امید و یاس میں پھنسا ہوا افغانستان
اگر افغانستان کی فوج بھی عراقی فوج کی طرح ریت کی دیوار ثابت ہوئی تو پھر وہاں ایک مرتبہ پھربدامنی کا دوردورہ ہوسکتا ہے۔
ISLAMABAD:
افغانستان دنیا کا وہ ملک تھا جس نے قیام پاکستان کے بعد اس مملکت کے وجود کو سب سے آخر میں تسلیم کیا، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ افغانستان کے ماضی کے حکمراں پاکستان کے ازلی دشمنی بھارت کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہے اور انھوں نے پاکستان کو تنگ اور عاجز کرنے اور اسے ہر قسم کی زک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
پاکستان کی قیادت نے روز اول سے ہی یہ کوشش کی کہ پڑوسی مسلم ملک ہونے کے ناتے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے تاکہ دونوں ممالک اپنے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے عوام کی خوشحالی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں۔
لیکن افسوس صد افسوس افغانستان کی بھارت نواز پٹھو حکومتوں نے پاکستان کے جذبۂ خیر سگالی کا جواب ہمیشہ مخاصمت اورمخالفت ہی سے دیا اور پاکستان کے لیے طرح طرح کے مسائل پیدا کرنے کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھوں سے جانے نہ دیا۔ اس کے باوجود پاکستان کی حکومت اور عوام نے ہمیشہ اعلیٰ ظرفی اور اسلام دوستی کے جذبے سے سرشار ہوکر ہر آڑے وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا حتیٰ کہ جب سوویت افواج نے اس ملک پر چڑھائی کردی تو پاکستان نے اپنے وجود تک کو داؤ پر لگا کر اس کا بھرپور ساتھ دیا۔
یہ امر خوش آیند اور امید افزا ہے کہ جب سے افغانستان میں عام انتخابات کے بعد نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے، دونوں ممالک کے تعلقات نے ایک نئی کروٹ لینا شروع کردی ہے۔
اس کے علاوہ افغانستان کے اندرونی حالات بھی بہتری کی جانب جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں جس کا واضح مظاہرہ افغانستان کے نئے منتخب صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ امریکا کے دوران دیکھنے کو ملا۔ اس کے نتیجے میں امید کی یہ کرن پھوٹتی ہوئی دکھائی دی کہ چار عشروں تک مسلسل حالت جنگ و جدل میں مبتلا رہنے کے بعد افغانستان میں بحالی امن اور ترقی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ اگرچہ وہاں گروہی کشمکش اور باہمی کشیدگی ابھی تک باقی ہے لیکن بالآخر ایک متحدہ حکومت (Unity Government) کا قیام عمل میں آچکا ہے جس کے باعث بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب سے اقتدار صدر اشرف غنی کے ہاتھوں میں آیا ہے تب سے افغان قائد عبداللہ عبداللہ کے انداز فکر میں بھی تبدیلی کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے ہیں اور ان کی بھارت نوازی میں بھی کمی آتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔
افغانستان کے دونوں ہی قائدین یعنی صدر اشرف غنی اور موجودہ چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز عبداللہ عبداللہ دونوں ہی بہت پڑھے لکھے اور ذہین لوگ ہیں اور ذہنی طور پر مزاجاً حساس واقع ہونے کے باوجود دونوں ہی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدلے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا داخلی گورننس کا پروگرام واضح اور سیدھا سادہ ہے جس میں اقتصادی اصلاحات اور معاشی ترقی کے معاملات بھی شامل ہیں۔ اگرچہ اس پر عملدرآمد میں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں لیکن اس کے باوجود پیش رفت جاری ہے۔ دوسری جانب خارجہ امور میں ڈرامائی تبدیلیاں بھی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں جس میں پاکستان اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی سب سے نمایاں ہے۔
صدر اشرف غنی کے گزشتہ ستمبر کے دورۂ پاکستان کے نتیجے میں پاکستان کے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے افغانستان سے متعلق اپنی اپروچ میں نمایاں تبدیلی کی ہے۔ افغانستان کی نئی حکومت نے پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی کو ترک کرکے اس اپروچ کی راہ ہموار کردی ہے۔
اس کے علاوہ اس حکومت نے افغانستان سے متعلق بھارت کی پالیسی اور رویے کے حوالے سے پاکستان کی تشویش کو بھی مثبت انداز میں سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ مدت دراز بعد پاکستانی قیادت کو یہ احساس ہوا ہے کہ افغانستان کی موجودہ قیادت کو پاک افغان تعلقات کی اہمیت اور نوعیت کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ دونوں ممالک کا مستقبل بااعتماد باہمی تعلقات کے فروغ میں ہی مضمر ہے۔
یہ اسی آگہی کا ثمر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور سیکیورٹی تعاون کے دروازے جو ماضی بعید میں بند پڑے ہوئے تھے، اب پوری طرح کھل گئے ہیں جس کے ثمرات سے دونوں ہی پڑوسی ممالک اور ان کے عوام کو بڑا زبردست فائدہ حاصل ہوگا۔ سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ قابل نے تحریک طالبان پاکستان سے نمٹنے میں حکومت پاکستان کو اپنے بھرپور تعاون کی پیشکش کی ہے اور مکمل یقین دہانی کرائی ہے۔ اس کے نتیجے میں ضرب عضب کی کامیابی کے امکانات میں واضح اور زبردست اضافہ ہوگا۔
امریکا کی جانب سے کابل کے رخ میں بھی واضح تبدیلی دکھائی دی ہے۔ اپنے گزشتہ دورۂ امریکا میں صدر اشرف غنی نے امریکا کی فوجی سپورٹ کے لیے اظہار تشکر کیا اور امریکی اقتصادی اعانت اور سیکیورٹی امداد پر اصرار کیا جس کے جواب میں امریکا نے افغانستان میں اپنے کم ازکم دس ہزار فوجی اور دو ملٹری اڈے برقرار رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔
اس کے علاوہ اس نے اپنی مالی امداد کو جاری رکھنے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ دوسری جانب صدر اشرف غنی نے پاکستان اور طالبان کے ساتھ افہام و تفہیم کو فروغ دینے کی خاطر سعودی عرب اور چین سے بھی تعاون طلب کرنے میں تکلف نہیں کیا ہے۔ کابل اور طالبان کے درمیان روابط کے سلسلے کو آگے بڑھانے میں چین کی ڈپلومیسی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
اگرچہ افغانستان میں مایوسی کے بادل چھٹتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں تاہم اس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ مطلع بالکل صاف ہوگیا ہے۔ غلط فہمیوں ، بدگمانیوں اور خوف کے بادل افغانستان کے افق پر اب بھی منڈلا رہے ہیں۔
دوسری جانب جوں جوں افغانستان میں بیرونی قوتوں کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے ویسے ویسے افغان معیشت کی رگوں میں بیرونی امداد کے خون میں بھی رفتہ رفتہ کمی واقع ہو رہی ہے جس سے افغان معیشت کا متاثر ہونا ایک فطری ردعمل ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے نئی افغان حکومت کو اپنے ملکی وسائل کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہوگا۔
لیکن یہ کام انتہائی دشوار بھی ہے اور دقت طلب بھی۔ برسوں سے شکست و ریخت کا شکار افغانی معیشت کو سنبھالا دینا پٹڑی سے اتری ہوئی گاڑی کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے سے کم مشکل نہیں ہے۔ ادھر یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ بیرونی امداد میں بتدریج اور مسلسل کمی واقع ہونے کے نتیجے میں افغانستان کی معیشت پر پڑنے والے بوجھ میں ہر آنے والے دن کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوگا جس سے عوام میں بے روزگاری اور بے چینی میں بھی شدید اور خوفناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے جس سے لاقانونیت اور حکومت مخالف حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ افغان معیشت میں منشیات کا بہت زیادہ اور بڑا عمل دخل ہے۔ نئی حکومت کے انسدادی اقدامات کے نتیجے میں شدید ردعمل کے طور پر بڑے گمبھیر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ اندیشہ بھی غالب ہے کہ انسداد منشیات کی حکومتی کوششیں اس کے لیے درد سر بن سکتی ہیں۔ افغانستان کے جنگجو سرداروں (War Lords) کی باہمی چپقلش بھی نئی افغان حکومت کے لیے مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے کرسکتی ہے۔
دوسری جانب یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ یونٹی گورنمنٹ میں شامل مختلف دھڑوں میں بھی پھوٹ پڑ جانے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ افغانستان کی نئی حکومت کی سب سے بڑی آزمائش اس موسم گرما کی آمد پر ہوگی جب افغان طالبان اس سے ٹکر لینے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ اگر افغانستان کی فوج بھی عراقی فوج کی طرح ریت کی دیوار ثابت ہوئی تو پھر وہاں ایک مرتبہ پھر بدامنی کا دور دورہ ہوسکتا ہے۔