یونیورسٹیوں میں میکارتھی ازم

ویتنام کی جنگ کے خلاف خیالات امریکی یونیورسٹیوں میں پھیل گئے...

tauceeph@gmail.com

ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی میں بلوچستان کے موضوع پر ہونے والے مباحثے کو آخری لمحات میں منسوخ کردیا گیا۔ اس مباحثے میں بلوچستان کے لاپتہ افراد کے بارے میں مہم چلانے والے ایک کارکن بھی شرکت کررہے تھے۔

اس کارکن کے خیالات کو بعض حلقے متنازعہ جانتے ہیں مگر اعلیٰ معیار کی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طالب علم ملک کے ایک اہم ترین صوبے میں ہونے والی ہنگامہ خیزی کے بارے میں مختلف ماہرین اور سیاسی کارکنوں کے خیالات کو براہِ راست سننے اور ان خیالات کے پس پردہ محرکات کو جانچنے اور ان خیالات میں پائے جانے والے تضادات کے بارے میں جاننے سے محروم رہ گئے۔

تربت میں 20 سے زائد مزدوروں کی ہلاکتوں جیسے واقعات کے بعد ایسے مباحث کی اہمیت بڑھ گئی۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیاں دیگر تعلیمی اداروں سے اسی بناء پر ممتاز حیثیت کی حامل ہوتی ہیں کہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طالب علم تدریسی عمل میں شرکت کے ساتھ تحقیق کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ تحقیق کے لیے بنیادی انفرااسٹرکچر کی فراہمی کے ساتھ حقائق جاننے کی آزادی اور نئے نظریات مرتب کر کے انھیں پیش کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔

اساتذہ ،طلبہ، ماہرین، سماجی کارکن اور سیاستدان ان نئے نظریات پر آسانی سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ اس بحث و مباحثے کے نتائج پر نئے نظریات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ نظریات سماجی رویوں کے ارتقاء اور ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بڑی یونیورسٹیوں نے ایسے سائنسدانوں، فلسفیوں اور سیاسی رہنماؤں کے خیالات کو جاننے کی کوشش کی ہے جو اپنے دور میں متنازعہ سمجھے جاتے تھے۔ دنیا کی قدیم یونیورسٹی آکسفورڈ اورکیمبرج ہمیشہ اس حوالے سے ممتاز حیثیت کی حامل رہی ہیں۔

تاریخ کے مطالعے سے یہ دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں کہ برطانیہ سرمایہ داری کا مرکز رہا اور بڑھتی ہوئی سرمایہ داری نے سامراج کی شکل اختیار کرلی اور دنیا بھر میں نوآبادیات قائم کیں۔ مگر اس استعماریت کے خلاف سوشلسٹ نظریات برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں پروان چڑھے۔ سرمایہ داری کی قبر کھودنے والے عظیم فلسفی کارل مارکس کے نظریات پر آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں میں بحث ہوئی اور کئی مفکرین نے نئے سوشلسٹ نظریات پیش کیے۔

ان نظریات میں ریاست کی سماجی ذمے داریوں پر خصوصی طور پر زور دیا گیا، یوں برطانیہ نے سرمایہ داری کے ساتھ ریاست کی بنیادی ذمے داریوں کے نظریات کو بھی قبول کیا۔ یہی وجوہات تھیں کہ برطانیہ نے فلاحی ریاست کے تصورکو قبول کرکے برطانیہ میں ارتقاء پانے والی مضبوط مزدور تحریک کو ریاست پر قبضہ کرنے اور پرولتاری آمریت قائم کرنے کے ہدف کو خوبصورتی سے ناکام بنادیا۔

جب امریکا میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونسٹوں کے خلاف مہم شروع ہوئی اور امریکی فوجی جنرل میکارتھی کے نظریے اور میکارتھی ازم کو تقویت ملی تو یونیورسٹیوں سے سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کو چن چن کر نکال دیا گیا اور یونیورسٹیوں میں مخالف نظریات کو بننے اور بحث و مباحثے پر پابندی لگادی گئی۔ اس زمانے میں ممتاز فلسفی معیشت ، صحافی اور ادیب سید سبط حسن امریکا میں تھے۔ وہ میکارتھی ازم کا شکار ہوئے اور جیل میں بند کردیے گئے تھے۔

امریکا کی یونیورسٹیوں میں میکارتھی ازم کے تضاد سے ان کا بنیادی کردار متاثر ہوا۔ معروف فلسفی برٹرینڈ رسل امریکا کی اس صورتحال سے خاصے مایوس تھے۔ امریکی ریاست کے منحرفین نوم چومسکی ،ایڈورڈ سعید ، ڈاکٹر اقبال احمد پر امریکی یونیورسٹیوں کے دروازے بند رہے مگر امریکی ریاست مخالف نظریات کو یونیورسٹیوں میں پھیلنے سے نہیں روک سکی۔


ویتنام کی جنگ کے خلاف خیالات امریکی یونیورسٹیوں میں پھیل گئے اور 60ء کے عشرے کے آخری برسوں میں امریکی یونیورسٹیاں امریکا کی ویتنام کی جنگ میں مداخلت کے خلاف احتجاج کے مراکز میں تبدیل ہوگئی تھیں۔ برصغیر میں 1856ء میں کلکتہ ، مدارس اور بمبئی میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اگرچہ برطانوی ہند حکومت ہندوستان کے شہریوں کو آزادئ رائے اور جاننے کے حق کی آزادی جیسے حقوق دینے پر تیار نہیں تھی مگر انگریز حکمرانوں نے یونیورسٹیوں کی خودمختاری کی بنیاد رکھی۔

ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کرنے والے رہنماؤں، ادیبوں اور دانشوروں کا داخلہ خاصے عرصے تک ممنوع رہا مگر پھر اساتذہ اور طلبہ کی کوششوں کی بناء پرانگریز مخالف خیالات رکھنے والے سیاستدانوں اور دانشوروں کو یونیورسٹیوں میں مدعو کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مولانا حسرت موہانی جیسے کئی طالب علم اپنا حق اظہارِ آزادی استعمال کرنے پر یونیورسٹی سے خارج کردیے گئے۔ بدقسمتی سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا شمار بھی ان یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔

جہاں اساتذہ اور طالب علموں پر سخت قسم کی پابندیاں تھیں مگر پھر مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد اور محمد علی جناح کی یونیورسٹیوں میں تقاریر اور طلبہ کے سوالات اور قائدین کے جوابات سے متعلق دستاویزات کتابوں میں ملتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ریاست کی ترجیح ایک جامع آئین اور جمہوری ریاست کا قیام نہیں تھا ، اسی بناء پر یونیورسٹیوں کو سخت قوانین کے ذریعے کنٹرول کیا گیا۔ حکومت مخالف سیاستدانوں، دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کا یونیورسٹیوں میں داخلہ ممنوع رہا۔ انسانی حقوق کے کارکن اور معروف صحافی حسین حقانی 60ء کی دھائی میں کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔

معروف مؤرخ مسلم لیگ کے سابق رہنما ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ، کراچی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم بلوچ طالب علموں نے بلوچ رہنماؤں کو ایک سیمینار میں شرکت کے لیے کراچی یونیورسٹی مدعو کیا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے بلوچ طالب علموں کو اظہار وجوہ کے نوٹس دیے اور تادیبی کارروائی شروع کی۔ حسین نقی صاحب نے احتجاج کیا، یوں حسین نقی یونیورسٹی سے نکال دیے گئے اور نقی صاحب ایم اے سیاسیات کی ڈگری حاصل کرنے سے محروم رہے مگروہ یونیورسٹیوں میں جدوجہد کی تاریخ کا علامت بن گئے۔

فوجی ادوار میں پاکستان میں یونیورسٹیوں کی خودمختاری پر پابندیاں عائد رہیں، اساتذہ اور طلبہ اپنی تحقیق کے لیے پرائمری ذریعہ تک پہنچنے، آزادانہ طور پر مواد جمع کرنے اور اس مواد کی بنیاد پر نتائج مرتب کرنے اور تحقیق کو مباحثہ کے لیے پیش کرنے کے مراحل پر مختلف نوعیت کی پابندیوں کا شکار رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین کے ادارے پر پابندی لگا کر طلبہ کو جمہوری تربیت سے محروم کردیا گیا۔ اس صورتحال کا ایک نتیجہ تو یہ برآمد ہوا کہ یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق کے موضوعات غیر حقیقی ہوگئے اور تحقیق کا معیار متاثر ہوا۔

طلبہ میں مخالف خیالات کو سننے اور انھیں برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی چلی گئی جس کے نتیجے میں غیر سیاسی اور فرسودہ نظریات کو تقویت ملی اور کئی یونیورسٹیاں انتہاپسندانہ نظریات کے مراکز میں تبدیل ہوگئیں۔ جن اساتذہ اور طلبہ نے مختلف ادوار میں علمی آزادی کے ادارے کو پامال کرنے والی صورتحال کے خلاف صدا لگائی وہ راندہ درگاہ بن گئے۔ چکوال سے تعلق رکھنے والے پاکستان نیوی کے سابق کمانڈر ایوب ملک کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے بعض قوم پرستوں کو پنجاب سے شکایات ہیں۔ ان میں سے کچھ حقائق پر مبنی ہیں اور کچھ درست نہیں ہیں۔ جیو پولیٹیکل صورتحال سے عدم واقف کچھ گروہ مسلح جدوجہد اور آزاد بلوچستان کے نعرے کے سحر میں مبتلا ہیں۔ ان گروہوں کو پنجاب میں بڑھتے ہوئے سیاسی شعور کا اندازہ نہیں ہے۔

ابلاغ کا خلا ہے، اگر ان گروہوں سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو پنجاب کی یونیورسٹیوں میں نوجوان طالب علموں کے سامنے اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع دیا جائے تو انھیں نوجوانوں سے بات چیت کا موقع ملے تو ایک طرف انھیں پنجاب کے بارے میں اپنے خیالات پر نظرثانی کی ضرورت پڑے گی تو دوسری جانب نوجوانوں کو ان کے حقیقی مسائل کا بھی علم ہو، یونیورسٹیاں بلوچوں کے مسائل کے حل کے لیے تحقیق کرنے کی نئی راہیں تلاش کرسکیں گی۔

یہ دو طرفہ ڈائیلاگ ہی فیڈریشن کو مضبوط کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ اگر ان عناصر پر یونیورسٹیوں کے داخلے بند کردیے گئے تو پھر فاصلے بڑھیں گے اور ویسی ہی فضاء پیدا ہوگی جیسی 1947ء سے 1971ء تک تھی۔ محقق سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ تربت میں مزدوروں کی الم ناک ہلاکت جیسے واقعات کے بعد یہ ضروری ہے کہ ان معاملات پر یونیورسٹیوں میں کھل کر بحث ہو تاکہ حقائق واضح ہوں اورکوئی گروہ رائے عامہ کو گمراہ نہ کرسکے۔ انسانی حقوق کمیشن نے اس مباحثے کی منسوخی کی مذمت کی، جمہوری دور میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ اس مباحثے کی منسوخی کی وجوہات کا سامنا ضروری ہے۔ اس طرح کے مباحثوں سے ہی حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ سماجی امورکے ماہر ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں میکارتی ازم کے نفاذ سے نہ صرف علمی آزادی کے ادارے کو کچل دے گا بلکہ سماجی کشمکش بھی بڑھ جائے گی جس کا فائدہ طالع آزما قوتوں کو ہوگا اور جمہوری حکومت کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔
Load Next Story