بھارت چین تعلقات اور ہم
ساٹھ کے عشرے میں چیئرمین ماؤزے تنگ نے چین کا دورہ کرنے والے بھارتی پارلیمان کے اسپیکر ...
WASHINGTON:
یہ منظر میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ چین کے دارالحکومت، بیجنگ، میں پاکستانی سفارت خانے کے اندر داخل ہوں تو دائیں جانب پاکستان کے مختلف حکمرانوں کی چینی قیادت سے براہ راست ملاقاتوں کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ یہ پاک چین تعلقات کی ایک تصویری تاریخ بھی ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو ان میں نمایاں اور غالب نظر آرہے ہیں۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بھٹو کے بعد ہمارے کتنے حکمران تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں چین کو سمجھا اور یہ بھی کہ آخر بھارت اور چین آج سالانہ 65 ارب ڈالر کی باہمی تجارت میں کیسے بندھ گئے؟ چین کا بھارت سے معاشی معانقہ اور معاشقہ اور اعلیٰ چینی قیادت کی بھارت یاترائیں ہمارے لیے کیا پیغام رکھتی ہیں؟
دس مارچ 2015ء کو چینی وزیرِخارجہ وینگ ژی نے بیجنگ میں کہا: ''گزشتہ برس ستمبر میں ہمارے صدر ژی جِن پنگ کا جس گرمجوشی اور شاندار انداز سے بھارت میں خیر مقدم کیا گیا، اس کے جواب میں چینی عوام بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مئی 2015ء میں دورئہ چین کے منتظر ہیں تاکہ ان کا پُرجوش انداز میں استقبال کیا جاسکے۔''
انھوں نے مزید کہا: ''چین کا اژدھا اور بھارت کا ہاتھی ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں۔ ہم دونوں ممالک دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں ہیں، اس لیے چینی عوام یہ چاہتے ہیں کہ بھارت اور چین کے درمیان جو سرحدی تنازعات موجود ہیں، انھیں پہلے حل کر لیا جائے۔''بھارت چین تعلقات میں اعتبار کا عنصر نمایاں ہوکر سامنے آرہا ہے۔
ساٹھ کے عشرے میں چیئرمین ماؤزے تنگ نے چین کا دورہ کرنے والے بھارتی پارلیمان کے اسپیکر (آئینگر) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: ''ہمیں یورپ اور برطانیہ کی کوئی پروا نہیں۔ تکنیکی اعتبار سے امریکا سے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں امریکا کے برابر پہنچنے کے لیے پچاس سال مزید محنت کرنا ہوگی۔'' اب اس بات کو کہے پچاس برس پورے ہونے کو ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین اور امریکا طاقت و حشمت میں مساوی ہوچکے ہیں۔
اس سلسلے میں بھارت کے نامور سابق سفارتکار، ممتاز ترین بیوروکریٹ اور کانگریس پارٹی کے مہاگرو جناب کنورنٹور سنگھ نے شایع ہونے والی اپنی تازہ یادداشتوں میں ایک حیرت انگیز واقعہ لکھا ہے۔ وہ یوں رقمطراز ہیں: ''مئی 1966ء میں اندرا گاندھی کے وزیراعظم ہند بنتے ہی ماؤزے تنگ نے چین میں ثقافتی انقلاب کا آغاز کردیا۔ مَیں اُن دنوں بیجنگ میں تھا۔ ماؤکے ریڈ گارڈز نے ملک بھر میں ایک شور بپا کردیا تھا اور انھیں ماؤکی اشیرواد حاصل تھی۔
اس شور میں بھارت کو نیچا دکھانے اور پریشان کرنے کی بھی دانستہ کوششیں کی گئیں۔ بیجنگ میں بھارتی سفارتخانے پر ریڈ گارڈز کا شدید پتھراؤ، جس میں عمارت کے بڑے بڑے شیشے اور دروازے ٹوٹ گئے، انھی کوششوں کا شاخسانہ تھا۔ اس ثقافتی انقلاب کے دوران ایک دن ہمارے سفارتخانے کے دو نوجوان افسر پکنک منانے مغربی پہاڑیوں کی جانب گئے۔
وہاں انھوں نے بعض خوشنما مناظر کی فوٹو بھی بنائیں۔ اچانک انھیں گرفتار کرلیا گیا اور فوراً بعد چین میں اعلان کیا گیا کہ انھیں سزائے موت بھی دی جائے گی۔ بھارت تو تھراّ کر رہ گیا۔ یہ دراصل ماؤزے تنگ اور ان کے ریڈ گارڈز کی طرف سے اپنے مخالفین کو نفسیاتی طور پر ہراساں کرنے اور ان کا مورال توڑنے کا ایک ہتھکنڈہ تھا۔
بھارتی افسروں کی حراست پر دنیا بھر سے چینی قیادت پر بہت دباؤ آیا۔ آخر کار چین نے دونوں افسروں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اور اس سے پہلے کہ دونوں کو کسی جہاز پر بٹھا کر چین سے بھارت بھیجا جاتا، چینی حکومت نے دونوں بھارتی افسروں کو ایک کھلے ٹرک میں بٹھایا اور دو لاکھ کے مجمعے کے سامنے پھرایا۔ بے پناہ ہجوم میں سے کسی نے آگے بڑھ کر ہمارے افسروں کو گھونسے مارے اور کئی چینیوں نے دونوں بے بس بھارتی افسروں پر تھوکا بھی۔''
عالمی سفارتی آداب کے تحت یہ عمل ناقابلِ برداشت تھا لیکن بھارت اور اس کے مقتدر سیاستدانوں نے طاقتور چین سے متصادم ہونے کے بجائے صبر کرنے کو ترجیح دی۔ صبر اور تحمل کا یہ بھارتی رویہ مستقبل میں نفع بخش ثابت ہوا۔ بھارت خاموشی کے ساتھ، کوئی ڈینگ اور بڑھک مارے بغیر، آگے بڑھتا گیا۔ نوبت ایں جارسید کہ آج بھارت معاشی اور عالمی اثرورسوخ کے اعتبار سے چین کے مقابل کھڑا ہے۔
دونوں ممالک آج کئی طاقتور عالمی منصوبوں میں ایک دوسرے کے ہمرکاب اور ہم نوا ہیں۔ مثلاً: BRICSبینک کا اجرا جس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ یکساں طور پر شامل ہیں۔ چین کو اس کا پہلا چیئرمین بنایا گیا ہے اور بھارت کی باری دوسری ہے۔ چین نے کمال دانش مندی سے پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی انگیج کر رکھا ہے۔
ہمارے لیے بھارت چین تعلقات کے اس منظر نامے میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں، بشرطیکہ ہم صبر اور تحمل کا دامن تھامے رکھیں۔ اگر چین شہد سے زیادہ ہمارا میٹھا دوست ہے تو کیا ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں میں اتنی قابلیت و اہلیت ہے بھی کہ وہ چین کے بین السطور مشوروں کو پوری طرح سمجھ سکیں؟ چین جب ہمیں یہ مشورہ دیتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود بھارت سے بہترین تعلقات استوار کرسکتے ہو تو کیا ہمارے فیصلہ سازوں کو یہ مشورہ قبول ہے؟
ہماری وزارتِ خارجہ میں اور ہمارے حکمرانوں کی آنکھ اور کان کا دعویٰ کرنے والے کتنے بیورو کریٹ اور بابو ہوں گے جنہوں نے ماؤزنے تنگ کی وضع کردہ پالیسیوں کو سمجھنے کے لیے ایڈگر سنو کی معرکہ آرا تصنیف Red Star Over China کا مطالعہ کیا ہوگیا؟ یہ وہ حیرت انگیز کتاب ہے جس کے بارے میں امریکی شہ دماغ ہنری کسنجر نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اگر امریکی بیوروکریسی اس کتاب کا گہری نظر سے مطالعہ کر لیتی تو امریکیوں کو چین سے تعلقات استوار کرنے کے لیے (ستّر کے عشرے میں) پاکستان اور پاکستانی صدر جنرل یحییٰ خان کا دستِ نگر نہ بننا پڑتا۔
مگر حکمرانوں کے ساتھ چین کا دورہ کرنے والے ہمارے بیوروکریٹ اور سیاستدان، جو چین کو سمجھنے کے بجائے بیجنگ کی سِلک مارکیٹ میں شاپنگ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، ایڈ گر سنو کی کتاب کی اہمیت کیا جانیں؟ سابق سفیر جناب کرامت اللہ غوری نے اپنی قیمتی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ''بارِشناسائی'' میں لکھا ہے کہ چین کا دورہ کرنے والے ہمارے ایک (سابق) حکمران کی بیگم صاحبہ نے سِلک مارکیٹ سے 43ہزار روپے فی میٹر کا کپڑا خریدا اور اس کی ادائیگی قومی خزانے سے کی گئی۔
یہ منظر میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ چین کے دارالحکومت، بیجنگ، میں پاکستانی سفارت خانے کے اندر داخل ہوں تو دائیں جانب پاکستان کے مختلف حکمرانوں کی چینی قیادت سے براہ راست ملاقاتوں کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ یہ پاک چین تعلقات کی ایک تصویری تاریخ بھی ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو ان میں نمایاں اور غالب نظر آرہے ہیں۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بھٹو کے بعد ہمارے کتنے حکمران تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں چین کو سمجھا اور یہ بھی کہ آخر بھارت اور چین آج سالانہ 65 ارب ڈالر کی باہمی تجارت میں کیسے بندھ گئے؟ چین کا بھارت سے معاشی معانقہ اور معاشقہ اور اعلیٰ چینی قیادت کی بھارت یاترائیں ہمارے لیے کیا پیغام رکھتی ہیں؟
دس مارچ 2015ء کو چینی وزیرِخارجہ وینگ ژی نے بیجنگ میں کہا: ''گزشتہ برس ستمبر میں ہمارے صدر ژی جِن پنگ کا جس گرمجوشی اور شاندار انداز سے بھارت میں خیر مقدم کیا گیا، اس کے جواب میں چینی عوام بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مئی 2015ء میں دورئہ چین کے منتظر ہیں تاکہ ان کا پُرجوش انداز میں استقبال کیا جاسکے۔''
انھوں نے مزید کہا: ''چین کا اژدھا اور بھارت کا ہاتھی ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں۔ ہم دونوں ممالک دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں ہیں، اس لیے چینی عوام یہ چاہتے ہیں کہ بھارت اور چین کے درمیان جو سرحدی تنازعات موجود ہیں، انھیں پہلے حل کر لیا جائے۔''بھارت چین تعلقات میں اعتبار کا عنصر نمایاں ہوکر سامنے آرہا ہے۔
ساٹھ کے عشرے میں چیئرمین ماؤزے تنگ نے چین کا دورہ کرنے والے بھارتی پارلیمان کے اسپیکر (آئینگر) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: ''ہمیں یورپ اور برطانیہ کی کوئی پروا نہیں۔ تکنیکی اعتبار سے امریکا سے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں امریکا کے برابر پہنچنے کے لیے پچاس سال مزید محنت کرنا ہوگی۔'' اب اس بات کو کہے پچاس برس پورے ہونے کو ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین اور امریکا طاقت و حشمت میں مساوی ہوچکے ہیں۔
اس سلسلے میں بھارت کے نامور سابق سفارتکار، ممتاز ترین بیوروکریٹ اور کانگریس پارٹی کے مہاگرو جناب کنورنٹور سنگھ نے شایع ہونے والی اپنی تازہ یادداشتوں میں ایک حیرت انگیز واقعہ لکھا ہے۔ وہ یوں رقمطراز ہیں: ''مئی 1966ء میں اندرا گاندھی کے وزیراعظم ہند بنتے ہی ماؤزے تنگ نے چین میں ثقافتی انقلاب کا آغاز کردیا۔ مَیں اُن دنوں بیجنگ میں تھا۔ ماؤکے ریڈ گارڈز نے ملک بھر میں ایک شور بپا کردیا تھا اور انھیں ماؤکی اشیرواد حاصل تھی۔
اس شور میں بھارت کو نیچا دکھانے اور پریشان کرنے کی بھی دانستہ کوششیں کی گئیں۔ بیجنگ میں بھارتی سفارتخانے پر ریڈ گارڈز کا شدید پتھراؤ، جس میں عمارت کے بڑے بڑے شیشے اور دروازے ٹوٹ گئے، انھی کوششوں کا شاخسانہ تھا۔ اس ثقافتی انقلاب کے دوران ایک دن ہمارے سفارتخانے کے دو نوجوان افسر پکنک منانے مغربی پہاڑیوں کی جانب گئے۔
وہاں انھوں نے بعض خوشنما مناظر کی فوٹو بھی بنائیں۔ اچانک انھیں گرفتار کرلیا گیا اور فوراً بعد چین میں اعلان کیا گیا کہ انھیں سزائے موت بھی دی جائے گی۔ بھارت تو تھراّ کر رہ گیا۔ یہ دراصل ماؤزے تنگ اور ان کے ریڈ گارڈز کی طرف سے اپنے مخالفین کو نفسیاتی طور پر ہراساں کرنے اور ان کا مورال توڑنے کا ایک ہتھکنڈہ تھا۔
بھارتی افسروں کی حراست پر دنیا بھر سے چینی قیادت پر بہت دباؤ آیا۔ آخر کار چین نے دونوں افسروں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اور اس سے پہلے کہ دونوں کو کسی جہاز پر بٹھا کر چین سے بھارت بھیجا جاتا، چینی حکومت نے دونوں بھارتی افسروں کو ایک کھلے ٹرک میں بٹھایا اور دو لاکھ کے مجمعے کے سامنے پھرایا۔ بے پناہ ہجوم میں سے کسی نے آگے بڑھ کر ہمارے افسروں کو گھونسے مارے اور کئی چینیوں نے دونوں بے بس بھارتی افسروں پر تھوکا بھی۔''
عالمی سفارتی آداب کے تحت یہ عمل ناقابلِ برداشت تھا لیکن بھارت اور اس کے مقتدر سیاستدانوں نے طاقتور چین سے متصادم ہونے کے بجائے صبر کرنے کو ترجیح دی۔ صبر اور تحمل کا یہ بھارتی رویہ مستقبل میں نفع بخش ثابت ہوا۔ بھارت خاموشی کے ساتھ، کوئی ڈینگ اور بڑھک مارے بغیر، آگے بڑھتا گیا۔ نوبت ایں جارسید کہ آج بھارت معاشی اور عالمی اثرورسوخ کے اعتبار سے چین کے مقابل کھڑا ہے۔
دونوں ممالک آج کئی طاقتور عالمی منصوبوں میں ایک دوسرے کے ہمرکاب اور ہم نوا ہیں۔ مثلاً: BRICSبینک کا اجرا جس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ یکساں طور پر شامل ہیں۔ چین کو اس کا پہلا چیئرمین بنایا گیا ہے اور بھارت کی باری دوسری ہے۔ چین نے کمال دانش مندی سے پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی انگیج کر رکھا ہے۔
ہمارے لیے بھارت چین تعلقات کے اس منظر نامے میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں، بشرطیکہ ہم صبر اور تحمل کا دامن تھامے رکھیں۔ اگر چین شہد سے زیادہ ہمارا میٹھا دوست ہے تو کیا ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں میں اتنی قابلیت و اہلیت ہے بھی کہ وہ چین کے بین السطور مشوروں کو پوری طرح سمجھ سکیں؟ چین جب ہمیں یہ مشورہ دیتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود بھارت سے بہترین تعلقات استوار کرسکتے ہو تو کیا ہمارے فیصلہ سازوں کو یہ مشورہ قبول ہے؟
ہماری وزارتِ خارجہ میں اور ہمارے حکمرانوں کی آنکھ اور کان کا دعویٰ کرنے والے کتنے بیورو کریٹ اور بابو ہوں گے جنہوں نے ماؤزنے تنگ کی وضع کردہ پالیسیوں کو سمجھنے کے لیے ایڈگر سنو کی معرکہ آرا تصنیف Red Star Over China کا مطالعہ کیا ہوگیا؟ یہ وہ حیرت انگیز کتاب ہے جس کے بارے میں امریکی شہ دماغ ہنری کسنجر نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اگر امریکی بیوروکریسی اس کتاب کا گہری نظر سے مطالعہ کر لیتی تو امریکیوں کو چین سے تعلقات استوار کرنے کے لیے (ستّر کے عشرے میں) پاکستان اور پاکستانی صدر جنرل یحییٰ خان کا دستِ نگر نہ بننا پڑتا۔
مگر حکمرانوں کے ساتھ چین کا دورہ کرنے والے ہمارے بیوروکریٹ اور سیاستدان، جو چین کو سمجھنے کے بجائے بیجنگ کی سِلک مارکیٹ میں شاپنگ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، ایڈ گر سنو کی کتاب کی اہمیت کیا جانیں؟ سابق سفیر جناب کرامت اللہ غوری نے اپنی قیمتی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ''بارِشناسائی'' میں لکھا ہے کہ چین کا دورہ کرنے والے ہمارے ایک (سابق) حکمران کی بیگم صاحبہ نے سِلک مارکیٹ سے 43ہزار روپے فی میٹر کا کپڑا خریدا اور اس کی ادائیگی قومی خزانے سے کی گئی۔