوس اور جامع انداز میں اختیار کریں، تاکہ اس کی افادیت میں اضافہ ہو اور فضول خرچی سے بچا جا سکے۔

شاپنگ پر جانے سے قبل ضروری اشیا کی فہرست بنائیے، اسے اپنے بیگ میں پڑے ہوئے پیسوں کے حساب سے محدود رکھیں، بازار میں بھی اسی کے مطابق خریداری کی جائے، تو بجٹ فیل نہیں ہو گا۔

سیل سے خریدی جانے والی اشیا کی ٹھیک سے جانچ کریں، کیوں وہاں زیادہ تر نقص والی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔

اگر بیرون ملک جا کر شاپنگ کا ارادہ ہے، تو سب سے پہلے نیٹ پر اس شہر اور وہاں موجود شاپنگ پلازہ وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کریں، اس طرح وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ وہاں جا کر اجنبیت کا احساس بھی کم ہوگا۔

دکان دار رش کی وجہ سے بغیر دکھائے سامان پکڑا دیتے ہیں، کبھی کبھی گھر آکر پتا چلتا ہے ناپ یا رنگ بدل گیا، یا سوٹ کا دوپٹہ تو وہیں رہ گیا، یا دکان دار نے نگاہ بچا کر نقص والی اشیا شاپنگ بیگ میں رکھ کر تھما دی ہے۔ اس لیے پہلے اطمینان سے اپنی مطلوبہ اشیا کی جانچ کریں، پھر دکان سے باہر آئیں۔

اگر کسی خاص تقریب جیسے شادی بیاہ وغیرہ کے لیے خریداری کرنی ہو تو پھر دلہن یا جس کے لیے لباس و زیور خریدنا ہو، اس کی قد کاٹھ ،عمر اور مزاج کو مدنظر رکھیں۔ اس طرح یہ آپ کی ذہنی صلاحیتوں کے استعمال کا امتحان بھی ہو گا۔ جب بہترین شاپنگ سب کے سامنے آئے گی، تو الگ سے ایک خوشی کا احساس ہو گا۔

بعض لڑکیاں، آن لائن شاپنگ اور مختلف مشہور تجارتی برانڈز کی ویب سائٹس کی براؤزنگ کرتی ہیں، اس طرح انہیں نئے نئے آئیڈیاز حاصل ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے فیشن اور رجحانات کا پتا چلتا ہے۔ یہ ایک صحت مندانہ تفریح بھی بن جاتی ہے، جب کم قیمت میں ویسے ہی منفرد ڈیزائن خود تیار کر کے پہنا جاتا ہے۔

اپنے یا بچوں کے تیار لباس اور جوتوں کی خریداری کے وقت دکان دار سے اس بات کی گارنٹی حاصل کر لیں کہ اگر ناپ کا مسئلہ ہوا تو اس کی تبدیلی ممکن ہو گی۔

https://img.express.pk/media/images/obesity1/obesity1.webp

ہم جس ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں کی خواتین کو خریداری کے وقت کفایت شعاری کا دھیان رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ اب مغربی ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے عوام پر اس بات کے لیے زور دے رہی ہے۔ 2014ء کی یورپی معیشت کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جرمنی کے باشندے فضول خرچی سے پرہیز کرتے ہیں اور ضرورت زندگی کی اشیا کے علاوہ جب تک اشد ضرورت نہ پڑے بلا وجہ خریداری سے اجتناب برتتے ہیں۔

اطالوی خواتین فیشن کرنے میں ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی آمدنی کا نو فی صد حصہ ملبوسات اور جوتوں کی خریداری پر خرچ کرتی ہیں۔ فیشن پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والوں میں ہسپانوی، برطانوی، آسٹرین اور پرتگیزی کا شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے مقابلے میں جرمن خواتین ڈسکاؤنٹ اسٹورز سے سستے داموں ملبوسات خریدتی ہیں۔ اس بات کو رپورٹ میں سراہا گیا۔

پاکستان کے مقابلے میں جرمنی کی مضبوط معیشت اور اقتصادی حالت کا کوئی تال میل نہیں، اس کے باوجود جب وہاں کفایت شعاری کے حوالے سے اتنا شعور بیدار ہو چکا ہے، تو پھر ہمارے ملک کی خواتین کو اس بارے میں ضرور غور کرنا چاہیے۔ پیسے کا ضیاع عقل مندی نہیں اور بلا ضرورت خریداری میں تو وقت بھی برباد ہوتا ہے۔ دونوں کی قدر کرنا لازمی ہے۔ اسی لیے خریداری کے دوران کفایت شعاری کا کلیہ بالکل نہ بھولیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں