شاہین کی تلاش

میں، جو خود بھی 2004 ء میں ایک ادارے میں بطور اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار کے ایک سال کام کرچکا تھا،


نعیم شاہ April 14, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: میں اس ٹی وی چینل کی کشادہ، خوبصورت لابی میں بیٹھا کسی کا انتظار کررہا تھا۔ میرے آس پاس نوجوانی کے جلوے بکھرے ہوئے تھے۔ توانائی سے بھرے 16 تا 30 برس کے خوبرو نوجوان لڑکے لڑکیاں باتیں کرتے آ جا رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں چڑھتی جوانی کی چمک اور پریکٹیکل لائف میں قدم رکھنے کی خوشی اور اعتماد تھا۔

غالباً وہ ان کی زندگی کی ابتدائی نوکریوں میں سے تھی۔ وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں بے تکلفی سے ایک دوسرے سے مذاق کرتے، کبھی اپنے فون کی اسکرین پر اور کبھی خاموشی سے ادھر ادھر دیکھنے لگتے۔ وہاں کا ماحول جوانی کی برقی لہروں سے بھرپور تھا۔ ان نوجوانوں کی چال ڈھال و تاثرات سے ظاہر تھا کہ وہ پیسہ کمانے کے اپنے اس نئے تجربے سے بہت خوش اور اس میں مگن تھے۔

ان کی آنکھوں میں روشن مستقبل، شاندار کیریئر کے خواب تھے مگر اس کے خدوخال ابھی ان پر واضح نہ تھے، نہ ہی ان کے پاس ان باریکیوں پر سوچنے کا وقت تھا۔ کیونکہ انھیں تو ان کی تنخواہوں کے عوض دن رات کے لیے کام میں کھپا دیا گیا تھا۔ ان کی تمام تر توانائیوں، صلاحیتوں اور وقت کو ان سے معمولی سی رقم کے بدلے خرید لیا گیا تھا۔

ان کی جسمانی، ذہنی تمام قوتوں و صلاحیتوں کا مالک اب ان کا ادارہ تھا جو انھیں پوری طرح سے اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا تھا، جو ان کی صلاحیتوں اور جوانی کے وقت کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھا، جن کا ابھی انھیں علم نہ تھا۔ لہٰذا وہ نوجوان لاعلمی میں اپنا سب کچھ ادارے کے نام اونے پونے داموں کر بیٹھے تھے۔

امریکا میں اپنے قیام کے دوران میں نوجوانوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتے دیکھ چکا تھا، جو پچھلے آٹھ دس سال سے اب ہمارے یہاں بھی ہونے لگا تھا۔ وہاں بھی نوجوانوں کو گھنٹوں کے حساب سے اجرت دینے کے جال میں پھنسا کر اتنا مصروف کردیا گیا تھا کہ ان کے پاس صحیح غلط، اچھے برے کسی کے بارے میں سوچنے کا وقت اور ہمت ہی نہ بچے۔ میں نے امریکا میں 15 سالہ لڑکیوں کو صبح پانچ بجے بسوں، ٹرینوں میں اونگھتے، دو دو گھنٹوں کے سفر کرکے جاب پر جاتے اور رات آٹھ بجے رش میں دھکے کھاتے، تھکے ہارے اپنے خالی فلیٹ میں لوٹتے دیکھا ہے۔

جہاں وہ بستر پر آکر جو ڈھیر ہوتے تو اگلی صبح ہی اٹھتے اور پھر سے جاب پر نکل جاتے۔ ایک دو دن کی چھٹی کے علاوہ باقی پورا ہفتہ ان کا یہی معمول ہوتا۔ اسی افراتفری اور بے جا مصروفیت کے ماحول نے وہاں فیملی سسٹم توڑ کر سب کو تنہا کردیا تھا۔ کیونکہ وہاں کسی کے پاس کسی کے لیے وقت ہی نہ تھا، یہاں تک کہ سوچنے کے لیے بھی نہیں۔

وہی سب کچھ اب میں یہاں اپنے نوجوانوں کے ساتھ ہوتے دیکھ رہا تھا، ان سے بھی سوچنے سمجھنے کا وقت چھین لیا گیا تھا۔ ان کے آزاد ذہنوں کو بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی دولت و محدود کرنے والی سرگرمیوں کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تھا۔

ان سے بھی آٹھ کے بجائے پندرہ پندرہ گھنٹے روزانہ، ساتوں دن کام لیا جارہا تھا۔ انھیں یہ باور کرادیا گیا تھا کہ ان کی جوانی کا وہ دور بہت قیمتی تھا، اس لیے انھیں اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے (پیسہ کمانا چاہیے)۔ لہٰذا وہ دن رات اس سے فائدہ اٹھا رہے تھے، ان کی زندگی کا مقصد بھی اب صرف کام کرنا اور تنخواہ لینا تھا۔

میں، جو خود بھی 2004 ء میں ایک ادارے میں بطور اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار کے ایک سال کام کرچکا تھا، ان تمام مراحل، تجربات و احساسات سے گزر چکا تھا۔ اس لیے نوجوانوں کو استعمال کرنے کے تمام ہتھکنڈوں سے واقف تھا۔ میں بھی کبھی ان ہی نوجوانوں کی طرح پرعزم تھا۔ لیکن پھر میرے ساتھ بھی وہی ہوا جو اب ان نوجوانوں کے ساتھ ہو رہا تھا۔

مجھے بھی کام کی زیادتی میں الجھا کر سوچنے کی صلاحیت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی، صحیح غلط کے چکروں میں پڑنے سے روکا گیا، چودہ پندرہ گھنٹے کام کرنے کے محدود دائرے میں قید کردیا گیا۔ میری لکھنے اور ہدایات کاری کی صلاحیتوں کو اپنی مرضی و مفاد کے مطابق استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، سوال اٹھانے پر یہ جواب ملتا کہ آج کل ایسا ہی چلتا ہے۔ مگر میں اپنے ضمیر اور روح پر پڑتا بوجھ برداشت نہ کرسکا، صرف پیسے اور کیریئر کی خاطر صحیح اور غلط سے آنکھیں بند نہ کرسکا۔

اس روز مجھے لابی میں ان نوجوانوں کے چہروں پر بھی وہی معصومیت دکھائی دے رہی تھی جو کبھی میرے چہرے پر ہوا کرتی تھی۔ ان کی بھی وہی باڈی لینگویج اور تاثرات تھے جو میرے ہوا کرتے تھے۔ اچانک انھیں دیکھتے ہوئے مجھے ان کی حرکات و سکنات اور سوچ سے ظاہر ہوتا ان کے والدین کی آنکھوں اور عقلوں پر پڑا پردہ دکھائی دینے لگا۔ جی ہاں! ان کے والدین کی عقلوں پر، جنھوں نے ان کی ذہنی، ایمانی اور روحانی کوئی تربیت نہ کی تھی۔ ان کی سوچ و کردار کو تعمیر نہ کیا تھا، ان میں موجود ہواؤں کا رخ بدلنے کی طاقت سے انھیں آگاہ نہ کیا تھا۔ دولت کمانے کے سوا انھیں زندگی کا کوئی مقصد نہ سمجھایا تھا۔

ان کے پاس موجود جوانی کے اس قیمتی سرمائے کا احساس نہ دلایا تھا۔ انھیں یہ نہ بتایا تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر معجزے رونما کرسکتے تھے۔ انھیں تاک میں بیٹھے شیطان کی چالوں سے بھی آگاہ نہ کیا تھا۔ اصولوں کا سودا نہ کرنا، ضمیر کی آواز پر ڈٹ جانا، باطل سے ٹکرانا، کچھ بھی نہ سکھایا گیا تھا۔ اگر سکھایا گیا تھا تو فقط یہ کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اچھی نوکری، کاروبار اور آسائشیں تھا۔ کسی بھی قیمت پر خواہ اس کے لیے انھیں اپنے ضمیر کا گلا ہی کیوں نہ گھونٹنا پڑے۔

قصور ان نوجوانوں سے پہلے ان کے والدین و اساتذہ کا تھا جنھوں نے انھیں قوت پرواز ہی عطا نہ کی تھی، علم و مطالعہ سے رغبت ہی پیدا نہ کی تھی، کہ جس کے ذریعے وہ علم و حکمت اور نئی دنیاؤں کے در خود پر اور دنیا پر کھول سکتے، صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم بن سکتے کہ جس نے صرف 16 برس کی عمر میں کردوں کو شکست دی اور ایران میں مسلمانوں کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے۔ وہ کم از کم اس قابل ہوسکتے کہ کوئی انھیں گمراہ یا استعمال نہ کرسکتا۔

مگر ان بے چاروں کو تو اپنے بڑو ں سے ہی ورثہ میں لالچ، علم سے دوری، منافقت اور بے سمتی ملی تھی۔ ان کے سرپرستوں نے ہی ان کا حق ادا نہ کیا تھا۔

چنانچہ آج وہ نوجوان مکمل بے مقصدیت و بے سمتی کا شکار تھے، ان کے جسم تو خوبصورت و متحرک تھے مگر عقل و شعور نہیں، ان کی آنکھیں جسموں کو تو پہچان سکتی تھیں مگر صحیح غلط اور دوست دشمن کو نہیں۔ مجھے لابی میں طنز و مزاح کرتے، قہقہے لگاتے ان نوجوانوں میں سے کسی میں بھی محمد بن قاسم، قائداعظم اور علامہ اقبال کی جھلک دکھائی نہ دی۔ میری نظریں اقبال کے کسی شاہین کو تلاش کرتے ہی رہ گئیں، جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا؛

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں