قبضہ گروپ کی کارستانی
’’ یہ مارکیٹ ہے کیا۔ مارکیٹ میں جاؤ۔ یہاں مت ڈیرے لگاؤ۔ یہ گلی کسی کے باپ کی نہیں ہے۔
اجلی رنگت، درمیانہ قد، متناسب ڈیل ڈول، سفید براق شلوار قمیض میں ملبوس آنکھوں پر سنہری نازک فریم والی عینک، وہ خاصا معقول بھلا مانس دکھائی دے رہا تھا، لیکن انتہائی بلند آواز اور غیظ و غضب میں بھرا ان پھل فروشوں پر برس رہا تھا جو قطار بناکر اپنے ٹھیلے اس کے گیٹ کے سامنے اور ادھر ادھر کھڑے تھے۔
'' یہ مارکیٹ ہے کیا۔ مارکیٹ میں جاؤ۔ یہاں مت ڈیرے لگاؤ۔ یہ گلی کسی کے باپ کی نہیں ہے۔'' اس ڈانٹ پھٹکار کا اثر یہ ہو رہا تھا کہ ٹھیلے والے دبے دبے ادھر ادھر اپنے ٹھیلے لے کر رفوچکر ہو رہے تھے۔ اس کی لعن طعن کی بلند پکار سن کر آس پڑوس کے گیٹ بھی کھلے لوگ جھانک تانک کر رہے تھے۔
''کیا ہوا؟'' کسی نے پوچھا تھا۔ ''اجی ہونا کیا ہے۔ جب سے میں پاکستان آیا ہوں، روز ہی دیکھ رہا ہوں۔ یہ پھل والے اپنے اپنے ٹھیلے لے کر محلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کو کوئی روکتا ٹوکتا نہیں کہ یہ ان کے کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے یہ رہائشی علاقہ ہے۔''
''انکل! یہ تو روز ہی کھڑے ہوجاتے ہیں اس وقت۔'' ایک پندرہ سولہ سالہ بچے نے معلومات فراہم کیں۔
''کیوں کھڑے ہوجاتے ہیں، کیا آپ کا فرض نہیں کہ انھیں یہاں نہ کھڑا ہونے دیں۔ میں تو چند دنوں پہلے ہی امریکا سے آیا ہوں۔ پہلے یہ علاقہ نہایت پرسکون رہتا تھا اب جس کا دل چاہتا ہے اپنا ٹھیلہ لے کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ یہاں پکے ہوجائیں گے۔ اپنے علاقے کو صاف رکھنا ہمارا فرض ہے۔ ہم کب تک اس سے آنکھیں چرائیں گے؟'' وہ صاحب اور ان کی فیملی ایک طویل عرصے سے امریکا میں رہائش پذیر تھی کسی زمانے میں وہ اسی علاقے میں رہا کرتے تھے۔
یہ شہر کا خاصا مہنگا علاقہ کہلایا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں خودساختہ قبضہ شروع ہوگیا اور یوں اسے گرہن لگتا گیا۔ یہ پاکستان کے کسی ایک اچھے علاقے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر دوسرے شہرکی کہانی ہے۔ شہری آبادی پہلے خوبصورت گھروں سے شروع ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خوبصورتی بڑھتی آبادی اور چھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے آئے لوگوں کے ہجوم سے بدصورتی میں تبدیل ہوتی جاتی ہے اور جب سب غلط پکا ہوجاتا ہے تو کسی سمجھدار کو خیال آتا ہے کہ یہ تو ناجائز تجاوزات ہیں اور یوں پکے کو کچا کردیا جاتا ہے۔
ان دنوں پاکستان میں اور خاص کر کراچی میں ناجائز تجاوزات کے خلاف مہم جاری ہے جو ایک اچھا عمل ہے لیکن اس اچھے عمل کے پیچھے ایک اور تصویر ہے اس تصویر کو ہم کیا نام دیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس عروس البلاد شہر کی رونقیں، خوبصورتیاں، خوشیاں، مسکراہٹیں، روشنیاں اگر ان ناجائز تجاوزات کے خاتمے پر لوٹ آتی ہیں تو لے آئیے کہ اب اس زمین کی مٹی بہت تھک چکی ہے شہر کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک، زمین سے لے کر پہاڑوں تک، میدانوں سے لے کر بیابانوں تک قبضے کی ایک لہر چل چکی ہے۔
اسے روکنے کی ذمے داری اگر حکومت نے اٹھا ہی لی ہے تو اسے مکمل ہی کرکے چھوڑیں کیونکہ اس قبضے کے درپردہ پورے شہر میں بدامنی کی فضا برقرار ہے۔ شہری اب بھی کھلے عام سفر کرتے ڈرتے ہیں ۔ ہماری ایک عزیزہ لاہور گھومنے پھرنے گئیں، وہاں ایک شاپنگ پلازہ میں خواتین کو مہنگے موبائل فونز پر باتیں کرتے دیکھا تو حیرانگی سے ان سے پوچھا کہ کیا لاہور میں موبائل چھیننے والے نہیں ہوتے۔ جواباً خواتین نے انھیں اس طرح پوچھتے حیران ہوکر دیکھا۔
ہر ایک برائی کے پیچھے برائی ہی ہوتی ہے اگر آپ کراچی یا لاہور کے ان علاقوں کا سروے کریں جہاں لوگوں نے قبضہ کرکے رہائش یا کاروبار شروع کیا ہوا ہے تو وہاں آپ کو ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ملے گی جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں یا دور دراز سے آئے ہوئے ہیں۔اکثر غیر ملکی بھی ایسے ہی علاقوں میں پناہ گزین ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں چوری ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم کی ایک شاخ کا سرا ایسے علاقوں سے جڑا ہوتا ہے۔
دھابیجی کے پاس جہاں سے کراچی کو آب رسانی کی جاتی ہے ایسے ہی قبضہ گروپوں نے قیمتی زمینوں کو اپنے تصرف میں لے رکھا ہے جس سے نہ صرف محکمے والوں کو مشکل درپیش آرہی ہے کہ ان کی کھدائی کے درمیان ایسے قبضہ گروپوں کی ناجائز تجاوزات رکاوٹ بن رہی ہیں صرف یہی نہیں بلکہ یہ لوگ وہاں سے بغیر کسی ٹیکس اور روک ٹوک کے بڑی آسانی سے پانی چوری کرکے استعمال کر رہے ہیں آخر اتنے بڑے پکے گھر اور چھوٹے بڑے ناجائز کارخانے راتوں رات تو نہیں بن گئے اور اگر بن گئے تو اب تک محفوظ کیوں ہیں صرف یہی نہیں اسکیم 33 کے کئی علاقے بھی ایسے ہی قبضہ گروہوں کی زد میں ہیں۔
ان گروہوں کا تعلق کہاں سے کہاں تک پہنچتا ہے اس تک رسائی مشکل تو نہیں لیکن مشکل بنائی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کی سیاسی روش کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ یہاں مل بانٹ کر ملک سنوارنے کی بجائے مل بانٹ کرکھایا جاتا ہے ۔
بہرحال اس بڑی خامی کی وجہ سے ہمارے یہاں قبضے تو ہو ہی رہے ہیں کہ یہ اندر کے معاملے ہیں لیکن باہر کے معاملے میں بھی ہم نے کچھ ایسی ہی روش اختیار کر رکھی ہے کہ پہلے ہم کچے کو پکا ہونے دیتے ہیں اور جب وہ خوب توانا ہو جاتا ہے تو ہم گلے شکوے کرتے ہیں کہ باہر ہماری سیاسی رسائی کسی کام نہیں آتی۔
ہم کسی بھی وجہ سے اس پکنے توانا ہونے کے عمل میں خاموش رہتے ہیں پھر اس پر قبضے کے بعد حجت و تکرار میں اپنا وقت اور خوب پیسہ ضایع کردیتے ہیں اور اس طرح ہم اپنے قیمتی آبی ذخائر پر تو ڈاکا ڈلوا ہی چکے ہیں، سنتے رہتے ہیں کہ بھارتی آبی جارحیت پاکستان کی معیشت کی کمر توڑ دے گی، پاکستان کی غذائی صلاحیتوں کو خطرہ ہے پھر قومی سلامتی کی بھی بات آئے گی، ہم بھارت کو ڈیمز بنانے کے منصوبوں سے باز نہ رکھ سکے وہ چالیس سے زائد ڈیمز بنانے پر تلا ہوا ہے کام چل رہا ہے۔
ایک جانب سے سارا پانی روکنے کے در پر ہے تو دوسری جانب اتنا پانی چھوڑنے کے منصوبے ہیں جو ایک بڑے علاقے کو ڈبو دے گا، ہم مصروف بہت ہیں وقت نہیں ہے۔ بہرحال اندرونی اور بیرونی قبضے کی اس کہانی میں ہمیں کس کس حد تک کس کس مد تک نفع پہنچ سکتا ہے اس پر بھی غور کریں۔ یہ بھی غور کریں کہ بات پہلے ایک محلے ایک گلی ایک علاقے سے شروع ہوتی ہے جو پورے ملک پر محیط ہوجاتی ہے۔ دیر تو خاصی ہوچکی ہے پر اندھیر نہ ہونے دیں۔