چھٹی مردم شماریخوش آیند فیصلہ
مردم شماری اس کے علاوہ بھی کئی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
QUETTA:
کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اسے اس امرکا علم نہ ہو کہ اس کی آبادی کتنی ہے اور اس آبادی کے بارے میں بنیادی معلومات کیا ہیں ؟ آبادی میں اضافے کی شرح کیا ہے ؟ اور تعلیمی اعتبار سے آبادی میں کتنا حصہ تعلیم یافتہ کہلانے کا حقدار ہے ؟ ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے دنیا کے تمام ممالک میں ایک مخصوص عرصے کے بعد آبادی کے حجم کا تعین کرنے کی غرض سے مردم شماری کرائی جاتی ہے ۔
مردم شماری کے ذریعے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ملک کی مجموعی آبادی کتنی ہے اور اس آبادی سے متعلق دیگر معلومات بھی اکٹھی کی جاتی ہیں اور آبادی سے متعلق ان معلومات کو ملک کی معاشی منصوبہ بندی میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ تاکہ بہتر نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ مردم شماری ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیا ہیں ۔ ملک کی آبادی میں کتنا اضافہ ہوا ہے ۔ آبادی کا تعلق کس زبان اور نسل سے ہے اور مردوں اور خواتین میں تعلیم کی شرح کیا ہے ۔
مردم شماری اس کے علاوہ بھی کئی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اس طرح ہر ملک مستقبل سے ترقیاتی منصوبے شروع کرتے وقت آبادی اس کی رہائش اور دیگر بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھتا ہے۔ مردم شماری سے بے روزگاری اور غربت کی شرح کا تعین کرنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔ ان دلائل کی روشنی میں مردم شماری کی اہمیت و افادیت سے کسی طور پر انکار نہیں کیاجا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مردم شماری کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر 10 سال کے بعد باقاعدگی سے مردم شماری کا اہتمام کیا جائے گا لیکن یہ افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان کو بنے ہوئے 68 برس ہوچکے ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر وطن عزیز میں محض 5 بار مردم شماری کرائی گئی۔ اور وہ بھی کئی بار اپنے وقت پر نہیں کرائی گئی اگر پاکستان میں باقاعدگی سے مردم شماری ہوتی تو یقینا اب تک 6 مردم شماری مکمل ہوچکی ہوتیں۔ اور ساتویں مردم شماری کی تیاریاں کی جارہی ہوتیں۔
چھٹی مردم شماری 10سال بعد 2008 میں ہونی چاہیے تھی لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے مردم شماری کرانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ یہ ایک اہم قومی مسئلہ ہے جس پر گزشتہ حکومت کو توجہ دینی چاہیے تھی ۔ بہر حال اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ دنوں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا تھا ۔ جس میں چھٹی مردم شماری کرانے کا خوش آیند فیصلہ کیا گیا ہے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چھٹی مردم شماری آیندہ سال مارچ میں ہوگی ۔
مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کے علاوہ بجلی کی پیداوار سے متعلق پالیسی گیس کی تقسیم اور 18 ویں ترمیم کی روشنی میں وفاقی ملازمین کی صوبوں کو منتقلی کے معاملات بھی زیر غور لائے گئے۔
اس سلسلے میں پتہ چلا ہے کہ وزارت خزانہ نے شماریات ڈویژن کے افسران کو مردم شماری کے حوالے سے تفصیلی منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی ہے اور اس ضمن میں ابتدائی تیاریاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک میں 17 سال بعد مردم شماری کرانے کے بارے میں چاروں صوبوں سے بھی تجاویز لی جائیں گی اور ان ہی تجاویز کی روشنی میں مردم وخانہ شماری کی جائے گی۔
ادارہ شماریات کے ذرایع کے مطابق مردم و خانہ شماری کرانے کے لیے دنیا بھر میں رائج جدید طریقوں کو اپنانے کے بارے میں بھی غورکیاجائے گا تاکہ صوبوں کے درمیان مردم وخانہ شماری پر پائے جانے والے شکوک وشبہات کو دور کیا جاسکے ۔ بعض حلقوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ملک میں ہونے والی چھٹی مردم و خانہ شماری کے لیے نادرا حکام سے بھی مدد لینی چاہیے۔ جب کہ مردم و خانہ شماری کے نتائج درست رکھنے کے لیے حساس علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی حکومت تعاون حاصل کرسکتی ہے ۔
امید افزا بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اس اہم قومی مسئلے پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلاکر فوری طور پر مردم و خانہ شماری کے لیے منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کردی ہے ۔ اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت بلاشبہ ہر پاکستانی کے لیے باعث اطمینان ہے اور توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان میں ہونے والی چھٹی مردم وخانہ شماری مارچ 2016 میں اپنے وقت ہی پر ہوگی۔ اس سے قبل پاکستان میں 1951 - 1982 تک مناسب وقت پر چار مردم شماریاں کی گئی تھیں ۔
1982ء میں اصولی طور پر 5 ویں مردم شماری 1992 میں ہونی چاہیے تھی لیکن صوبائی اختلافات سے اور انتظامیہ کی عدم توجہی کی وجہ سے 1992 میں مردم و خانہ شماری نہیں ہوسکی یہ معاملہ کئی برس التوا کا شکار رہا اور پھر آخر 1998 میں 5 ویں بار مردم و خانہ شماری کا اہتمام کیا گیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چھٹی مردم شماری 2008 میں ہونی چاہیے تھی ۔ لیکن افسوس 2008 میں ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
مردم شماری جیسے اہم قومی معاملے کا التوا اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور بعض اوقات اس معاملے میں صوبائی اختلافات بھی غالب رہے۔
جس کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ آبادی کا صحیح حجم معلوم نہ ہونے کے باعث آبادی کی ضروریات کا درست ادراک بھی نہیں کیا جاسکا۔ جس کی وجہ سے سیاسی، اقتصادی اور ترقیاتی محاذ پر ہمیں منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ موجودہ حکومت مردم شماری کرانے کا فیصلہ کرچکی ہے اور یقینا اس فیصلے کو سراہا جانا چاہیے۔